قرآن کا حقیقی مقام

قرآن و حدیث ،،
نبئ کریم ﷺ اپنے قبیلے قریش میں مبعوث فرمائے گئے تھے اگرچہ ساری انسانیت کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے ،،مگر پہلے مخاطب قریش ھی تھے ،، نبئ کریم ﷺ کی زبان بھی قریشی لہجے والی عربی تھی ،، آپ کی باتیں قریش کی سمجھ میں لگتی تھیں ،، پھر اللہ پاک کو قریش ھی کی عربی قریشی لہجے میں بول کر قرآن کی صورت محفوظ کرانے کی بھلا کیا ضرورت تھی ، کیا اللہ پاک اپنے نبئﷺ کے کلام کو ترجمہ کر رھا تھا ، یا کیا نبئ کریم ﷺ قرآن کا ترجمہ کر کے سمجھانے کے لئے مبعوث کیئے گئے تھے ؟
قرآن کہاں کھڑا ھے ؟
قرآن صرف عربی حروف پر مشتمل خطاب و کتاب نہیں ،، بلکہ اس میں اس کے زمانہ نزول سے لے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کی فریکوینسی ھے جونہی کوئی انسان تعصب سے بلند ھو کر فری ٹو ائیر ھوتا ھے فوراً ایمان کی ڈاؤن لوڈنگ شروع ھو جاتی ھے اور وہ سیو ھو جاتا ھے ،، یہ بات نبئ کریم ﷺ کی عربی میں نہیں ھے ، لہذا نبئ کریم ﷺ نے قرآن کو تو باقاعدہ اور بلا ناغہ تسلسل کے ساتھ رجسٹرڈ کرایا ،، اور اس دوارن حدیث کی کتابت کی ممانعت کر دی کہ عربی کلام کی مشابہت کہیں غلط فہمی نہ پیدا کر دے ،، پھر جب اجازت دی تو مخصوص لوگوں کو دی ھر ایک کو اجازت نہیں دی اور تیسری بات یہ کہ صرف اجازت دی ، لکھنے کا حکم نہیں دیا اور نہ پابندی اور تسلسل کے ساتھ کسی کو پاس بٹھا کر حدیث کی کتابت کرائی ، لوگوں نے شوقیہ یہ کام کیا ھے ،، الفاظ چاھے حدیث کے ھوں یا قرآن کے ،، ان کے کئ لغوی معانی ممکن ھیں ،، جب وہ الفاظ نبئ کریم ﷺ کے عمل کی صورت اختیار کر لیتے ھیں تو پھر باقی سارے مفاھیم منسوخ ھو جاتے ھیں ، اس لئے قرآن کے ساتھ الفاظ کو عمل کی صورت دے کر اللہ کی منشاء کو حصر کا روپ دینا تھا ،، نبی پاک ﷺ کا یہ عمل سنت ھے جو صحابہؓ میں جاری ھے اور بار بار کی تکرار نے اسے سنت بنا دیا ،،،،، آپ عربی کی ساری کتابیں کسی کو دے دیجئے اتمامِ حجت کبھی نہیں ھو گا جب تک وہ بندہ اللہ کی کتاب کی طرف ری ڈائریکٹ نہیں ھو گا ،، لہذا قرآن حکیم میں اسی کتاب کو نبئ کریم ﷺ کا تبلیغی نصاب قرار دیا گیا ھے ،،؎
ياأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته ،،
اے رسول پہنچایئے وہ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا ( دیکھ لیجئے حالانکہ نبئ پاک ﷺ بھی قریش کی عربی بول رھے تھے اور اللہ بھی قریش کی عربی میں کتاب نازل فرما رھے تھے ،الفاظ و معانی میں کوئی تفاوت نہیں ،، مگر قرآن نہ پہنچا تو ھزاروں کتابیں پہنچا کر بھی رب کا پیغام نہیں پہنچایا ،فریضہ ادا نہیں ھو گا )
وأوحي إلي هذا القرآن لأنذركم به ومن بلغ ،،
اور میری جانب یہ قرآن وحی کیا گیا ھے کہ میں تمہیں بھی خبردار کر دوں اور جن تک بھی ( قیامت تک ) پہنچے ،،( الانعام )
خود نبئ کریم ﷺ بھی اس کتاب کے اتباع کے پابند تھے ،، اگر اس کے اتباع سے اعراض کرتے تو مستوجبِ گرفت تھے ،،
إن أتبع إلا ما يوحى إلي وما أنا إلا نذير مبين،،، الاحقاف
قُلْ إِنِّيَ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ (15) مَّن يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ (16) ( الانعام )
اور خود نبئ کریم ﷺ کا حکم موجود ھے کہ ؎
میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک آیت ھو ،،
عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما : أنَّ النبيَّ – صلى الله عليه وسلم – ، قَالَ : (( بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً )) رواہ البخاری و مسلم
اس لئے یقین جانئے آپ ھزاروں کتابیں بانٹ دیجئے ،،جب تک قرآن نہیں پہنچے گا بندے کا پاس ورڈ میچ نہیں کرے گا ،، ایک سکھ کو قرآن دیا گیا تھا آج اس کا فون تھا وہ مسلمان ھونا چاھتا ھے ،صرف ایک ھفتہ لگا ھے اور وہ بندہ سارے عزیز رشتے دار، دوست احباب ،جائداد زمینیں مکان ،، سب چھوڑنے کو تیار ھو گیا ھے ،، یہ کام صرف یہی کتاب کر سکتی ھے ،، مسلمان وھی نہیں ھوا جس کو یہ پہنچا نہیں ، اور دیر سے وھی مسلمان ھوا جسے دیر سے پہنچا اور جو جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لے اسے صرف صورِ اسرافیل ھے جگا سکتا ھے ،،
وما علینا الا البلاغ المبین