قندِ مکرر

مناظر معذور ھوتا ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
علماء کی دو قَسمیں ھوتی ھیں ،، اور ان دو میں سے پھر آگے سیکڑوں قِسمیں نکلتی ھیں جس طرح صرف ایک باوا آدم علیہ السلام اور اماں حوا سے انسانوں کی ھزاروں قِسمیں ،ذاتیں اور قومیں قبیلے نکلے ھیں ،،،،،،،،،، فبائ آلآءِ ربکما تکذبان ؟
علماء کی ایک قسم وہ ھوتی ھے جو بڑے بڑے مدارس بنا کر رھتی ھے ،جن میں بہت سارے طالبِ علم ھوتے ھیں ،جن کی قسمیں اور ڈیوٹیاں مختلف ھوتی ھیں ،،مثلاً کچھ مزدور طلباء ھوتے ھیں تو کچھ محافظ طلباء ھوتے ھیں ،دیہاتی علاقوں میں تو کسان طلباء بھی پائے جاتے ھیں جو فصل کی بوائی کٹائی کے ساتھ ساتھ مدرسے کی بھینسیں بھی پالتے ھیں ،دودھ دوھتے ھیں ،ٹریکٹر اور تھریشر بھی چلاتے ھیں اور 8 سال کے بعد سند لے کر گھر آتے ھیں ،،، بلکہ بھنگالی شریف کی تقریبِ تقسیمِ اسناد میں ھم نے اپنے چچا زاد کو جس نے مدرسے سے سوائے ٹریکٹر چلانے کے اور کچھ نہیں سیکھا تھا پانچویں بار تقسیمِ اسناد کی تقریب سے سند لیتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ ماجرا کیا ھے ؟ جواب ملا کہ جب تک مدرسے سے خاطر خواہ طلباء تقریب کے لئے دستیاب نہیں ھونگے تب تک وفا کا تقاضہ یہی ھے کہ پرانے طلباء ھی بار بار تجدید اسناد کرتے رھیں تا کہ فنڈز دینے والوں کا ایمان تازہ رھے ،،،،،،، جملہ معترضہ کے طور پہ کہتا چلوں کہ ھم یہ واردات اپنے سہ روزے میں بھی کر جاتے تھے ،، جب ایک بار نام لکھوانے والا ھر روز روز اٹھ کر پہلی بار کی طرح کے جوش جذبے سے کہتا ” جی ساری زندگی ” جی ڈیڑھ سال ، جی تین چلے ،، جی پیدل جماعت ” تو ھمارا تراہ نکل جاتا کہ بھائی یہ کتنی زندگیاں دے گا اور کتنے جنم لے گا ؟ آخر جب ھم پرانے ھو گئے اور قابلِ اعتماد ٹھہرے تو بتا دیا گیا کہ اس کو Appetizer کہتے ھیں ،جو ساتھ والے کے تذبذب کو ختم کرنے کے لئے ھوتا ھے ،، انما الاعمالُ بالنیات،، خیر علماء کی یہ مدرسی ،مہتممی قسم اپنی دنیا میں مگن اور اسٹیٹس کو( Status Quo) کی سب سے بڑی حامی ھوتی ھے ، انہیں نہ کبھی کوئی مسئلہ ھوتا ھے اور نہ ھی کسی مسئلے کا حل پتہ ھوتا ھے ،، جس ڈرائیور کی گاڑی کبھی پھنسی ھی نہ ھو ، اسے پھنسی ھوئی گاڑی نکالنے کا تجربہ بھی نہیں ھوتا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
علماء کی دوسری قسم ،،،،،،،، مناظراتی ھوتی ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہ اپنے فرقے کا ھراول دستہ ھوتی ھے ،، اور اپنے فرقے کو پکا ٹھکا مسلمان اور دوسرے فرقے کو پکا ٹھکا کافر ثابت کرنے کی مشقیں کرتی ھے ،، داؤ پیچ سیکھتی ھے ،کس آیت کو کس آیت کے ساتھ کاٹنا ھے اور کس حدیث کا رستہ کس حدیث سے روکنا ھے ،، اس جہاد کے لئے فارغ ھونے والے طلباء میں سے ھی ذھین اور متشدد طلباء کا انتخاب کر لیا جاتا ھے ، طلباء کی دلچسپی اپنے علاقے میں پائے جانے والے فرقوں کی نسبت سے ھوتی ھے ،، چکوال ، سرگودھا ،جھنگ ،چنیوٹ ،صدیق آباد ( سابقہ ربوہ ) کے علاقے کے طلباء شیعیت اور مرزائیت کے خلاف کام