مار کا حق صرف لونڈی کے خلاف ہے !

کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ بیوی کو زنا کرتے پا لے تو سورہ النساء ہی کی آیت ۱۵ میں گھر میں بند کرنے کا حکم دیا مارنے یا زد وکوب کرنے کا حکم نہیں دیا ؟ اس لئے کہ بیوی شوھر کی لونڈی نہیں ھوتی بلکہ پارٹنر ھوتی ھے ، اگر بددیانتی کرتی ھے تو عقد توڑا جا سکتا ہے ، گواہ پورے ھوں تو کورٹ سزا دے گی شوھر کو واضربوھن کا بالکل بھی حق نہیں [ وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ـ اور تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ان پر چار مسلمان گواہ بناؤ، اگر چار گواہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند کر دو جب تک کہ ان کو موت نہ آ جائے یا پھر اللہ پاک ان کے لئے کوئی رستہ نہ نکال دے (النساء ـ15)، اور بعد میں کوڑے مارنے کا حکم نازل فرمایا شوھر کو پھر بھی مارنے کا حق نہیں دیا [ الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ (2)النور زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ ۔۱۰۰ کوڑے مارو اور ان کے معاملے میں تمہارے دل میں ترس پیدا نہ ھو اگر تم ایمان رکھتے ھو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ان کی سزا ایمان والوں کا مخصوص گروہ( ان کے محرم ) ہی دیکھیں ، پھر یہ کیسے ھو سکتا ھے کہ اسی سورہ النساء میں 34 نمبر آیت میں صرف نافرمانی پر مارنے کا حکم دے دیا جس میں کسی نافرمانی کو بھی بہانہ بنایا جا سکتا ھے ، کہ سالن گرم نہیں کیا ، کپڑے نہیں دھوئے ، میں نے بولا تھا ماں کے گھر نہیں جانا اور یہ چلی گئ ، بولا تھا بہن کو فون نہ کرنا اور اس کے کر دیا وغیرہ وغیرہ ـ کیا اللہ پاک کے بارے میں ایسی بات سوچی جا سکتی ھے کہ جہاں مارنا بنتا تھا وہاں تو مارنے کا حق نہ دیا ،، اور جہاں میوچل انڈراسٹینڈنگ ممکن تھی وھاں مار کا آپشن رکھ دیا ؟
تمام قرائن سے اس بات کی تائید ہوتی ھے کہ سورہ النساء کی آیات 34,35 غلام اور لونڈی میاں بیوی کے لئے ہیں ، اس لئے کہ میاں بیوی کی یہ قسم بھی اسی معاشرے میں موجود تھی جس کی طلاق اور نکاح کے قوانین بھی آزاد میاں بیوی سے جدا ہیں ، وہیں اس مار کا آپشن بھی ان غلام اور لونڈی میاں بیوی کے لئے مخصوص ہے ِ عورت جب نکاح میں اپنے اھل کی پابند نہیں تو طلاق کا معاملہ اس کے اھل کے ھاتھ کیسے دیا جا سکتا ھے ؟ فابعثوا حکماً من اھلہ و حکماً من اھلھا ،، بھی صرف غلام اور لونڈی کے ساتھ مخصوص ھے کیونکہ ان دونوں کا نکاح بھی ان کے آقاؤں کی رضامندی کے ساتھ مشروط ہے ،،[ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ،، ان کا نکاح ان کے آقاؤں کی اجازت سے کرو ( النساء ـ ۲۵ ) لہذا طلاق بھی ان کے اھل کے ہاتھ ہے ، اگر غلام کا آقا یہ نکاح توڑ دیتا ھے تو بھی یہ عقد فسخ ہو جائے گا اور اگر لونڈی کا آقا یہ عقد فسخ کر دے تو بھی طلاق ہو جائے گی اور یہ ایک ہی طلاق ہی بائن ہو گی ،فائنل ہو گی ـ