قرآن،منافقین اور توھینِ رسالت

ھمارا سب سے بڑا المیہ یہ ھے کہ ھم نے احکامت کے لئے اللہ کی کتاب سے استفادہ ترک کر دیا ھے اور اسے مُردوں کی بخشش کا ذریعہ سمجھ کر بس ” ختم ” کرنے پہ زور رکھ لیا ھے ، سال میں اتنے ختم اور رمضان میں اتنے ختم ، جبکہ احکامات اور شریعت کا پہلا منبع قرآنِ حکیم ھے ، عقائد اور ایمان کا پہلا اور اھم ذریعہ کلام اللہ ھے ،، اسی نے محمدﷺ کو رسول بنایا اور ایمان سکھایا،، وكذلك أوحينا إليك روحا من أمرنا ما كنت تدري ما الكتاب ولا الإيمان ولكن جعلناه نورا نهدي به من نشاء من عبادنا وإنك لتهدي إلى صراط مستقيم !،، اور اسی طرح ھم نے اپنا امر آپ کو وحی کیا ، آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ھے اور ایمان کیا ھے،مگر ھم نے اس کو وہ نور بنایا جس کے ذریعے جسے ھم چاھتے ھیں ھدایت دیتے ھیں ، اور آپ یقیناً سیدھی راہ کے ھدایت دینے والے ھیں ،
کتاب اللہ میں کسی حکم کے مل جانے کے بعد انسان ھر دیگر ذریعے سے بے نیاز ھو جاتا ھے ، جس طرح پانی کی موجودگی میں تیمم نہیں اسی طرح قرآن کے حکم کی موجودگی میں اور کوئی آپشن نہیں ، اگر ھم قرآن حکیم کو اس کا وہ مقام دیں جس کا یہ حقدار ھے ، اور اسے شریعت میں عضوِ معطل نہ بنا دیں تو ھمارے بہت سارے بنیادی مسائل پیدا ھی نہ ھوں اور جو ھو گئے ھیں وہ حل ھو جائیں ،، نبئ کریم ﷺ کی توھین کے جتنے واقعات آپ کی زندگی میں ھوئے اور جس طرح قرآن نے انہیں لفظ لفظ محفوظ فرمایا تا کہ نبی کریمﷺ کے بعد آنے والے زمانوں میں یہ امت بے راہ نہ ھو ،اس کی مثال نہیں ملتی ،، مگر ھم نے جو رویہ اپنایا اس کی بھی مثال نہیں ملتی ،، آج لوگ قرآن کے مقابلے میں حدیث لا کر پوچھتے ھیں کہ پھر اس کا کیا کریں ؟
اس مضمون میں ھم یہ جائزہ لیں گے کہ ” کیا نبئ کریمﷺ کی توھین آپ کی زندگی میں کی گئ ؟ اگر کی گئ تو اس بارے میں اللہ کا حکم کیا آیا ؟ اور رسول کریمﷺ نے اس حکم پر عمل کس شان سے کیا ؟
1- کیا نبئ کریمﷺ کی زندگی میں آپکی قولاً اور فعلاً توھین کی گئ؟
جی ھاں نبئ کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بے انتہا توھین کی گئ، کفار نے تو جو کیا سو کیا ، کلمہ گو مسلمانوں کی طرف سے بھی کوئی کمی نہیں کی گئ ،بعض دفعہ تو قرآن میں درج ھونے کے باوجود ان الفاظ کو دھرانا طبیعت پر گراں گزرتا ھے ، میں قرآن حکیم کی صرف چند سورتوں سے انہیں نقل کرونگا ، پھر اللہ کا تبصرہ بھی بیان کروں گا اور پھر نبئ کریمﷺ کا اسوہ بھی بیان کرونگا کہ ھمارے نبی ﷺ نے اللہ کے حکم کو کس شان سے پورا کیا ! اس وضاحت کے