متعہ ایک خباثت

 
متعے کو عرب قبل اسلام بھی چھپ چھپا کر ھی کیا کرتے تھے – اسی لئے حضرت ابوسفیانؓ کے متعے کے بیٹے زیاد ابن سمیعہ کو باپ کا نام نہیں مل سکا تھا – کیا یہ غیر معقول بات نہیں کہ جس گناہ کو لوگ حالتِ جہالت و شرک میں چھپ کر کرتے اور چھپاتے پھرتے تھے ، اسلام اس گناہ کو حلال قرار دے کر کھلم کھلا کرنے کی اجازت دے دے ؟اگرچہ شراب نوشی کو تو جاری رھنے دیا گیا ،لیکن متعے کو مکی سورتوں میں ھی خارج از امکان قرار دے دیا گیا تھا ، الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم کہہ کر دو مکی سورتوں میں جنسی تعلق کو دو صورتوں میں محدود کر دیا گیا ، یا تو زوجہ ھو یا لونڈی – اس کے بعد نہایت واضح اور سخت الفاظ میں فمن ابتغی وراء ذالک فاولئک ھم العادون ، کہہ کر ھر تاویل کا رستہ بند کر دیا –
{{ والذین ھم لفروجھم حافظون ، إلا على أزواجھم أو ما ملكت أیمانھم فإنھم غیر ملومین ، فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك ھم العادون}}
پھر شادی کے بعد بچے اور پوتے نعمت اور خوشی کی چیز ھوتے ھیں جو ازواج سے ملتے ھیں نہ کہ ممتوعہ سے ،ممتوعہ سے ھونے والے بچے حرام کے بچوں کی طرح چھپائے جاتے ھیں جیسا کہ ابوسفیانؓ جیسا جی دار صحابیؓ بھی زیاد کو اپنا نام نہیں دے سکا، اللہ نے ازواج بنائی ھیں اور احسان جتایا ھے اگر متعہ حلال ھوتا تو ممتوعہ کو بھی احسان میں داخل فرماتا ،((
{{ والله جعل لكم من أنفسكم ازواجاً وجعل لكم من أزواجكم بنین وحفدة ورزقكم من الطیبات }}
اور وہ اللہ ھی ھے جس نے بنائی تمہیں میں سے تمہاری بیویاں اور دیئے تم کو بیویوں میں سے بیٹے اور پوتے پوتیاں اور تمہیں بہترین رزق عطا فرمایا – النحل

اب قرآن کے حکم کے بعد روایتوں سے استدلال کرنا گویا یہ ثابت کرنا ھے کہ اللہ کے رسول ﷺ قرآن پر عمل کروانے نہیں آئے تھے بلکہ قرآن کی خلاف ورزی سکھانے آئے تھے ، نعوذ باللہ من ذالک ،، پھر صحابہؓ کے بارے میں یہ بتانا کہ وہ حج کے دس پندرہ روز بھی صبر نہیں کر سکتے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو متعہ کی اجازت دے دی اور انہوں نے ایک چادر دے کر کسی عورت سے متعہ کر لیا ،اور اگلی ھی صبح رسول اللہ ﷺنے افراتفری میں پھر حرام کر دیا ،، میں اسی لئے کہتا ھوں کہ آپ ان روایتوں سے ھر مذھب نکال سکتے ھیں ، حدیث کے نام پر متعے والی کہانیوں کی حقیقت اتنی ھے کہ رسول اللہ ﷺ نے عرب کی تاریخ میں پہلی بار حج کے احرام کو عمرہ کر کے کھولنے کی اجازت دی ، جس پر بعض صحابہؓ کو بہت تعجب ھوا کہ حج کے سیزن میں یہ حال ھو کہ ھم اپنی بیویوں سے متمع ھو رھے ھوں ؟ کیا ھم اس حال میں منی کی طرف نکلیں گے کہ ھمارے مذاکیر سے قطرے ٹپک رھے ھوں ،، جب حج تمتع کی اجازت ملی تو جن کے ساتھ بیویاں تھیں وہ ان سے متمتع ھوئے مگر ایک بیچلر اور ایک رنڈوا دونوں کسی عورت کی تلاش میں نکل گئے اور جوان نے تمتع کر لیا – یہ خبر جب رسول اللہ ﷺ کو پہنچی تو آپ نے حج تمتع ھی منع کر دیا کہ ھر سال لوگ آئیں گے تو دور دراز والے یہی حرکت دھرائیں گے جس کی وجہ لوگ سمجھیں گے اسلام نے اس کو حلال کر دیا ھے اور مکے سے ایسی خبر ھر جگہ پھیل جائے گی کیونکہ حج پر ھر سمت اور ھر قبیلے سے لوگ آتے تھے – یہ ھے موقف حضرت عمر فاروقؓ کا جس کی وجہ سے آپؓ نے بھی سدِ ذریعہ کے طور پر حج تمتع پر پابندی عائد کر کے متعے کا رستہ بند کر دیا – بعد میں جب ھر جگہ متعے کی حرمت معلوم ھو گئ تو حج تمتع کو دوبارہ بحال کر دیا گیا –
