قیامت کی نشانیاں اور دجال

جب بھی قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا،قرآن میں اللہ پاک نے دو ٹوک جواب دیا۔ قل انما علمھا عند اللہ۔ قل انما علمھا عند ربی۔لا یجلیھا لوقتھا الا ھو۔ثقلت فی السماوات والارض ۔
یسئلونک کانک حفی عنھا۔
لا تاتیکم الا بغتۃ۔
کہہ دو اس کا علم میرے رب کے پاس ہے۔
کہہ دو اس کا علم میرے رب کے پاس ہے وہ کسی کو اس کی بھنک بھی نہیں لگنے دیتا۔ یہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ اس کے وقت سے آگاہ ہیں ۔
وہ نہیں آئے گی ان پر مگر اچانک ۔
فتبھتھم ۔ پس ان کو مبہوت کر دے گی۔
وغیرہ وغیرہ
اس کے بعد نشانیوں کی کھڑکی کھولی گئ۔
میں کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں کہ پنڈی شہر دنیا کے نقشے پر کہاں واقع ہے ،، پھر بتاتا ہوں کہ پنڈی سے پہلے روات شہر آتا ہے پھر ایک سواں نام کا پل آتا ہے جس کو کراس کرو تو دائیں ہاتھ پر لاہور ہائیکورٹ کے پنڈی بینچ کی عمارت ہے، جسے کراس کرتے ہی فوجی فاؤنڈیشن اسپتال آتا ہے پنڈی مری سے پہلے آتا ہے اور پنڈی سے نکل کر ٹیکسلا اور واہ نام کے چھوٹے چھوٹے شہر آتے ہیں ” مگر مجھے پتہ نہیں کہ پنڈی کہاں واقع ہے۔ تو کیا یہ آپ کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟ کیا یہ اس دو ٹوک خبر پر شب خون نہیں ؟ کیا روات اور سواں پل آ جانے کے بعد بھی پنڈی اچانک آ کر ہمیں مبہوت کر سکتی ہے؟
قرآن کریم نے توھمات اور پیشگوئیوں سے اس امت کو محفوظ کر دیا ہے۔ اور سابقہ امتوں کی پیشگوئیوں والی پھکی سے بچا لیا تھا۔
مگر..
"جنہیں جلنے کی حسرت ہے،وہ پروانے کہاں جائیں؟
ابن صیاد سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ کے اندر درختوں کی اوٹ لے کر دبے پاؤں اس کی چارپائی کیطرف بڑھ رہے تھے تا کہ چادر اوڑھ کر لیٹے ابنِ صیاد کی باتیں سن کر اندازہ لگا سکیں کہ وہ کیا چیز ہے؟؟ یہ انداز جاسوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بالکل برخلاف ہے۔
ایک واجب القتل شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ میں پیش کیا گیا،،یہ وہ شخص تھا جس نے کہا تھا کہ میں جو چاہتا لکھ لیتا تھا،اور محمد کہتے کہ ہاں ایسے ہی نازل ہوا ہے،اگر یہ وحی ہے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی وحی مجھ کو بھی ہوتی ہے۔ وہ مرتد ہو کر مکہ چلا گیا تھا، اس نے مسلمان ہونے کے لئے بیعت کی درخواست کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے جب دو تین بار اصرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیعت قبول کر لی۔ جب وہ چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں تھا کہ جب میں نے اس کی معافی کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا تو وہ اس کی گردن مار دیتا(کیونکہ اس کے بارے میں حکم دیا جا چکا تھا کہ اگر وہ ںیت اللہ کے غلاف میں بھی لپٹا ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے) اس پر ایک صحابی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میری آنکھ آپ کی آنکھ پر لگی تھی بخدا آپ آنکھ کا اشارہ فرما دیتے تو میں گردن مار دیتا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”نبی آنکھ سے اشارے نہیں کرتے ” وہ نبی دبے دبے قدموں کسی کی پرائیویسی میں کیسے مداخلت کر سکتے تھے؟ کیا وہ کوئی جنگی مجرم تھا؟ ایک مخبوط الحواس لڑکے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کیا خطرہ تھا؟