ساتھ کہ منافقین یا نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے یہ گستاخیاں اس وقت کی گئیں جب اسلامی ریاست مستحکم ھو چکی تھی، اور نبئ کریم ﷺ کی دھاک قیصر و کسری تک کے علاقوں میں بیٹھ چکی تھی، ایسا نہیں ھے کہ حضورﷺ کو مجبوراً خون کے گھونٹ پی کر یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا یہ غزوہ تبوک ، اور اس سے متصل پہلے یا بعد کے زمانے کے واقعات ھیں ،
سورہ بقرہ میں آپ پڑھتے ھیں کہ "اے ایمان والو تم مت کہو ” راعنا ” بلکہ کہو ” انظرنا ” اور غور سے سنا کرو ( تا کہ تمہیں انظرنا کہنے کی ضرورت بھی نہ رھے ) اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ھے ( البقرہ 104 )
صحابہؓ اگر کوئی بات ٹھیک سے نہ سن پاتے تو عرض کرتے راعنا ،یعنی ھماری رعایت فرمایئے ،یعنی دھرا دیجئے،، منافقین کہتے راعینا ،، یعنی زیر کو ذرا لمبا کر لیتے جس کا مطلب تھا اے ھمارے راعی یعنی بکریاں چرانے والے ،، اس پر اللہ پاک نے مومنوں کو یہ لفظ بولنے سے ھی منع فرما دیا جس کا منافقین فائدہ اٹھائیں ،مگر ساتھ ھی ان کے خلاف ایکشن لینے کی ممانعت بھی کر دی ،اور یہ ممانعت آیت کے آخری حصے میں ھے کہ ان کافروں کے لئے دنیا نہیں بلکہ آخرت میں سزا کا اھتمام کیا گیا ھے ، یہی الفاظ سورہ نور میں فرمائے گئے تھے کہ ” والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم ،، جس نے اس بھتان کا بڑا بوجھ اپنے سر لیا ھے اس کے لئے ( 80 کوڑے نہیں کافی نہیں ) عذاب عظیم ھے ، اسی وجہ سے اس بھتان کے سلسلے میں بدری صحابہ اور نبئ کریم ﷺ کی خوائرِ نسبتی حضرت حمنہ بنت جحش جو ام المومنین زینب بنت جحشؓ کی بہن تھیں کو تو 80، 80 کوڑے مارے گئے ،مگر عبداللہ ابن ابئ اور اس کے ٹولے کے معاملے کو اللہ کے حوالے کر دیا گیا اور ان کی ناک سے مکھی تک نہیں اڑائی گئ !
سورہ ال عمران میں غزوہ احد کو ڈی بریف کیا گیا ھے ، اس میں عبداللہ ابن ابئ نہ صرف 300 منافق ساتھ لے کر پلٹ آیا تھا یوں ھزار میں سے 700 مسلمان مجاھد باقی بچے تھے گویا وہ ایک تہائی طاقت لے کر منحرف ھو گیا تھا، پھر جب مسلمان جانی نقصان سے دو چار ھوئے تو وہ بجائے شرمندہ ھونے کے زبانیں دراز کرنے لگ گئے ،،
اے ایمان والو ، ان کی طرح مت ھو جاؤ جنہوں نے کفر کیا اور کہا اپنے بھائیوں کو کہ جب وہ غزوے پہ نکلیں یا سفر میں جائیں کہ اگر وہ ھمارے ساتھ ھوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (، آل عمران156 ) یہاں ان کےاس فعل شنیع کو کفر قرار دیا ،مگر نہ کوئی مقدمہ نہ کورٹ مارشل نہ کوئی سزا !
