شیطان سے متعلق بھی سب سے کلیئر کٹ اور واضح موقف اسلام کا ھے

شیطان سے متعلق بھی سب سے کلیئر کٹ اور واضح موقف اسلام کا ھے اور قرآن نے اس واقعے کو بار بار مختلف انداز میں بیان فرمایا ھے اور ھر جگہ اس کے نئے زاویئے کو استدلال کے لئے استعمال فرمایا ھے ، ھندو عیسائی اور یہود میں بعض لوگوں نے شیطان کو خدا کے مقابلے کی دوسری طاقت کا درجہ دیا ھے ،جس کی باقاعدہ پوجا بھی کی جاتی ھے ، ان کے نزدیک جھنم شیطان کی عملداری کا علاقہ ھے جہاں اس کی اطاعت کرنے والے رکھے جائیں گے جبکہ جنت اللہ کی عملداری کا علاقہ ھے جہاں اس کی اطاعت کرنے والے اکاموڈیٹ کیئے جائیں گے ، اس کی وضاحت انگریزی کی ضرب المثل سے بیان کی جاتی ھے ” Better to reign in Hell, than serve in Heaven. جسے ھم جھنم کا داروغہ مالک کہتے ھیں ،وہ وھاں شیطان کو بٹھاتے ھیں۔
اللہ کا کرم ھے اور قرآن میں شیطان کے واضح اسٹیٹس کے تعین کا نتیجہ ھے کہ مسلمانوں کے گمراہ ترین فرقوں میں بھی شیطان کے بارے میں کبھی کو ابہام پیدا نہیں ھوا اور اسے اللہ کا مجرم اور باغی ھی سمجھا گیا نہ کہ خدا کے برابر درجے کا کوئی شریک ،کہ شر پر جس کی حکمرانی ھو ،، قرآن کے مطابق شیطان اللہ کا باغی ھے نہ کہ اللہ کے مساوی کوئی قوت ،، شیطان سے پوچھ پوچھ کر حقیقت کو واضح کیا گیا کہ اس نے کن وجوھات کی بنا پر بغاوت کی روش کو ترجیح دی ، اس کی ایک قسم اللہ پاک نے کوٹ کی ھے ،، قال فبعزتک لأُغوینۜھم اجمعین ،، تیری بے نیازی کی قسم میں ان سب کو اغوا کرونگا ،، گویا وہ یہ بات جانتا ھے کہ اللہ پاک اپنی مخلوق سے بےنیاز ھے ، نہ ان کی عبادت اس کا نفع کرتی ھے اور نہ معصیت اس کا نقصان ، سارے جنت چلے جائیں تو بھی اس کا کوئی نفع نہیں اور جھنم چلے جائیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں ،، عبادت و طاعت کا نفع اور معصیت و بغاوت کا خسران خود انسان کی ذات سے جڑا ھوا ھے ،، ومن تزکی فانما یتزکی لنفسہ ،،جو پرھیزگاری کی روش اختیار کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، اسی طرح فرمایا و من جاھد فانما یجاھد لنفسہ ،، جو جہاد یا جدجہد کرے گا اپنی ذات کے لئے کرے گا ،، شیطان کی حماقت ھے کہ اس نے اپنا ایجنڈا اے بی سی کی طرح کھول کر بیان کر دیا کہ ” کیا کرے گا اور کیسے کرے گا ” اللہ نے حدیں قائم کر دی ھیں جو ان حدوں کے اندر رھے گا شیطان اسے اغوا نہیں کر سکے گا ، جو ان سے نکلے گا شیطان ان کے لئے گھات لگا کر بیٹھا ھے ،، ان حدوں سے نکالنے کے لئے شیطان نے بتایا کہ ” ولاُمنینھم ولأمرنھم ،، میں ان میں تمنائیں پیدا کروں گا ،،تمنائیں وسائل سے بڑھ جائیں گی تو پھر انہیں حکم دونگا یا مشورہ دونگا یا دعوت دونگا کہ ایکسٹرا وسائل کیسے مہیا کرنے ھیں یوں تمناؤں کے باؤلے لوگ میرے پیچھے لگ جائیں گے ،، طاقت نہ شیطان کے پاس ھے کہ کسی کو جھنم لے جائے یا مار کر ٹیکسی میں ڈالے اور شراب خانے لے جائے ،، وہ تو بس خیال ڈالتا ھے کہ ، آج موسم بڑا گلابی ھے ، آج پینے میں کیا خرابی ھے ؟ اسی طرح پیغمبر بھی زبردستی جنت میں لے جانے کا مجاز نہیں ھے ، وہ بھی دعوت دیتا ھے ،، شیطان حشر کے دن فیصلے ھو جانے کے بعد اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا مدلل جواب دینے کی اجازت مانگے گا ،بجائے ایک ایک فرد کے الزام کا جواب دینے اور اپنی صفائی پیش کرنے کے ،،وہ ایک ھی بار ساری انسانیت کو مخاطب کر کے جواب دے گا ،،
وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ
اور شیطان کہے گا جب فیصلے ھو جائیں گے کہ اللہ نے تم سے جتنے وعدے کیئے تھے بےشک وہ سارے سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیئے تھے ان کو کو پورا نہ کیا ،، میرے پاس نہ دلیل کی طاقت تھی اور نہ جسمانی طور پر مجھے تم پر جبر کی اجازت تھی ،سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں دعوت دی جو تم نے قبول کر لی سو مجھے ملامت مت کرو ملامت اپنے آپ کو کرو ( کیونکہ اختیار تمہارے پاس تھا میرے پاس نہیں تھا )
جاری ھے