یہ کیسا دین ھے جو متعہ جیسی قباحت کوجس کا ارتکاب سوائے بدکار مردوں اور عورتوں کے کوئی اور نہ کرے اس متعے کو وہ فضیلت عطا فرما دے کہ نکاح بھی شرماتا رہ جائے ؟
مثلاً جس نے ایک دفعہ متعہ کیا وہ امام حسینؓ کا رتبہ پائے گا جو دو دفعہ کرے گا وہ امام حسنؓ کا رتبہ پائے گا – جو تین دفعہ کرے گا وہ حضرت علیؓ کا رتبہ پائے گا اور جو چار دفعہ کرے گا وہ محمد مصطفی ﷺ کا رتبہ پائے گا (( ((من تمتع مرة كان درجته كدرجة الحسين عليه السلام – الإمام الثالث المعصوم حسب زعمهم – ومن تمتع مرتين كان درجته كدرجة الحسن عليه السلام – الإمام الثاني المعصوم المزعوم – ومن تمتع ثلاث مرات كان درجته كدرجة علي بن أبي طالب عليه السلام الإمام المعصوم الأول لديهم، ختن رسول الله وابن عمه – ومن تمتع أربع مرات فدرجته كدرجتي))("تفسير منهج الصادقين” 2/ 493). )) اب اس سے زیادہ جو کرے گا پتہ نہیں کس مقام پر جا کر کھڑا ھو گا ،کیونکہ ابن جریج نے 70 متعے کیئے ھیں حرم وہ بھی حرم میں اور موصوف شیعہ تھے اور امام بخاریؒ کے علاوہ صحاح ستہ کے راوی تھے –
یہانتک کہ اھل بیت اطہار سے بھی متعے کو منسوب کیا گیا – شادی شدہ عورت کو اجازت دی گئ کہ وہ اپنی شادی چھپا کر متعہ کر سکتی ھے یہ اس کا اپنی جان پر صدقہ ھو گا – امام جعفر صادق کو ایک شخص نے بتایا کہ اس نے ایک عورت سے متعہ کیا مگر اس کو شک گزرا تو تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ شادی شدہ تھی ، امام نے فرمایا کہ تم نے تحقیق ھی کیوں کی ؟ – اگر متعہ دبر میں کیا جائے تو پہلے شرط طے کر لینا چاھئے – اگر دبر میں متعہ کیا جائے تو ماں اور بیٹی دونوں سے کیا جا سکتا ھے ، خالہ اور بھانجی سے بیک وقت کیا جا سکتا ھے اور پھوپھی اور بھتیجی کو بیک وقت استعمال کیا جا سکتا ھے – اس سلسلے میں وہ بھی وقت آیا کہ آیۃ اللہ صاحب ایک عورت سے متعہ کرتے رھے ، جب دل بھرا تو اس کو چھوڑ دیا ، وہ خاتون آیہ اللہ سے حاملہ ھو گئ ، بچی پیدا ھوئی اور 20 سال بعد وہ بچی بھی حاملہ ھو گئ ، ماں نے تفتیش کی تو بچی نے بتایا کہ اسی آیۃ اللہ نے اس سے متعہ کیا ھے جو اس کا سگا باپ تھا ، ماں نے جب لڑکی کو بتایا کہ وہ تو تیرا باپ تھا تو لڑکی پاگل ھو گئ – آیۃ اللہ صاحب کی بیٹی نے متعے کی اکیڈیمی کھول رکھی تھی جس میں عورتوں کو داؤ پیچ سکھائے جاتے تھے ، متعہ دودھ پیتی بچی سے بھی ھو سکتا ھے اس کی رانوں کو استعمال کر کے ،، امام جعفر صادق کی طرف منسوب ھے اور اللہ کی لعنت ان کی طرف منسوب کرنے والوں پر کہ وہ کنواری کے والدین کو پتہ چلے بغیر بھی دبر میں متعے کے قائل تھے ،یعنی مسئلہ پوچھنے والوں کو کہتے تھے کہ تم باکرہ سے متعہ کر سکتے ھو مگر اس کی مہر کو مت توڑو بلکہ دبر کو استعمال کرو- اردو ترجمہ لکھ دیا ھے ،، اگر کہا گیا تو عربی متن بھی کاپی پیسٹ کر دونگا !
(( وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لا تَعْلَمُونَ ( الاعراف- 28)
اور جب کرتے ھیں بےحیائی کا کام تو کہتے ھیں کہ ھم نے اپنے باپ دادا کو یہ کام کرتے دیکھا ھے اور اللہ نے ھمیں یہ کام کرنے کا حکم دیا ھے – کہہ دیجئے بےشک اللہ بےحیائی کا حکم نہیں دیتا ، کیا تم اللہ پر وہ بات کہتے ھو جس کا تمہیں علم نہیں ؟
«وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة» للحر العاملي، وهو الكتاب الذي جمع ما ورد في كتب السنة المعتمدة عندهم.
والمؤلف جعل أبواب المتعة في الجزء الرابع عشر، وتبدأ من ص436، وتنتهي في ص4966، وتضم ستة وأربعين بابا، وبدأ بالحديث عن إباحتها، وذكر الرواية الآتية: «ليس منا من لم يؤمن بكرتنا، ولم يستحل متعتنا». (ص438).
والمراد بالكرة الرجعة، حيث يعتقدون أن إمامهم الثاني عشر، محمد المهدي، الذي قالوا بأنه ولد سنة 2566هـ قبل موت أبيه الحسن العسكري بأربعة أعوام، وسيظل حيا لا يموت إلى قبيل يوم القيامة، وهو غائب يرانا ولا نراه، وسيظهر يملأ الأرض عدلا كما ملئت جورا. وفي العراق الآن جيش المهدي للتعجيل بظهور هذا الإمام، وقد كون فرق الموت التي تقتل أهل السنة بعد تعذيبهم، ثم تلقي الجثث في الطرقات.
وهذه الرواية تجعل نكاح المتعة أصلا من أصول الإيمان عندهم.
فما حقيقة هذا المسمى بنكاح المتعة؟
الباب الرابع عنوانه: «أنه يجوز أن يتمتع بأكثر من أربع نساء، وإن كان عنده أربع زوجات بالدائم» (ص446).
ومما جاء تحت هذا الباب: «تزوج منهن ألفا، فإنهن مستأجرات». (ص446).
«المتعة ليست من الأربع، لأنها لا تطلق، ولا ترث، وإنما هي مستأجرة». (ص446).
«صاحب الأربع نسوة يتزوج منهن ما شاء بغير ولي ولا شهود». (ص447).
إذن هذا المسمى بـ «نكاح المتعة» هو عقد إجارة، وليس إجارة النساء للعمل المباح، إنما إجارة الفروج للمتعة، وللرجل أن يشترط الإتيان في الدبر، فيكون العقد إجارة للأدبار.
وهم يرون أن الإتيان في الدبر لا يفسد الصوم، ولا يوجب الغسل، حيث رووا عن الإمام الصادق أنه قال – وحاشاه ثم حاشاه-: «إذا أتى الرجل المرأة في الدبر وهي صائمة لم ينقض صومها، وليس عليها غسل». (ص104 من الجزء نفسه).
وأجازوا المتعة بالزانيات والعاهرات أصحاب الرايات- كما نراه تحت «باب عدم تحريم التمتع بالزانية وإن أصرت» (ص455).
كما أجازوا التمتع بالمتزوجات ما دامت المرأة لم تخبر بأن لها زوجا. فتحت «باب تصديق المرأة في نفي الزوج والعدة ونحوها، وعدم وجوب التفتيش والسؤال، ولا منها» (ص456) جاء ما يأتي:
قلت لأبي عبد الله – أي الإمام الصادق رضي الله عنه وأذل وأخزى من افترى عليه-: ألقى المرأة بالفلاة التي ليس فيها أحد، فأقول لها: لك زوج ؟ فتقول: لا فأتزوجها؟! قال: نعم هي المصدقة على نفسها».
