عذابِ قبر قرآن کا عقیدہ نہیں ـ

تعجب کی بات نہیں کہ عقیدہ تو مسلمانوں پر عذاب قبر کا رکھتے ہیں،اور دلائل میں کفار پر عذاب کی آیات پیش کر رہے ہیں؟ کوئی ایک آیت بھی کسی مسلمان پر عذاب قبر کی پیش نہیں کر سکے چاہے امام بخاری ہوں یا ابنِ کثیر ہوں اور کفار بھی وہ جن پر رسول کی موجودگی میں اتمام حجت ہو کر ان پر عدالتی فیصلہ دنیا میں ہی نافذ کر دیا گیا اور اعلان فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا فلا نقیم لھم یوم القیامۃ وزنا۔ اب ان کے لئے قیامت کے دن کوئی اور عدالت نہیں لگے گی یعنی اچھے برے اعمال تول کر فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
جن آیات سے عذاب قبر برآمد کر رہےہیں وہ سب کفار سے متعلق ہیں، کسی ایک آیت میں بھی کسی گنہگار مسلمان پر عذاب قبر کا اشارہ تک برآمد نہیں کر سکے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ لا اکراہ فی الدین۔ دین میں کوئی جبر نہیں۔ من شاء فلیؤمن جو چاہے ایمان لائے و من شاءاللہ فلیکفر اور جو چاھے وہ کفر اختیار کرے۔ مگر مشرکینِ مکہ پر قران کی ان آیات کا اطلاق نہیں کیا گیا بلکہ سورہ توبہ میں ان کو چار ماہ کا وقت دے کر اعلان فرمایا کہ اس دوران ایمان لے آئیں ورنہ قتل کر دیئے جائیں۔ خراج کی شق کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ جن آیات میں کفار اور منافقین پر موت کے وقت عذاب کی تفصیل بیان کی گئ ہے اس کو کھینچ تان کر مسلمانوں پر عذاب قبر بنا رہے ہیں۔ اور خواہ مخواہ مسلمانوں کا پیشاب خطا کر کے ختم شریف دلوانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان کی پیش کردہ تمام آیات کے سیاق و سباق سمیت تفصیل عرض کر دونگا ان شاءاللہ۔