بے شک جن لوگوں نے ایمان کے بدلے کفر خریدا وہ اللہ کو ھر گز کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتے اور ان کے لئے دردناک عذاب ھے( ” دنیا میں کوئی سزا نہیں ” ) آل عمران 177
یہود میں سے کچھ لوگ بات کو موقعے سے ھٹا کر استعمال کرتے ھیں اور کہتے ھیں کہ سمعنا و عصینا ،، ھم نے سنا اور نافرمانی کی ، واسمع غیر مسمعٍ و راعنا لیاً بالسنتھم و طعناً فی الدین، ولوا انھم قالو سمعنا و اطعنا واسمع وانظرنا لکان خیرا لھم ولکن لعنھم اللہ بکفرھم فلا یؤمنون الا قلیلاً ( النساء 46 )
یہ یہود ھیں جو مدینے کے شہری اور نبئ کریم ﷺ کی رعایا ھیں، ان کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں لیا گیا ، وہ بالکل وھی الفاظ کہتے تھے جو صحابہؓ استعمال فرماتے تھے مگر مطلب دوسرا لیتے تھے ، اب اللہ پاک نے ان کے اندر کی بات کھول کر بیان کر دی ،ظاھر اللہ پاک جھوٹ نہیں بولتا ،، پھر جب حضورﷺ کو اس پہ کوئی ایکشن نہیں لینا تھا تو بتانے کا فائدہ ؟ اس کا فائدہ صحابہؓ اور اس امت کو یہ سبق دینا تھا کہ ھمارے رسول نے ان کے خلاف ایکشن اس لئے نہیں لیا کہ آپﷺ کو ان کے کرتوت اور ذھنیت کا پتہ نہ تھا ،، بلکہ پتہ ھونے کے باوجود ایکشن نہیں لیا کہ ملک اس طرح نہیں چلتے ،،
اب ان الفاظ کا تجزیہ کرتے ھیں ،، سمعنا کے بعد اطعنا کہنا مگر اس طرح زبان مروڑ کر کہنا کہ وہ ھو تو عصینا مگر سننے والے کو اطعنا لگے ،، صحابہ جب عرض کرتے تھے ” واسمع غیر مسمع ” اس کا مطلب تھا ،ھماری سنیئے اللہ آپ کو کوئی بری خبر نہ سنائے ” مگر یہود جب کہتے واسمع غیر مسمع ” تو مطلب لیتے ،، ھماری سنو اللہ تمہیں بہرہ کر دے ،،یعنی اس کے بعد کچھ سن نہ سکو !
سورہ النساء ھی کی آیت 61 میں ان منافقین کا رویہ بیان کیا ھے کہ جب ان منافقین کو اللہ کے نازل کردہ حکم اور رسول ﷺ کی طرف بلایا جاتا ھے تو وہ اس طرف آنے سے کنی کتراتے ھیں ،پھر جب کسی مصیبت میں گرفتار ھو جاتے ھیں تو آ آ کر قسمیں کھاتے ھیں کہ ھم تو خیرخواھی چاھتے تھے اور کوشش میں تھے کہ عدالت سے باھر ھی معاملہ طے پا جائے ،، یہ وہ لوگ ھیں جن کے اندر کو اللہ پاک بڑی اچھی طرح جانتا ھے ” چنانچہ آپ ان سے درگزر فرمائیں اور انہیں نصیحت کرتے رھیں اور ایسے طور سے بات کریں کہ وہ ان کے اندر چلی جائے ( کوئی مقدمہ اور کورٹ مارشل نہیں )
سورہ النساء ھے پورا رکوع منافقین کی شرارتوں اور کتاب اللہ اور رسول اللہ کا ٹھٹھا اڑانے کی روش بنا کرنے کے بعد آیت نمبر 140 میں ارشاد فرمایا کہ اس قسم کی صورتحال میں ” تم پر کتاب اللہ میں حکم نازل کیا جا چکا ھے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رھا ھے اور ان کا ٹھٹھا اڑایا جا رھا ھے تو تم ان کے ساتھ مت بیٹھو جب تک کہ وہ کسی اور موضوع پر بات شروع نہ کر دیں،، ورنہ تم بھی انہی جیسے ھو جاؤ گے ، بے شک اللہ منافقوں اور کافروں کو جھنم میں جمع کر دے گا ( مگر دنیا میں کوئی مقدمہ نہیں کوئی خصوصی عدالت نہیں کوئی سزائے موت نہیں )
سورہ توبہ ھے مفسرین کے نزدیک یہ سب سے آخر میں نازل ھونے والی سورت ھے، اور اس کی آیت لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیزۤ علیہ ما عنتم ،حریصۤ علیکم بالمومنین رؤف رحیم ،، نازل ھونے والی آخری آیت ھے ! اس میں منافقین کی اذیت ناک روش اور اللہ کا اس پر اپنے نبیﷺ کو صبر اور درگزر کے لئے کہنا حکمی فرض اور عملی سنت ھے ! اس کی آیت نمبر 42 سے لے کر 122 تک مسلسل منافقین زیرِ بحث ھیں ،،