وكما افتروا عليه أنه قيل له: «إني تزوجت بامرأة متعة، فوقع في نفسي أن لها زوجا، ففتشت عن ذلك فوجدت لها زوجا، فقال: ولم فتشت؟».
وافتروا عليه أيضا أنه قيل له: «إن فلانا تزوج امرأة متعة، فقيل للرجل: إن لها زوجا، فسألها؟ فقال الإمام: ولم سألها؟».
وأجازوا التمتع بالبكر بدون إذن أبويها ما دامت بلغت تسع سنين. «انظر ص460».
وافتروا على الإمام الصادق أيضا أنه سئل عن التمتع بالأبكار، فقال: هل جعل ذلك إلا لهن ؟ فليستترن وليستعففن. (ص458).
وقيل له: جارية بكر بين أبويها تدعوني إلى نفسها سرا من أبويها، فافعل ذلك؟ فقال رضي الله عنه: نعم، واتق موضع الفرج فإنه عار على الأبكار. (ص458، 459).
وقال: «لا بأس بتزويج البكر إذا رضيت من غير إذن أبويها ما لم يفتض ما هناك لتعف بذلك». (ص459).
وفي «باب أنه لا حد للمهر ولا للأجل…» بيان جواز الدرهم، وكف الطعام، والسواك، وما شاء من الأجل. (ص470).
وفي «باب ما يجب على المرأة من عدة المتعة»: إن كانت تحيض فحيضة، وإن كانت لا تحيض فشهر ونصف، فرقة بغير طلاق، ولذلك يمكن أن تتكرر الفرقة ألف مرة أو أكثر. (ص473).
وفي «باب أن المرأة المتمتع بها مع الدخول لا يجوز لها أن تتزوج الزوج إلا بعد العدة…»: ليس بينهما عدة إلا لرجل سواه، إن شاءت تمتعت منه أبدا، وإن شاءت تمتعت من عشرين بعد أن تعتد من كل من فارقته. (ص475).
ولأن هذا الزنى والفجور المسمى بالمتعة يتكرر كثيرا، لم يعد للعقد أهمية، ولذلك نجد «باب أن من أراد التمتع لامرأة فنسي العقد حتى وطأها فلا حد عليه، بل يتمتع بها، ويستغفر الله». (ص492).
ويجوز التمتع بالحامل من غيره، ولذلك نجد قولهم: لك ما دون الفرج إلى أن تبلغ في حملها أربعة أشهر وعشرة أيام، فإذا جاز حملها أربعة أشهر وعشرة أيام فلا بأس بنكاحها في الفرج». ص505).
وما دون الفرج عندهم يمكن أن يكون في الدبر.
وإلى جانب الإجارة نجد الإعارة شأن أي متاع، ففي «باب أن يجوز للرجل أن يحل جاريته لأخيه فيحل له وطؤها»، إذا أحل الرجل لأخيه جاريته فهي له حلال، وفي رواية: يحل فرج جاريته لأخيه. وفي رواية ينسبون للإمام الصادق – وحاشاه وهو الطاهر النقي- أنه قال: يا محمد خذ هذه الجارية تخدمك وتصيب منها، فإذا خرجت فارددها إلينا.
ولم يقف الأمر عند جواز المتعة، فالباب الثاني من أبواب المتعة عنوانه: «باب استحباب المتعة وما ينبغي قصده منها»، وما جاء تحت هذا الباب.
إن كان المتمتع يريد بذلك وجه الله تعالى، وخلافا على من أنكرها، لم يكلمها كلمة إلا كتب الله له بها حسنة، ولم يمد يده إليها إلا كتب الله له حسنة، فإذا دنا منها غفر الله له بذلك ذنبا، فإذا اغتسل غفر الله بقدر ما مر من الماء على شعره بعدد الشعر. (ص441). وفيه: «المؤمن لا يكمل حتى يتمتع». (ص442).
وفيه أيضا: «ما من رجل تمتع ثم اغتسل إلا خلق الله من كل قطرة تقطر منه سبعين ملكا يستغفرون له إلى يوم القيامة، ويلعنون متجنبها إلى أن تقوم الساعة».
(ص444).
وفي هذه الأبواب جاءت روايات تخالف هذا الفسق والفجور والمجون فرفضوا الأخذ بها، وحملوها على التقية.
