مولوی ایک ھی کافی

ھم تازہ تازہ دین کی طرف مائل ھوئے تھے ،، اور جوش کا عالم کچھ ویسا ھی تھا ،جیسا اقبال نے اپنے شعر میں بیان کیا ھے کہ ”
رکے جب تو سِل چیر دیتی ھے یہ !
پہاڑوں کے دل چیز دیتی ھے !
جس کسی کی شادی میں جاتے تو ایسا فساد کھڑا کرتے کہ دولہا سے زیادہ ریٹنگ ھم لے جاتے ،، جس ویڈیو پہ ھم فتوے چھاڑ رھے ھوتے اور دولہا اور اس کے گھر والوں کو جھاڑ رھے ھوتے ،وھی ویڈیو سب سے زیادہ ھماری بنتی اور بعد میں برادری والوں میں کھڑکی توڑ ھفتے کے طور پہ دیکھی جاتی ، نتیجہ صاف ظاھر ھے ، برادری والوں نے شادی مین بلانا ھی چھوڑ دیا ، مگر دشمن نہ سوئے اور نہ سونے دے ،، شادی والوں کے دشمن نائی کو چار پیسے زیادہ دے کر ھمیں بھی ” سدۜا ” یعنی دعوت دلوا دیتے اور پھر عین نکاح کے وقت کھڑاک ھو جاتا ، ایہہ ویڈیو نئیں بن سکدی اوئے ”
اپنی پنڈی والی پھوپھو کے بیٹے کی شادی تھی ، وھی بیٹا جو ھمارا "گھسیٹی شریک ” بھائی تھا ،، اور ھم نے اپنی شرارتوں سے اسے کئ دفعہ مار بھی پڑوائی تھی ،، نیو کٹاریاں پل سے اسٹیڈیم کی طرف آئیں تو پل کراس کرتے ھی ایک موڑ سا تھا ،جو اب پوری آبادی کو اٹھا کر ڈبل روڈ مین تبدیل کر دیا گیا ھے اور مغرب کی طرف قبرستان ھے ،، اس قبرستان کے پاس ھم دونوں کھڑے تھے ،آئیڈیا میں نے فلوٹ کیا کہ یار کار والوں کو سلام کرتے ھیں،جس نے جواب دیا ٹھیک ،،مگر جس نے جواب نہ دیا اس کی کار کو ” وٹا ” ماریں گے ،، دونوں نے ایک ایک وٹا اپنے بائیں ھاتھ میں رکھ کر اسے پیٹھ پیچھے چھپا لیا اور دائیں ھاتھ کو اٹھا کر سلام کرنا شروع کر دیا ،، کچھ کار والے تو خوش قسمت تھے جنہوں نے ھاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیا اور ثوابِ دارین کے ساتھ ساتھ ھمارے عذاب سے بھی نجات حاصل کر لی ،،
مگر ایک بدقسمت ایسا بھی تھا جسے اپنی نویں نکور کار پر کچھ زیادہ ھی غرور تھا ،، اس نے ھمارے سلام کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور یہی اس کی Fatal mistake تھی ،، میرے کزن کو تو پتھر بائیں سے دائیں ھاتھ میں ٹرانسفر کرنے میں دیر ھو گئ مگر ھم تو تھے ھی کھبے یعنی لیفٹسٹ ،، دوسرا دیہات میں بیریوں کو پتھر مار مار کر ھمارا نشانہ بھی پاکستان کے ان میزائلوں جیسا Accurate ھو چکا تھا جنہیں چائنہ خوب چلا کر ھم کو دیتا ھے اور ھم اس کے ختنے کر کے اور سبز رنگ کر کے کبھی غوری بنا لیتے ھیں تو کبھی غزنوی ،،، ھمارے ھاتھ سے پتھر نکلے اور ٹارگٹ مس کر دے ،،،،،،،،،،،،،