فرمایا ” ان سے کہہ دیجئے کہ برضا و رغبت خرچ کرو یا اکراہ اور مجبوری سے ،تم سے انفاق قبول نہیں کیونکہ تم فاسق گروہ ھو ، انفاق کی قبولیت اس لئے روکی گئ ھے کہ ان لوگوں نے کفرکیا اللہ کے ساتھ اور رسول ﷺ کے ساتھ اور نماز میں سستی کے ساتھ مارے باندھے کے آتے ھیں اور کراھت کے ساتھ ٹیکس سمجھ کر انفاق کرتے ھیں ( 54) ان کا مال و اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے درحقیقت اللہ یہ چاھتا ھے کہ انہیں ان دونوں چیزوں کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور وہ اس حال میں جان دیں کہ وہ کفر میں ھوں (55) اور اللہ کی قسمیں کھاتے ھیں کہ وہ تم میں سے ھیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ھیں بلکہ ،تم سے کٹا ھوا گروہ ھے ،56،،،،
ان میں کچھ ایسے ھیں جو صدقات کے سلسلے میں آپ پہ الزام دھرتے ھیں ( کہ آپ خاص خاص لوگوں کو زیادہ دیتے ھیں ) اگر انہیں دے دیا جائے تو راضی رھتے ھیں اور اگر ان سے روک لیا جائے تو یہ غصہ کر جاتے ھیں 57
اس سلسلے میں ان کے بعض اھانت آمیز جملے احادیث میں بیان کیئے گئے ھیں مثلاً” بھر کر ڈالیں یہ کونسا آپ کے ابا جی کا مال ھے ” بانٹنا ھے تو عدل سے بانٹیں ” وغیرہ
ان میں کچھ ایسے ھیں جو نبیﷺ کو اذیت دیتے ھیں اور کہتے ھیں کہ وہ ( نبی ﷺ ) نرے کان ھی کان ھیں، ( اندر دماغ میں کچھ نہیں ھے کان کے کچے ھیں جو بہانہ کرو سر ھلا کر قبول کر لیتے ھیں ) اے نبیﷺ کہہ دیجئے کہ کان کا کچا ھونا اچھا ھے اس لحاظ سے کہ وہ ان کانوں سے اللہ کا کلام سنتے ھیں اور مومنوں پر اعتبار کرتے ھیں اور ( ان کا عذر قبول کر لینا ) مومنوں پر رحمت کی وجہ سے ھے اور جو لوگ اللہ کے رسولﷺ کو اذیت دے رھے ھیں ان کے لئے دردناک عذاب ھے- 61 ( مگر دنیا میں کوئی مقدمہ نہیں کوئی سر تن سے جدا نہیں )
کیا یہ لوگ جانتے نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرتا ھے اس کے لئے جھنم کی آگ ھے وہ اس میں ھمیشہ رھے گا ،وہ بہت بڑی رسوائی کا مرحلہ ھے "63 "،
منافقوں کو خدشہ ھے کہ مبادا کوئی سورت نازل ھو کر ان کے دلوں کا حال بیان نہ کر دے ،کہہ دیجئے کہ استۃزاء اڑا لو اللہ وہ بات کھول کر رھے گا جس کا تمہیں دھڑکا لگا ھوا ھے "64 ” اگر آپ ان سے پوچھیں کہ یہ بات تم نے کیوں کی ھے تو وہ کہیں گے کہ ھم تو ھنسی مذاق کر رھے تھے ،، کہہ دیجئے کہ کیا تمہیں ھنسی مزاح کے لئے اللہ ،اس کی آیات اور اس کا رسول سوجھے ھیں ؟” 65 ” اب عذر پیش مت کرو تم ایمان کے بعد کفر کر چکے ھو ،اگر ھم ایک گروہ کو معاف کر دیں گے ( جو سچی توبہ کر لے گا ) تو دوسرے گروہ کو ھم ( آخرت میں )لازم سزا دیں گے ان کے جرائم کی پاداش میں، 66 ”
اے نبیﷺ جہاد کیجئے کفار اور منافقین کے خلاف اور سختی کیجئے ان پر اور ان کا ٹھکانہ جھنم ھے اور وہ برا ٹھکانہ ھے ،، 73 ”
ھمیں کفار کے خلاف تو جہاد یعنی قتال کے معنوں نظر آتا ھے ،مگر منافقین کے خلاف جہاد قتال کی صورت کہیں نظر نہیں آتا ، علامہ علی شیر حیدری فرمایا کرتے تھے کہ منافقین کے پول کھولنا ھی ان کے خلاف جہاد ھے !