کرنے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ھیں ،، تو لاھور ،سادھوکے، کامونکے ،مرید کے ،گوجرانوالہ یعنی جی ٹی روڈ کے اطراف کے طلباء سلفیت یا غیر مقلدیت کے خلاف کام کرنے میں دلچسپی ظاھر کرتے ھیں، یوں فراغت کے بعد انہیں مختلف کورسز میں مناظر اساتذہ تربیت دیتے ھیں ،، جن میں منظور چنیوٹی صاحب شیعیت اور مرزائیت کے ماھر استاد تھے ،، جن سے ھمیں بھی تربیت لینے کا اعزاز حاصل ھوا ،، علامہ دوست محمد قریشی بھی قاطع مرزائیت و شیعیت و بریلویت تھے ،، بریلویت کے خلاف علامہ عنایت اللہ اور مولانا غلام اللہ خان ، غلام غوث ھزاروی اور سعید احمد ملتانی وغیرہ چند مشہور نام ھیں ،،،،، ان کے شاگرد مناظر ھزاروں کی تعداد میں ھیں ،،،،،،،،
علماء کی یہ مناظرانہ قِسم ،،،،،، توپ کے سامنے ھوتی ھے اور اسے فوری فیصلے کرنے ھوتے ھیں ،،،،،، جو انہوں نے کیئے کیونکہ وہ یہ فیصلے کرنے کے لئے مجبور تھے لہذا معذور تھے ،، جب آپ یہ دیکھیں کہ ایک حدیث آپ کے سامنے لا کر رکھی گئ ھے ،، ھزراوں کا مجمع ھے ،، اصول و ضوابط لکھے جا چکے ھیں ،، اور آپ کی کتابِ مقدس سے ایک حدیث پیش کی گئ ھے ،جس سے شیعیت ثابت ھوتی ھے ، آپ کے سامنے صرف دو رستے ھیں ،، یا تو شیعہ ھو جایئے اور ھزاروں کے شیعہ ھونے کا سامان کیجئے ،، شیعہ کے موقف کو درست تسلیم کیجئے ،، یا اس حدیث کو رد کر دیجئے جو آپ کے ایمان کے لئے خطرہ بن گئ ھے ،،،،،، نتیجہ وھی ھے کہ پھر سعید احمد ملتانی کا قلم بخاری محدث لکھنے پر مجبور ھو جاتا ھے ،،،،،،،،،،، غلام اللہ و عنایت اللہ سماع موتی کے منکر ٹھہرتے ھیں ،،، بات نبی ﷺ کے سننے کی نہیں بات تو گلی گلی اور ھر چوک پہ دفن ان ” اولیاء ” کے سماع کی ھے جن سے لوگ مرادیں مانگتے ھیں ،، اگر ایک زندہ سے دعا کرانا ثابت ھے ،، اور مردہ بھی زندہ کی طرح سنتا ھے تو اس سے قبر میں درخواست کرنا کہ ” یا داتا میرے لئے اللہ سے فلاں کام کی منظوری کا سامان کیجئے ،، سفارش کیجئے ،، کیونکر شرک ھو گیا ؟ ان اللہ یُسمع من یشاء ،،، اللہ تو جس کو چاھتا ھے سنوا سکتا ھے ،، اس میں نبی غیر نبی کی کوئی تخصیص نہیں ،، اگر سماعَ موتی کا انکار کرنا ھے تو کانواں والی سرکار سے نہیں ،،،،،،، مدینے والی سرکار سے یہ انکار شروع ھو گا ،،، اور ٹھیک ابوبکر صدیقؓ والا عقیدہ رکھنا ھو گا ،،
((أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ ))
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ﴾
لہذا سماع موتی کے منکر اصلاً علماء کی مناظرانہ قسم سے تعلق رکھتے ھیں ،، جنہیں اپنے مناظرے کے اختتام پر یا تو شیعہ ھونا ھوتا ھے یا بریلوی ھونا ھوتا ھے ، لہذا وہ حالتِ اضطرار میں اس حدیث پر سوال اٹھا دیتے ھیں ،، اس سوال کے نتیجے میں تقدس کا وہ فسوں ٹوٹ جاتا ھے جو نسل در نسل ان میں انسٹال کیا گیا تھا ،، اور کر گیا سر مست مجھ کو ٹوٹ کر میرا صُبو کی کیفیت پیدا ھو جاتی ھے ،، اب ان مناظر علماء کا مدارس میں مورچہ بند علماء کے ساتھ گزارا نہیں ھو سکتا ،، مہتمم دیوبند قاری طیب صاحب کے ھنگامی دورے بھی دیوبندی علماء کے ” حیاتی اور مماتی دھڑوں میں صلح نہیں کروا سکے ،، حیاتی علماء حیات النبی ﷺ سے حیاتِ اولیاء کشید کرتے ھیں اور قبروں پہ مراقبوں کے ذریعے ان سے استفادہ کرتے ھیں ،، عملی طور پہ دیوبند کے حیاتی اور بریلویوں میں رائی کے دانے کے برابر فرق نہیں ،، پھر شرک اور کفر کے فتوے کس کے خلاف لگائے جاتے ھیں ؟ سعید احمد ملتانی نے جو کیا ،،،،، وہ اس لئے کیا کہ اس کی ساری زندگی کی توحید کی محنت اور اس کا ایمان بیڑہ ان حدیثوں کی وجہ سے غرق ھو رھا تھا ،،،،، جس کے اندر بھی دیانت ھو گی اور وہ سمجھے گا کہ فلاں چیز قرآن کے اساسی عقیدے اور تعلیم ھی کے خلاف ھے تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی فیصلہ کر کے رھے گا ،، ایک جج کے سامنے جب کوئی کیس آئے گا تو اسے کوئی فیصلہ کر کے ھی اسے فارغ کرنا ھوتا ھے ، اسے ایک سوال سمجھ کر ٹالا نہیں جا سکتا ،،،،،،،،،، خود آئین میں یہ بات موجود ھے کہ اس کی اساسی شقوں کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی جو کہ اس کو مرد سے عورت بنا دیں ،، ایک گاڑی کے Chases ھی اگر ٹیڑھے ھو جائیں یا ویلڈ شدہ نکل آئیں تو گاڑی کا ماڈل اور سیٹیں 2015 کی بھی ھوں تو اس گاڑی کو کینسل کر دیا جاتا ھے ،، جو حدیث قرآن کی قرآنیت پر حملہ آور ھو، جو اس کی توحید کا گلہ گھونٹ رھی ھو ،، جو اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگا رھی ھو،، اس کو سینے سے لگانا اکابر کو خدا بنانے کے سوا اور کچھ نہیں !!
یہی معاملہ اب ملحدین کے پیجز پر ھوتا ھے ،،
یا تو آپ صم بکم اس حدیث کو ٹھیک مان لیجئے جو ملحد نے آپ کے سامنے رکھی ھے ،، اور ملحد بن جایئے ،، یا اس حدیث کو قرآن پر پیش کیجئے اور رد کر کے اپنا ایمان بچا لیجئے ، کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ھی پڑے گا ،، یہ مجبوری ھے ،، مدارس والے آرام سے بیٹھے ھیں ، ایمان تو آپ کا خطرے میں ھے ،،،،، مرد تو مرد ، سڑک پر پاؤں رکھ دینے والی عورت کو بھی بعض دفعہ اپنے اسکرٹ اور اونچی ایڑھی سمیت دوڑ کر سڑک کراس کرنی پڑ جاتی ھے کیونکہ آنے والی گاڑی کی رفتار کے مطابق فیصلہ کرنا اس کی مجبوری بن جاتا ھے ،، یہ مجبوری سڑک کنارے کھڑے شخص کو لاحق نہیں ھوتی ،، وہ وھاں کھڑے ھو کر اعتراض جھڑ سکتا ھے کہ اس عورت کو دیکھو کتنی معیوب لگ رھی ھے دوڑتے ھوئے ،، اب راوی تو اپنا ایمان ساتھ لے گیا ھے اسے کوئی خطرہ نہیں ، خطرہ تو میرے ایمان کو ھے ، اگر ایک حدیث میرا ایمان لے کر ڈوب رھی ھے تو میں نے اس کا اچار ڈالنا ھے ؟ کیا حدیثیں لوگوں کو مرتد بنانے کے لئے اکٹھی کی گئ تھیں یا مسلمان بنانے کے لئے ؟ جب تک ھم کتاب اللہ کو میزان و پیمانہ نہیں بنائیں گے تب تک کوئی راہ نجات نہیں ھے ،، ان احادیث نے خود قرآن کی حقانیت پہ ھمالیہ جتنے بلند سوال اٹھا کھڑے کیئے ھیں ،، جتنے نوجوان ملحد پیجز پہ گئے ھیں ،، دھائی دھائی کرتے بھاگے ھیں اور کئ وھیں پھنسے مدد کے لئے پکار رھے ھیں،، ان کے لئے دیوبند کے مماتی گروہ کے پاس دوا ھے ،، جس نے آخر کار تنگ آ کر تحقیق کا بیڑا اٹھا لیا ھوا ھے ،،،،،،،،،،