نبئ کریم کی پرشفقت تبلیغ اور کشادہ دلی

غزوہ حنین تھا ،،، جنگ ختم ھو چکی تھی ،، مکے سے دو ھزار آدمی مالِ غنیمت کے شوق میں ساتھ نکل آئے تھے ، ان میں ایک جوان Teenager بھی تھا ،، نماز کے لئے اذان دی جا رھی تھی کہ اس جوان ابی محذورہؓ نے تمسخر سے اس اذان کی نقل اتارنی شروع کر دی ،، لڑکے کی آواز بہت پیاری تھی اگرچہ کافر تھا اور اذان کے ساتھ تمسخر کر رھا تھا مگر اس کی آواز نبی کریمﷺ کے دل میں اتر گئ آپ نے فرمایا ان لڑکوں کو پکڑ لاؤ ،، لڑکوں کا وہ سارا جتھہ پکڑ لایا گیا ،، آپﷺ نے پوچھا تم میں اذان کون دے رھا تھا ؟ سب لڑکوں نے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا لڑکوں کے چہرے پہ ھوائیاں اڑ رھی تھیں کہ آج خیر نہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
آپ نے اس لڑکے کو آگے بلایا اور کہا کہ اذان شروع کرو ،، اس نے کہا کہ اللہ اکبر اللہ اکبر ، آپ نے فرمایا پھر پڑھو ، اس نے کہا اللہ اکبر اللہ اکبر ،، آپ نے فرمایا پھر پڑھو یوں اسے آٹھ بار اللہ اکبر پڑھوایا یوں ھی اسے ڈبل اذان پڑھائی ،، اس اذان کو ترجیع کہتے ھیں یعنیRepetition,, اصل میں پہلی دفعہ جب وہ کہتا تھا تو ایمان اس کے دل میں گھر کر لیتا تھا ،اگلی بار وہ حالتِ ایمان میں کہتا تھا ،، ساتھ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بھی جاری تھے ،، اذان ختم ھوئی تو جوان نے شہادتین پڑھ کر اسلام قبول کر لیا اور عرض کی کہ ” اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے حرم کا مؤذن بنا دیجئے ،، آپ ﷺ نے فرمایا جب تک تم زندہ ھو حرم کے مؤذن تم ھی ھوگے ،، یہ مکی اذان وہ ھمیشہ ترجیع والی دیتے رھے جس طرح نبیﷺ نے ان کو سکھائی تھی ، جبکہ مدنی اذان سنگل ھوتی تھی ،یعنی اس میں شہادتین دو بار جبکہ مکی اذان میں چار بار ھوتی تھیں ، دو بار آئستہ آئستہ بڑ بڑانے کے انداز میں اور دو بار اونچا اذان کے انداز میں،، کسی نے ان کی اذان پر اعتراض نہیں کیا ،، یہ اذان آج شوافع دیتے ھیں
ساتھی کہتے ھیں نماز میں سستی ھو جاتی ھے کوئی وظیفہ ؟
گزارش کی ھے کہ اس کا وظیفہ بھی درود شریف ھے ،، اللہ پاک کو تیرا درود پسند آ جائے تو تجھے نماز میں پکڑ لائیں گے کہ یہاں بیٹھ کے سناؤ ،، جس طرح نبی پاکﷺ نے اس نوجوان کو بلا لیا تھا ،