اللہ کی قسمیں کھاتے ھیں کہ انہوں نے یہ بات نہیں کہی ، حالانکہ سچ مچ انہوں نے وہ کلمہ کفر کہا ھے اور کافر ھو گئے ایمان لانے کے بعد اور اس سازش کی کوشش کی جس میں ناکام رھے "( اشارہ تھا غزوہ تبوک سے واپسی پر حضورﷺ کو اونٹ سمیت ایک پہاڑ کی تنگ گھاٹی سے نیچے گرا دینے کی سازش کی طرف ) 74
آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں آپ 70 بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ ان کو نہیں بخشے گا یہ اس وجہ سے ھے کہ انہوں نے کفر کیا ھے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ، اور اللہ فاسق قوم کو راہ نہیں سجھاتا” 80″ مزید دو رکوع ان کی سازشوں اور مذمت کے بعد فرمایا تو کیا فرمایا ” یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم پلٹ کر جاؤ گے تا کہ تم ان سے اعراض کرو،، سو تم ان سے اعراض ھی کرو یہ گندگی ھیں ،اور ان کا ٹھکانہ جھنم ھے اس کمائی کا بدلہ جو وہ کماتے رھے ھیں (95 )
اس حکم کو نبئ کریم ﷺ نے شلجم سے مٹی جھاڑنے کے طور پر استعمال نہیں فرمایا بلکہ اس طرح پورا کیا ھے کہ حق ادا کر دیا ھے ، آج دنیا کو دو یا چار منافقوں سے زیادہ کسی کا نام پتہ نہیں ، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ منافقین کو ڈسکس نہ کیا جائے ان کا نام لے کر بدنام نہ کیا جائے ،تا کہ ان کی واپسی کے رستے کھلے رھیں ، اس لئے دنیا سوائے عبداللہ ابن ابئ کے نام کے اور کوئی نام پیش نہیں کر سکتی، شہدائے احد کے نام سب کو پتہ ھیں،، مگر نبیﷺ سے الگ ھو کر واپس جانے والے 300 منافقین میں سے 3 کے نام بھی کسی کو یاد نہیں،، پھر اس معاملے کو عبداللہ ابن ابئ کا جنازہ پڑھا کر نبئ کریم نے انتہا تک پہنچا دیا ،جس کے بعد نبئ کریمﷺ کو تو منافقین کا جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا گیا مگر صحابہ ان کا جنازہ پڑھتے رھے ، ان کے نکاح بھی ھوتے رھے ، وہ مسجد میں نماز بھی پڑھتے رھے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی ھوتے رھے گویا کلمے کے تمام سماجی فوائد ان کو میسر رھے اور آخرت میں ان کا معاملہ کفار کے ساتھ رکھا گیا !
اسی طرح سورہ المنافقون میں تو عبداللہ ابن ابئ نے کہا کہ جو لوگ نبی ﷺ کے اردگرد مہاجر ھو کر آ بیٹھے ھیں ان کو کھانے کو مت دو ،، دیکھنا خود ھی چلتے پھرتے نظر آئیں گے ،، پھر اگلی آیت میں یہ کہنا کہ مدینہ واپس جا کر عزت والے ذلیلوں کو نکال باھر کریں گے ،، کیا توھینِ رسالت نہیں تھا ؟ پھر کوئی گرفتاری ؟ کوئی عدالت ؟ کوئی سر تن سے جدا ؟ آخر ھم نے یہ توھینِ رسالت کا قانون کہاں سے لیا ھے ؟ کعب بن اشرف دفعہ 6 کا مجرم تھا ، عہد کر کے ریاست کے دشمنوں سے ملا ھوا تھا ، انہیں چڑھا لانے ، اور مسلمانوں پر اندر سے وار کرنے کا معاہدہ کیا تھا اس نے ، اس کا قتل غداری کی سزا تھی نہ کہ توھین کی ، جن جن کے بارے میں قرآن نے گواھی دی ھے کہ انہوں نے نبیﷺ کی توھین کی ،، ان میں سے کتنے لوگوں کو قتل کیا گیا ؟