سید اور زکوٰۃ ۔

پہلے یہ تو تعین کریں سید کون ہیں ؟ بعض کے نزدیک سید وہ سب خاندان ہیں، جن کو خیبر کی جاگیر سے حصہ ملا کرتا تھا۔یعنی ازواج مطہرات امھات المؤمنین، آل علی، آل عقیل، آل جعفر،آل عباس وغیرہ۔ جبکہ بعض کے نزدیک سید صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ نسل ہے جو حضرت فاطمہ سے چلی ہے ، بقیہ بیویوں سے جو چودہ بچے ہوئے وہ بھی سید نہیں ہیں ۔ مطلب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل بیٹی سے چلی ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ نسب محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ھاشم چلاتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن آمنہ پر صرف نعتیں بناتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ لوگوں کے پیسے کی زکوۃ کو گندگی کہنا محل نظر ہے۔ کیا اللہ پاک نے اس کو گندگی قرار دیا ہے؟، وہ روایت کہاں گئ جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ پاک صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا اور پالتا ہے یہانتک کہ کھجور کی گھٹلی کے برابر صدقہ احد پہاڑ کے برابر ہوگا ۔کیا اللہ بھی گندگی کو پالتا ہے۔ یہ راویوں کے ذھن اور ماحول کی گندگی ہے کہ اپنی سوچ اور فہم perception کو حدیث بنا کر اسلامی لٹریچر میں گھسا کر شریعت بنا دیتے ہیں ۔ جبکہ اس پابندی کا تعلق انتظامی تھا نہ کہ شرعی۔ جن خاندانوں کو جاگیر سے سال بھر کا خرچہ بیک وقت دے دیا جاتا تھا ، ان کو زکوۃ لینے سے روک دیا تھا تا کہ ان کو ڈبل نہ ملے۔ بیت المال سے زکوۃ بھی وصول کر لیں آور جاگیر سے بھی وصول کر لیں۔ اب جب کہ آل رسول کو بیت المال سے ایسا کوئی سید الاؤنس نہیں ملتا اور ڈبل ملنے کا خدشہ نہیں تو اب تمام فقراء اور مساکین کو زکوٰۃ اور صدقہ لگتا ہے جیسا کہ سورہ توبہ میں اللہ پاک نے دائمی قانون بنایا ہے۔ انما الصدقات للفقراء والمساکین ۔ روایتوں کی بنیاد پر قرآن کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔
قاری حنیف ڈار بقلم خود