متفرقات

درس قرآن کے بعد دعا سے پہلے ایک دوکاندار کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ دودھ اور دھی میں پانی ڈالتے ھیں ،ان کو توبہ کرائی جائے ،، توبہ کا عمل مکمل ھوا تو دعا کی گئ ! اگلے دن دوکاندار کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کے لئے اس کے پاس بیٹھا ھوا تھا کہ ایک بچہ آیا جس کو دھی چاھئے تھا ،جبکہ دھی ختم ھو چکا تھا ،، گاؤں میں برات آئی ھوئی تھی اور دیگر دکانوں پہ دھی ختم ھو چکا تھا،، دکاندار نے کہا کہ بیٹا مجھے افسوس ھے ، آج تک تو میں نے کبھی دھی ختم نہیں ھونے دیا تھا مگر مولوی صاحب نے ختم کرا دیا ھے ،، بچے نے مجھے تعجب سے دیکھا کہ بندہ ھے یا جن جو سارا دھی کھا گیا ھے ،، بچہ ٹوٹے قدموں سے واپس جا رھا تھا تو دکاندار نے کہا کہ دیکھیں جی میں بڑا رقیق القلب بندہ ھوں مجھ سے لوگوں کی مایوسی دیکھی نہیں جاتی ،، پانی ڈالتا ھوں مگر لوگوں کا دل نہیں توڑتا ،، میں تعجب سے ان کی لاجک سن رھا تھا کہ ایک صاحب دودھ لینے آئے ،، ایک لیٹر دودھ لیا جو میرے سامنے دکاندار نے چار پاؤ پورے بھر کر ڈالے ،، ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ جوان واپس آیا اور کہنے لگا کہ ” ماموں یہ تو تین پاؤ دودھ ھے ” دکاندار نے چیک کیا تو واقعی وہ تین پاؤ ھی تھا ،، اس نے میرے سامنے ایک پاؤ پانی والی بالٹی میں سے نکال کر ڈالا اور اسے کہا کہ بیٹا کوئی بات نہیں ، غلطی انسان سے ھی ھوتی ھے ،، جب وہ جوان چلا گیا تو دکاندار بولا سرکار مولوی صاحب آپ کو پورے گاؤں کو توبہ کرانی پڑے گی تو کام چلے گا ،، اب آپ نے خود ملاحظہ فرما لیا کہ کس طرح یہ ایک پاؤ دودھ گھر میں نکال کر واپس آ گیا ،میں لڑائی جھگڑا کر کے گاھک نہیں توڑتا مگر اپنا نقصان بچانا میرا حق ھے ، میں بھی ایسے لوگوں کو پانی ڈال کر پورا کر دیتا ھوں ،، اس کی بات سن کر مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا بارہ چودہ سال کا ھوں گا جب ایک عزیز نے جو کہ شارجہ سے تشریف لائے تھے مجھے کہا کہ بیٹا ذرا مجھے لتاڑو ،، کمرے میں ٹی وی پہ فلم چل رھی تھی جو جمعے کے جمعے ابوظہبی چینل سے آتی تھی ،، وہ بزرگ ٹی وی کی طرف پاؤں کر کے منہ کے بل لیٹ گئے ،جس پہ میرا دل ان کے تقوے پہ عش عش کر اٹھا ،، میں خود بھی فلم نہیں دیکھنا چاھتا تھا ، یہ وہ دن تھے جب میں سہ روزے پہ جایا کرتا تھا ،، فلم کے ڈائیلاگز سے پتہ چل رھا تھا کہ ھیروئین کی عزت خطرے میں ھے کہ اچانک ان انکل نے کہا کہ بیٹا یہاں کوئی بڑا شیشہ نہیں ھے ؟ میں حیران ھو گیا کیونکہ وہ شیو نہیں کرتے تھے ،، اسی حیرانی اور تجسس کے ملے جلے احساسات کے ساتھ میں واش روم سے بڑا شیشہ اتار کر لے آیا ،، انہوں نے لیٹے لیٹے شیشہ سامنے دیوار کے ساتھ ٹیک کر کھڑا کر دیا ،مجھے لتاڑنے پہ لگا دیا اور شیشے میں فلم دیکھنے لگ گئے ،، تھوڑی دیر کے بعد جب میرے اوسان بحال ھوئے تو پوچھا ، انکل آپ فلم دیکھتے ھیں ؟ انتہائی جاندار آواز اور ایماندارانہ ٹون میں بولے نہیں ،، میں تو شیشہ دیکھتا ھوں ، شیشہ دیکھنا کوئی ناجائز نہیں ،، ان کے اس فتوے کو ھم نے بھی سراھا ،، اور آئندہ سے شیشہ دیکھنا شروع کر دیا ،، شیشہ تو چلتی گاڑی میں بھی دیکھا جاتا ھے جہاں سگنل پہ گاڑی کھڑی ھو تو کوئی سینڈوچ کھاتا یا کھاتی نظر آتی ھے تو کوئی چائے پیتا یا پیتی اور کوئی پھل جلدی جلدی زھر مار کر رھا ھوتا ھے ،، اکثر خواتین گاڑی میں ھی میک اپ درست کر رھی ھوتی ھیں ،کوئی اپنی پونی کو حد اعتدال میں رکھنے کے جتن کر رھی ھوتی ھے ، اکثر چیزوں کا استعمال ھمیں گاڑی کے شیشے سے ھی معلوم ھوا ،،مسکارا لگانا پھر لپ اسٹک لگا کر ھونٹوں کو گول کر کے دیکھنا ،، لائینیں چیک کرنا ، اتنی سخت چیکنگ تو کشمیر کی کنٹرول لائن پہ نہیں ھوتی ھو گی ،، آج تو حد ھی ھو گئ جب ایک خاتون میری گاڑی کے شیشے کے ساتھ شیشہ جوڑ کر بائیں طرف کھڑی ھو گئیں اور اپنی پلکوں کو کھڑا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ھو گئیں ،، جس جانفشانی سے وہ دنیا جہاں سے بےخبر ھو کر لگی ھوئی تھیں ،، کسی پولیو زدہ کو بھی کھڑا کر کے چلانے کے لئے کافی تھا ،، مگر ان کی پلکیں کافی ڈھیٹ لگ رھی تھیں کیونکہ میں تو سگنل کھلنے پہ نکل آیا تھا جب کہ اس کے پیچھے گاڑیاں مسلسل ھارن دے رھی تھیں ،،