نیکی اور بدی

بعض دفعہ نیک نیکی کر کے جھنم اور گنہگار گناہ کر کے جنت چلا جاتا ھے –
نیک کی نیکی اس کو رب سے بےنیاز کرتی چلی جاتی ھے اور وہ سمجھتا ھے کہ وہ نیکیوں کی صورت میں اتنا سرمایہ رکھتا ھے کہ Merit پر جنت کا حقدار ھے – اس کے نتیجے میں اللہ پاک اس پر اپنی نعمتوں کی کٹوتی کا حکم لاگو فرما دیتے ھیں ،، ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم ، اس دن پھر تم سے نعمتوں کے بارے میں سوال ھو گا ،، ایک معمولی نعمت انسان کی ساری نیکیاں کھا جا ئے گی اور وہ لرزتی ٹانگوں اور کپکپاتے ھونٹوں کے ساتھ یہ سب دیکھ رھا ھو گا ، اس دن اس کو پتہ چلے گا کہ نیکی کی حقیقت رب کی رضا سے جڑی ھوئی ھے ،

دوسری جانب ایک گنہگار گناہ کی وجہ سے اللہ پاک سے اس قدر خوفزدہ ھو جاتا ھے کہ نیک ساری زندگی اس قدر نہیں ڈرا ھو گا نیز وہ گناہ کی وجہ سے اللہ سے استحقاق سمجھ کر کچھ مانگتا بھی نہیں ھے ،جو مل جائے یہ سمجھ کر شکریئے کے ساتھ لے لیتا ھے کہ ھم تو اس کے قابل بھی نہیں تھے، اس وقت اللہ کی رحمت اس گنہگارکی طرف سمندر کی لہر کی طرح لپکتی اور اپنی لپیٹ میں لے لیتی ھے –
میں ایک دوست کے گھر گیا ھوا تھا ، اس کا اکلوتا بیٹا تھا، شاید 3 سال اس کی عمر تھی وہ ھمارے سامنے ٹپائی پر پڑی دال سیویاں کی پلیٹ کی طرف آیا اور ان کو اٹھا کر منہ سے لگا کر کھانے لگا ، دوسرے کمرے سے اس کو ماں دیکھ رھی تھی اس نے زور سے اس کا نام لیا تو بدک کر پلیٹ بچے کے ہاتھ سے گر گئ ، بس لگتا تھا کہ بچے کی جان ھی نکل گئ ھے ، اس کی سانس رک گئ رنگ پیلا پڑ گیا ، اور بدن پر کپکپی سی طاری ھو گئ ،، وہ سوچ رھا ھو گا جس ماں نے سیویاں کھانے پر اس کواتنی سختی سے ڈانٹ دیا تھا وہ پلیٹ ٹوٹنے پر کیا حشر کرے گی ،، اس کی ماں نے جب بچے کی یہ حالت دیکھی تو پردے کا خیال کیئے بغیر دوپٹے میں ھی دوڑتی آئی اور بچے کو سینے سے لگا لیا اور اس کو تسلی دینے لگی مگر بچے کے چہرے پر بےیقینی کی سی کیفیت تھی ، یہ دیکھ کر ماں نے اس کو اعتبار دلانے کے لئے دوسری پلیٹ اٹھا کر فرش پر مار کر توڑ دی کہ بیٹا دیکھ میں نے بھی تو توڑ دی ھے ، اس کی کوئی قیمت نہیں ،، بس آگے آپ تصور کر سکتے ھیں کہ ڈرنے والے سے رب کیا کرے گا ،