پتھر نے پیسنجر سائڈ والے شیشے کو ھٹ کیا اور شیشہ ٹوٹنے کی زوردار آواز کے ساتھ ھم ٹٹیری بن چکے تھے ،، ھمارا کزن ابھی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش ھی کر رھا تھا کہ کار والے نے کار کھڑی کر کے اس کا تعاقب شروع کر دیا ،، اس کی گالیوں اور کزن کی معافیوں کی آواز نے دور تک ھمارا پیچھا کیا ،،، کیونکہ کزن کی آواز بھی چِینکلی تھی ،، گھر پہنچ کر جو کہ سڑک سے کوئی 100 گز دور ھو گا ، اس کے فوجی ابے کو بتایا کہ ” سسیئے بے خبرے تیرا لُٹیا ای شھر بھنبھور نی ،، اس کا ابا فوراً حرکت میں آیا اور جھٹ سڑک پہ پہنچا ،، اس وقت تک کار والا اس کے بیٹے کو پکڑ کر گھسیٹتا ھوا کار کی طرف لا رھا تھا کہ میرے پھوپھا نے اسے للکارا ،،، پھوپھا جو ڈیوٹی پہ جانے کے لئے تیار ھوئے تھے یونیفارم میں تھے ، کار والے نے جو فوجی کو دیکھا تو دھیما ھو گیا اور شکایت کی کہ جناب آپ کے بیٹے نے میری کار کا شیشہ توڑ دیا ھے ، پھوپھا نے بیٹے سے پوچھا تو اس نے اپنے حصے کا پتھر جو ابھی تک اس کی مٹھی میں دبا ھوا تھا اور پھینکنے کی نوبت تک نہ آئی تھی وہ دکھا کر کہا کہ میں نے تو پتھر مارا ھی نہیں تھا، وہ تو شاید بھائی حنیف نے مارا ھو گا ،، ھم جو ایک مکان کے پیچھے فوجی عدالت کی کارروائی دیکھ رھے تھے جھٹ سر پیچھے کر کے فرار ھو گئے،،
اسی مذکورہ کزن کی شادی تھی ، جس میں ھم نے فساد فی سبیل اللہ مچایا تھا ،، جس ویگن یا بس میں ھم سوار ھو جاتے اس کے لئے عذاب بن جاتے ، وہ کرایہ لئے بغیر ھمیں اتار کر سکھ کا سانس لیتا ،، اس قسم کے کافی واقعات ھیں جو کبھی شیئر کرونگا ،، مگر آج صرف ایک واقعہ
بھلوال اپنے نانکے جانا تھا براستہ منڈی بہاولدین جانا ھوتا تھا ویگن والے نے حسبِ عادت گانے لگائے ،، تھوڑی دیر تو ھم نے برداشت کیا مگر پھر ھم نے آستین اوپر کر کے پہلے تو جو فیملی والے تھے ان کی بے عزتی کی کہ تمہارے ساتھ خواتین ھیں اور تم لوگ اس کو یہ گندے گانے لگانے سے روکتے نہیں ھو ، شرم نہیں آتی آپ لوگوں کو ؟ اس کے بعد میں نے ” ٹوٹے ” والے سے کہا کہ گانا بند کرو اوئے ،،، ضیاء الحق صاحب کا زمانہ تھا اور گاڑیوں میں ٹیپ ریکارڈر پہ پابندی تھی ،، ڈرائیور بھی ضد میں آ گیا اور سنی ان سنی کر دی ،، منڈی بہاولدین پہنچے تو باھر سڑک پہ پولیس چوکی تھی ،میں کھڑا ھو گیا اور اسے کہا کہ گاڑی اس چوکی پہ روک دو ،، اس نے گھوم کر مجھے دیکھا اور جھٹ سے ٹیپ بند کر دی ،، میں بھی بیٹھ گیا ،، تھوڑا آگے جا کر ایک داڑھی والا مسافر کھڑا تھا ، اس نے گاڑی کو ھاتھ دیا ، جگہ بھی دستیاب تھی اور ڈرائیور کا موڈ بھی بن گیا تھا ، ایک دفعہ تو اس نے بریک لگائی مگر پھر غصے سے ایکسلیریٹر کو پورا دبا کر گاڑی بھگا لی اور غصے سے بولا ” ھِک ای مولوی کافی اے اُتوں مُڑ تو وی منہ چُکی کھلوتا ایں ،، مولوی ایک ھی کافی ھے اوپر سے تم بھی منہ اٹھائے کھڑے ھو !