معاہدے کے اہم نکات

منشور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس معاہدے کے دو حصے نظر آتے ہیں۔ پہلے حصے کا تعلق انصار و مہاجرین سے ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں !
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے
مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔
فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔
ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔
یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔
ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
منشور کی اہمیت !!!!
ان نکات پر 1 ہجری میں میثاق مدینہ طے ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ عرصے تک ان کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کر کے اسلام کی ترقی و اشاعت میں مصروف ہوئے۔ دوسری طرف اندرونی معاملات اور مذہبی آزادی برقرار رہنے سے یہودی متاثر ہوئے اور ان کی ساری غلط فہمیاں اور خدشات دور ہو گئے اور ایک مرکزی نظام قائم ہو گیا۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکمران تسلیم کر لیا۔ یہ اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم فتح تھی۔
یہ پہلا تحریری معاہدہ تھا جس نے آج سے چودہ سو سال قبل انسانی معاشرے میں ایک ایسا ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے پر کار بند رہتے ہوئے آزادی کا حق حاصل ہوا۔ یہودیوں کی مدینہ کی سیاست اور قیادت کا خاتمہ ہوا اور اسلام کا غلبہ ہونے لگا۔ یہودیوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کرنے سے مسلمانوں کی سیاست پر بڑا اہم اثر پڑا۔ اس معاہدے کی اہمیت یوں بھی نمایاں ہوئی کہ یہ دنیا کا پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدے ہے جو 622ء میں ہوا۔ یہ پہلا تحریری بین الاقوامی منشور ہے جس میں ایک غیر قوم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت کو قبول کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی جانب سے عہد شکنی ہوئی۔ ان حالات میں بھی آپ نے دوستانہ تعلقات قائم رکھے لیکن جب ان کی جانب سے کھلی بغاوت ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جوابی قدم اٹھایا۔