دراسة أكاديمية لأستاذة شيعية عن المتعة
وإذا كنا نعجب كيف ينسب هذا للإسلام دين النقاء والطهر، وينسب لآل البيت الأطهار الأبرار، فإن الواقع العملي أسوأ من هذا بكثير، ولا يختلف عن الدعارة والزنى قيد أنملة سوى أن هؤلاء الذين رزيء بهم الإسلام ينسبون إلى هذا الدين العظيم المبرأ مما يقولون.
باحثة شيعية تدعى د. شهلا حائري، حفيدة آية الله حائري، قامت بدراسة أكاديمية موثقة في كتاب «المتعة»، ونذكر هنا بعض ما جاء في هذا الكتاب:
قالت الباحثة (ص299): «أخبرني الأشخاص الذين قابلتهم عن تعدد الطرق التي تستعملها النساء في التعبير عن رغبتهن في عقد زواج المتعة، فعلى سبيل المثال تقوم المرأة بارتداء حجابها مقلوبا، للتعبير عن رغبتها وجاهزيتها، وكذلك المرأة التي تكثر من التطلع حولها».
وفي (ص933): للزوج حق الاستفادة من موضوع الإيجار، أي النشاط الجنسي للمرأة، وللمرأة الحق في التعويض المالي، أي الأجر.
ومن يعقد زواجا مؤقتا مثل الذي يستأجر غرفة في فندق للإقامة بها.
وفي (ص1466) جاء الحديث عن المتعة الجماعية، فبالإمكان عقدها بين المرأة ومجموعة من الرجال بطريقة متسلسلة، وأحيانا خلال مهلة لا تتجاوز بضع ساعات.
وفي ص180، 1811: في عهد الشاة لم يكن الناس يعقدون زيجات متعة، لأن الفنادق لا تعطي غرفا، أما اليوم فإن ما يجري في غرف الفنادق أمر لا يعني أحدا، وأكثر من يمارسون المتعة من رجال الدين.
وفي ص2400: كان مرتبو الزيجات يشغلون الغرف العليا داخل المزار في مدينة مشهد، ويلعبون دور الوسطاء بين نساء المدينة والحجاج – أي زوار القبور والأضرحة – المهتمين بالعثور على زوجة مؤقتة، وأثناء الزواج إما أن يقيما في منزل أحد الأقرباء، أو الأصدقاء، أو يذهبا إلى أحد الفنادق، أو ما شابه ذلك.
وفي ص1633: عاد مثقف كبير كان منفيا خلال عهد الشاه، وأسس مدرسة داخلية، وارتدى ثوبه الديني مجددا، وأصبح إمام الجمعة في مدينة قم، وتسجلت في مدرسته ست وسبعون فتاة من مختلف الأعمار، جئن من مختلف أنحاء إيران للدراسة.
شكت زوجته في طبيعة علاقاته مع طالباته، فتبين لها أنه يقيم علاقات غير شرعية مع بعضهن، رفعت دعوى فقضت المحكمة على صاحب المدرسة بعقد زيجات متعة مع إحدى عشرة فتاة كان يقيم معهن علاقات غير شرعية، لم ترد عائلات الفتيات أن يعرف أحد بهذا الأمر، فصمتوا.
وفي ص2699: من لديه خلفية دينية يعرف ماذا يريد، ويمارس المتعة بكثرة، ولكن الناس العاديين لا يمارسونها بكثرة، وحيث يوجد رجال دين توجد نشاطات جنسية كثيرة.
وفي ص1611 ذكرت اسم امرأة كانت تعقد زواج متعة كلما أمكن لها ذلك، ولمدة ساعة أو ساعتين أو ليلة كحد أقصى، وتزاول الجنس كل ليلة إذا أمكن.
وفي ص160: مدينة النجف مدينة تشتهر بأنها تمارس فيها المتعة على غرار مدينة قم.
وفي ص144: حديث عن زواج التجربة:
بإمكان رجل وامرأة يريدان عقد زواج دائم، ولكن لم تتح لكل منهما الفرصة الكافية لمعرفة أحدهما الآخر، أن يعقدا زواج متعة لفترة محددة، على سبيل التجربة.
في ص1255: جاء الحديث عن زواج المتعة بين السيد والخادمة، ومما جاء فيه: طالب جاء لقضاء عطلة الصيف مع أهله، وفي إحدى الليالي دخل غرفته فوجد في سريره مراهقة نصف عارية، كانت والدته قد عقدت نيابة عنه زواج متعة له مع خادمة شابة وأمرتها بالبقاء في غرفته وانتظاره.