وہ لڑکا ابنِ صیاد مسلمان ہو گیا، شادی کی اور اس کے بچے بھی پیدا ہوئے، مگر کہانی کاروں کے بقول عمر فاروق رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے۔ ایک لشکر میں سفر کرتے ہوئے سارے لوگ درختوں کے نیچے آرام کر رہے تھے، مگر ابنِ صیاد والے درخت کے نیچے کوئی بھی نہیں تھا صحابہ اس سے دور دور رہتے تھے ۔ پھر کچھ لوگ اٹھ کر اس کے پاس گئے تو اس نے ان کو عقل استعمال کرنے کی دعوت دی اور گلہ کیا کہ مسلمان مجھ کو دجال سمجھتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ یہودی ہو گا جبکہ میں مسلمان ہوں۔ پھر فرمایا تھا کہ اس کی اولاد نہیں ہو گی جبکہ میرے بچے ہیں۔ وہ لوگ اس کی بات کا جواب نہ دے سکے اور اٹھ کر آ گئے۔ جس کے بعد ابنِ صیاد مدینہ چھوڑ کر ہی چلا گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک وہی دجال تھا۔
پھر ایک اور دجال کہیں کسی جزیرے پر قید ملا، اس کی بھی ظفری بھائی کی کہانی کی طرح مزیدار کہانی ہے۔
پھر پیشگوئی کی گئی کہ فتح قسطنطنیہ کے موقعے پر دجال نکلے گا، ابھی مال غنیمت بھی تقسیم نہ ہوا ہو گا کہ شیطان آواز لگائے گا کہ دجال نکل آیا ہے اپنے گھروں کی خبر لو۔۔ یہ سن کر سارے لشکری اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے، مگر یہ بھی جھوٹی کہانی ثابت ہوئی، استنبول فتح ہوئے صدیاں گزر گئیں کوئی دجال نہیں آیا مگر وہ کہانی رٹا لگا کر آج بھی دستاریں باندھی جا رہی ہیں حالانکہ یہ دستاریں اب ان کے گلے میں ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔
پھر جب ھلاکو آیا اور لاشوں کے انبار لگ گئے تو نئ پروفییسی سامنے آ گئی کہ قرب قیامت میں پرندہ میلوں تک اڑے گا مگر اسے کھانے کے لیے انسانی لاشوں کے سوا کچھ دستیاب نہیں ہو گآ۔ لہذا اب قیامت آنے والی ہے۔
اس کے بعد بھی ہر اہم موقعے پر جب ہمت کی ضرورت ہوتی ہے قرب قیامت کی نشانی بتا کر مسلمانوں کی ہوا نکال دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم جیسے ذھن بھی ان کہانیوں کا شکار ہو گئے۔ بات شاھد مسعود سے ہوتی ہوئی اوریا مقبول جان تک پہنچ چکی ہے جو اگلے بجٹ سے بھی پہلے قیامت لانے پر تلے بیٹھے ہیں "و ھم یتلون الکتاب ” ہہ لوگ ساتھ درس قرآن بھی دیتے رہتے ہیں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ قرآن کی دو ٹوک اور محکم آیات کے بعد تم لوگ یہ دجال اور قیامت کے ڈرامے کیسے چلا لیتے ہو ؟ کیا ان درجنوں آیات کو منسوخ و معطل جان کر روایتوں کی بنیاد پر قیامت بپا کرنا چاہتے ہو؟
فھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغتۃ فقد جاء اشراطھا ، فانی لھم اذا جاءتھم ذکراھم۔ سورہ محمد۔ 18۔
اس آیت میں قیامت کی علامتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہیں، اور مخاطبین کو ان کے سامنے موجود علامتوں کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے نہ کہ” نزول مسیح یا خروج دجال اور ظہورِ مہدی ” جیسی کہانیوں کی خبر دی جا رہی ہے۔ قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بینہ کہہ کر متعارف کرایا ہے۔ (حتیٰ تاتیھم البینۃ "رسول من اللہ یتلوا صحفا مطھرہ ) البینۃ 2۔
بھلا کسی کو مستقبل کی نامعلوم کہانیاں سنا کر ایمان لانے پر کیسے آمادہ کیا جا سکتا ہے؟ تعجب تو ان عجوبوں پر ہے جو سامنے کی نشانیوں یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن جیسے زندہ معجزوں کو نظر انداز کر کے تاریخ دانوں کی گھڑی گئی کہانیوں کو برآمد کر رہے ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر میں یہی مؤقف رکھتے ہیں۔
قاری حنیف ڈار۔