عشق اور مشک

عشق اور مشک !
ھمارے دوست نے مثال دی ھے کہ یو ٹیوب پر جانوروں کے کلپ دیکھے جا سکتے ھیں کہ جانور بھی جنت و جھنم سے بالاتر ھو کر دوسرے جانور کی مدد کرتے ھیں –
ھم نے کئ کلپ خود دیکھے بھی ھیں اور شیئر بھی کیئے ھیں ،اور اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث بھی ھے کہ اللہ پاک نے رحمت پیدا فرمائی تو اس کے 100 حصے کیئے صرف ایک حصہ ساری مخلوق میں تقسیم کیا اور باقی 99 اپنے پاس رکھے – اسی ایک حصے کی تقسیم کا اثر ھے کہ گھوڑی اپنے بچے پر پاؤں نہیں رکھتی –
ایک اونٹنی خود مسلسل دھوپ میں کھڑی رہ کر بچے کو اپنے سائے میں آرام کرنے کا موقع دیتی ھے اور گھنٹوں کھڑی رھتی ھے ، یہ ممتا کا وھی جذبہ ھے جو چشمے کی طرح پھوٹتا ھے اور جانور کو بھی بے بس کر دیتا ھے، چیتا بندریا پر حملہ آور ھوتا ھے اس کو نظر نہیں آتا کہ بندریا کا بچہ اس کے سینے سے لپٹا ھوا ھے ،جونہی بندریا مرتی ھے اور چیتا اس کو کھانے لگتا ھے تو وہ بچہ اس کونظر آ جاتا ھے ، وہ بندریا کو بھول جاتا ھے اور ساری رات اس بچے کو سینے سے لگائے اس کو حرارت دینے کی کوشش کرتا ھے ،یہاں تک کہ لگڑبگوں سے بھی بچاتا ھے مگر صبح تک وہ بچہ سردی سے مر جاتا ھے – اسی طرح چیتا ھرنی کا بچہ پالتا ھے ،غالباً یہ چیتے کی مادائیں ھوتی ھیں یعنی مائیں ھوتی ھیں –
کچھ جذبات انسانوں اور حیوانوں میں مشترک ھیں ، ان میں خوف اور جان بچانے کا جذبہ بھی ھے – ایک کتے کو جب اس کا مالک روٹی ڈالتا ھے تو وہ اسی جگہ اس کے سامنے بیٹھ کر کھانا شروع کر دیتا ھے کہ مالک کی رضا سے ملا ھے ، لیکن جس دن وہ روٹی چھابے میں سے چوری اٹھا کر بھاگتا ھے پھر سامنے بیٹھ کر کبھی نہیں کھاتا بلکہ کہیں دور چھپ کر کھاتا ھے ، اس کا نام جان بچانے کا جذبہ ھے اس کا نام تقوی نہیں ،، اس کتے کو پتہ ھے کہ میں نے مالک کے غصے کو دعوت دی ھے اور مار مالک کا واجب ھے اور جان بچانا میرا فرض – اسی جذبے کے تحت ملحد اپنی شناخت چھپا کر رکھتے ھیں ، حق کی خاطر جان دینے کا جذبہ اس شخص میں قیامت تک پیدا نہیں ھو سکتا جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں – ملحدین اس معاملے میں کتے کو ھی فالو کر رھے ھیں ،جب کہ ھم ان انبیاء کی سنت کا جھنڈا تھامے ھوئے ھیں جنہوں نے کھُل کر کہا کہ کر لو جو کرنا ھے تم مجھے اس دعوت سے نہیں روک سکتے اور نہ ھی ھم رکیں گے اگرچہ اس کام میں ھماری جان چلی جائے –
کتے تو اپنے خالق سے واقف نہیں انسان جب واقف ھو کر اپنے خالق کا انکار کر دے تو وہ کتے سے بہت نیچے چلا جاتا ھے ، اولئک کلانعام بل ھم اضل ،،
اللہ پاک تو انسان کو گدھے اور کتے سے بلند دیکھنا چاھتا ھے اگرچہ وہ اللہ کی مخلوق ھی ھیں ، مگر جب انسان اللہ کی طرف بلند ھونے کی بجائے اپنی جبلت کا غلام بن جاتا ھے تو پھر اس کو کتے سے تشبیہ دی جاتی ھے —
(( وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ (175) وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (176) سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَأَنفُسَهُمْ كَانُوا يَظْلِمُونَ (177) الاعراف ،،
ان کو خبر دو اس شخص کی کہ جس کو ھم نے اپنی آیات عطا کی تھیں مگر وہ ان کی ذمہ داریوں سے نکل بھاگا پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور اس کو اغوا کر لیا ، اگر ھم جبر کرنا چاھتے تو اس کو ان آیات کی بدولت بلندیوں پر لے آتے مگر اسی نے ھمیشہ کے لئے زمین کی پستیوں کو پسند کر لیا لہذا ھماری بات ماننے کی بجائے اپنی خواھش کے پیچھے چل پڑا ، تو اس کا حال کتے کا سا ھو گیا کہ جسے ڈانٹا جائے یا چھوڑ دیا جائے وہ بس زبان لٹکائے رھتا ھے- یہ مثال ھے ان لوگوں کی جنہوں نے ھماری آیات کو جھٹلایا ، یہ قصہ بیان کر دیجئے شاید کہ یہ لوگ غور وفکر کریں – کتنی بری مثال ھے ان لوگوں کی جو ھماری آیات کو جھٹلاتے اور اپنی جان پر ظلم کرتے ھیں ،،
گویا ان لوگوں کا سارا مشن انسان کو کتے کی سطح پر لے کر آنا ھے جبکہ اللہ پاک نے انبیاء اور رسل کے ذریعے اپنی آیات و احکامات بھیجے تا کہ انسان کو حیوان کی سطح سے بلند کیا جائے ، زمین پر اللہ کے نائب کو حیوان بنانے کے مشن کا نام تحریکِ الحاد ھے –