وفي ص296: الطفل المولود في إطار هذا النوع من الزواج لا يعرف والده.
وبعد: فهذه لقطات سريعة من كتاب يقع في أكثر من ثلاثمائة صفحة، تبين بعض ما يحدث في مجتمع الرافضة، والقارئ للكتاب يلاحظ أن هذا الفساد والفجور يكثر في المدن التي يكثر بها مزارات للأضرحة، وهو ما يعبرون عنه بالحج، وكثيرا ما تبدأ العلاقة عند تلاحق الرجال بالنساء داخل الأضرحة –
فمن أكاذيبهم الشنيعة الخبيثة عليه صلى الله عليه وسلم ما ينسبونه إليه زورا وبهتانا أنه قال:
((من خرج من الدنيا ولم يتمتع جاء يوم القيامة وهو أجدع)) ("تفسير منهج الصادقين” للملا فتح الله الكاشاني – فارسي 2/ 489).
وأقبح منه وأشنع ما افتروا عليه بأنه قال عليه الصلاة والسلام:
((من تمتع مرة واحدة عتق ثلثه من النار ومن تمتع مرتين عتق ثلثاه من النار ومن تمتع ثلاث مرات عتق كله من النار))(تفسير منهج الصادقين 2/492 نقلاً من "حضرة من خصه الله باللطف الأبدي، خاتم مجتهدي الإمامية بالتوفيق السرمدي، الغريق في بحار رحمة الله الملك الشيخ علي بن عبد العالي روّح الله روحه” في رسالته التي كتبها في باب المتعة).
فانظر إلى القوم ما أقبحهم وأكذب بهم، وما ألعنهم وأبعد بهم من الشريعة الإسلامية الغراء، وتعاليمها النقية البيضاء، وما أجرأهم على الملذات والشهوات التي أصبغوا عليها صبغة الدين والشريعة، وما أشجعهم على الافتراء على رسول الله الصادق الأمين، الناهي عن المنكرات، والمحترز المجتنب عن السيئات؟
والقوم لا يريدون من وراء ذلك إلا أن يجعلوا دين الله الخالد لعبة يلعب بها الفساق والفجار، ويسخر به الساخرون والمستهزؤن نقمة عليه, التي ورثوها من اليهودية البغضاء التي أسست هذه العقائد وهذا المذهب – انظر لتحقيق وتثبيت ذلك في كتابنا (الشيعة والسنة)-، وإلا فهل من المعقول أن ديناً من الأديان يحرر متبعيه من الحدود والقيود, ومن الفرائض والواجبات, والتضحيات والمشقات، ويجعل نجاتهم من عذاب الله وفوزهم بنيل الجنة في طاعة الشهوات والملذات؟ -وهذا ليس من المبالغات والمجاذفات بل من الحقائق الثابتة التي لا غبار عليها -.
والشيعة أعداء أهل البيت وسيد أهل البيت وإمامهم محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكتفوا بهذا الكذب ولم يقتنعوا به، بل زادوا وبالغوا حتى بلغوا حد الإساءة والإهانة حيث قالوا – نستغفر الله ونتوب إليه من نقل هذا الكفر-:
قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((من تمتع مرة أمن من سخط الجبار ومن تمتع مرتين حشر مع الأبرار ومن تمتع ثلاث مرات زاحمني في الجنان)) ("تفسير منهج الصادقين” 2/ 493).
ولا هذا فحسب بل صرحوا بأسماء أهل البيت وشخصياتهم الذين جعلوهم غرضاً لأسنتهم المشرعة،ولسهامهم المطلقة، وسيوفهم المشهرة، وما أقبح التعبير وما أفظع الكذب والبهتان، فيفترون على نبي الله الطاهر المطهر صلوات الله وسلامه عليه أنه قال:
((من تمتع مرة كان درجته كدرجة الحسين عليه السلام – الإمام الثالث المعصوم حسب زعمهم – ومن تمتع مرتين كان درجته كدرجة الحسن عليه السلام – الإمام الثاني المعصوم المزعوم – ومن تمتع ثلاث مرات كان درجته كدرجة علي بن أبي طالب عليه السلام الإمام المعصوم الأول لديهم، ختن رسول الله وابن عمه – ومن تمتع أربع مرات فدرجته كدرجتي))("تفسير منهج الصادقين” 2/ 493).