قاری حنیف ڈار

عذابِ قبر قرآن کا عقیدہ نہیں ـ
رسول اللہ ﷺ تیرہ سال مکے میں رہے، وہی ام القری والے آپ کی مخاطب امت تھی، ایک سو چودہ میں سے چھیاسی سورتیں مکہ میں نازل ہوئیں ، جن کا موضوع ہی انذار اور خبردار کرنا تھا، عذاب کا تذکرہ سب سے زیادہ مکی سورتوں میں ہے ، مدنی سورتوں میں تو اکثر وبیشتر قانون سازی کی گئ ہے، اور یہود و نصاری کے عقائد کو موضوع بنایا گیا ہے ـ جنۃ المعلی نام کا قبرستان مکے میں بھی موجود تھا جہاں حضرت خدیجہ بھی دفن تھیں ، رسول اللہ ﷺ سمیت سارے مکے والے عذاب قبر کے منکر تھے ، اور یہی قرآن کا دیا گیا عقیدہ بھی ہے ، انک میت و انھم میتون ، ثم انکم یوم القیامۃ عند ربکم تختصمون ،، اے نبی ﷺ آپ نے بھی مرنا ہے اور ان لوگوں نے بھی مرنا ہے پھر قیامت کے دن تم سب کو اللہ کے یہاں جھگڑنا ہے یا مقدمہ لڑنا ہے ، یہ مکی سورت میں ہی فرمایا گیا ہے ، دیکھ لیں کہیں بھی عذاب قبر نہیں ہے ، مدنی سورتوں میں بھی عذاب قبر کا تذکرہ یا ڈراوہ موجود نہیں ہے ، عذاب قبر اصل میں یہود کا عقیدہ تھا ، اور وہ اس کو مسلمانوں میں پلانٹ کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے، واضح رہے اسلام سے قبل اھل مدینہ کا مذھب یہودیت و نصرانیت ہی تھا ، اسی طرح یمن والے یہودی تھے جبکہ ، شام ،اور مصر والوں کا عقیدہ بھی عیسائی تھا ، یہود کے اصل قبائل الگ تھے جبکہ صدیوں کے تعامل نے مدینے والوں کو بھی یہودی اور نصرانی بنا دیا تھا ، یہی وہ یہودی اور نصرانی تھے جو صحابہ کے گھروں میں موجود تھے جن کے سامنے پیٹ ننگا کرنے اور ان کو رسول اللہ ﷺ کی مجلس کی باتیں بتانے اور دوست سمجھنے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ ایک گھر میں باپ مسلمان تھا تو بیٹا یہودی یا نصرانی تھا ، بیٹا مسلمان تھا تو باپ یہودی تھا ، عذاب قبر کا عقیدہ نہ اسلامی ہے نہ قرآنی ہے اگرچہ اس بارے میں بڑے بڑے جید صحابہ کا نام استعمال کر کے کہانیوں کا انبار لگا دیا گیا ہے ،مگر ہمارا عروۃ الوثقی تو قرآن ہے جس نے نبئ کریم ﷺ کو بھی ایمان سکھایا اور ہمارے ایمان و عقائد کا بھی ضامن ہے ، یہودی عورتیں جان بوجھ کر امہات المومنین کے حجروں میں آتی جاتی اور اپنے عقائد تلقین کرنے کی کوشش کرتی تھیں ،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک یہودی عورت کے ساتھ جب بھی میں کوئی خیر کا معاملہ کرتی تو وہ مجھے کہتی کہ اللہ تمہیں قبر کے عذاب سے بچائے ،، ایک دن دو عورتیں آئیں اور انہوں نے نے یہی دعا دی کہ اللہ تمہیں عذابِ قبر سے بچائے ، میں نے ان کو تو کوئی جواب نہ دیا مگر ان کی بات دل میں رکھ لی، جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا قیامت سے پہلے بھی کوئی عذاب دیا جاتا ھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ایسا تو کوئی عذاب نہیں ، تمہیں کس نے بتایا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہودی عورتیں جب بھی آتی ہیں تو کہتی ہیں کہ قبر میں بھی عذاب ہو گا اور مجھے عذابِ قبر سے بچنے کی دعا دیتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہود جھوٹ بولتے ہیں اور اسی پر بس نہیں وہ تو اللہ پر اس سے بھی بڑے بڑے جھوٹ بولتے ہیں ،، یہ ہے اصل صورتحال ،، اب اس قول میں ملاوٹ کر کے کہا گیا کہ بعد میں اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ قبر میں عذاب ہوتا ھے ، گویا مکہ میں ورقہ ابن نوفل عیسائی نے رسول اللہ ﷺ کو یقین دلایا کہ نازل ہونے والا واقعی فرشتہ تھا اور مدینے میں یہود نے سکھایا کہ قبر میں بھی کوئی عذاب ہوتا ھے ،، اور پھر قرآن کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس عقیدے کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب فرما کر اس کے لئے باقاعدہ دعائیں بھی پلانٹ کی گئیں ،،
منکر نکیر کوئی نام ہیں ؟ اسپتال کے استقبالیئے پر آپ کی ذاتی تفصیلات پوچھ کر بار کوڈ کے اسٹکر نکال کر آپکی فائل میں رکھ دیئے جاتے ہیں اور پھر آپ جہاں جہاں جاتے میں وہ بار کوڈ کو کلک کر کے آپ کی ساری تفصیلات لے لیتے ہیں ، یہ نظام انسان کا بنایا ہوا ہے، جبکہ انسان کے خالق کے بارے میں عقیدہ یہ رکھا جا رہا ہے کہ اس کے یہاں کوئی بار کوڈ سسٹم نہیں کہ جہاں میت کی سب تفصیلات محفوظ ہوں اور ہر سیکشن کا فرشتہ اس کو کلک کر کے اس کی تفصیلات لے لے، بلکہ ڈائریکٹ حوالدار کی طرح ہر فرشتہ پوچھتا پھرتا ہے کہ تم کون ہو اور تمہارا عقیدہ کیا ہے ؟؟ مرنے کے بعد بعثت کا ایک ہی دن ہے جس دن قبریں پھرولی جائیں گی، و اذا القبور بعثرت ،، اسی دن مردے اٹھائے جائیں گے، جو بوکھلائے پھریں گے کہ اچھے بھلے لیٹے تھے یہ کس نے اٹھا کھڑا کیا ،، قبر میں صرف اعزاز کے طور پر رکھا جاتا ھے کہ انسان پبلک کے سامنے گل سڑ کر بدبو نہ دے ، انسان کو پروٹوکول دیا گیا ہے ،
*وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ يُطَاعُ (18) غافر
* اور انہیں خبردار کریں اس دن کے بارے میں کہ جس دن دل حلق میں اٹک جائیں گے ،ظالموں کا نہ کوئی گرم جوش دوست بچانے آگے آئے گا ،نہ ہی کوئی ایسا شفاعت کرنے والا کی جس کی شفاعت قبول کی جائے ـ
مرنے کے بعد صرف اور صرف بعثت کا ذکر ہے،کسی مزید چوکی کا کوئی ذکر نہیں کہ جہاں فرشتے ناکہ لگائے کھڑے ہوں اور کہیں کہ کاغذ نکالو اور گاڑی سائڈ پر لگا دو ـ مرنے کے بعد بعثت کا ایک دن مخصوص ہے اسی دن کے بارے میں خبردار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، جس دن اعمال تولے جائیں گے ، دکھائے جائیں گے، پڑھائے جائیں گے ، اور جزاء و سزا کے فیصلے سنائے جائیں گے، یہ چند آیات کوٹ کی ہیں ، ورنہ اس مضمون کی درجنوں آیات ہیں ،
جو لوگ اپنے عزیز و اقارب کو دفنا آتے ہیں وہ جان لیں کہ ان کے عزیز اقارب آرام و سکون سے ہیں ،نہ کسی کو سانپ لپٹے ہوئے ہیں اور نہ ہی گرز مارے جا رہے ہیں، جن کی اولاد صالح ہے وہ اپنے والدین کے لئے دعائیں کریں ،نماز و تہجد میں بھی اور حج و عمرے میں ملتزم سے لپٹ لپٹ کر، یہانتک کہ آپ کی دعائیں آپ کے والدین کی بخشش کا سامان بن جائیں ـ مولویوں کے ختم شریف کے چکر میں مت پڑیں ،، آپ کی بہترین وراثت آپ کی صالح اولاد ہے جن کی دعاؤں کے لئے آپ کا اکاؤنٹ ایکٹیو رکھا گیا ہے، آپ اپنے والدین کی انویسٹمنت یعنی ہاتھوں کی کمائی بھی ہیں اور بائیولاجیکل ایکسٹیشن بھی، آپ اپنی اہمیت کو پہچانیں اور دعاؤں سے اپنے والدین کی مدد کریں ،
قاری حنیف ڈار۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت کا حوالہ