سوال بابت جہاد، قتال اور حدودو تعزیرات

سوال از شہتاب خان۔
قاری صاحب یا قاری صاحب سے متفق دوستوں میں سے کوئی سر دست دو باتوں کی وضاحت فرما دیں۔
اول : جہاد اور بالخصوص قتال کے قرآنی حکم کا کیا بنے گا۔ مزکورہ دونوں بالخصوص موخر الذکر کام دفاع یا اقدام کی صورت میں ہوتا یے۔ ہر دو کام یعنی دفاع ہو یا اقدام معروف معنوں میں کسی حکومت/خلافت کو بچانے یا پھیلانے کےلیے ہی ہوتے ہیں۔ جب مسلمان کسی اسلامی منہج یا طریقہ کار پر کوئی حکومت قائم ہی نہیں کریں گے تو جہاد یا قتال کس کےلیے ہوگا ؟
دوم: حدود و تعزیرات کے اسلامی احکامات کا اطلاق کون کرے گا جبکہ بقول آپ کے کسی اسلامی حکومت کا تصور ہی کوئی نہیں ہے۔ اسلام ایک انفرادی معاملہ اور ذاتی پریکٹس کا نام ہے۔
الجواب ۔
Shahtab Khan یہ تو ایسے ہی ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض کر دیا جائے کہ وہ ہر حال میں زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچیں تا کہ زکوۃ ادا کر سکیں۔ اور ہر حال میں حج کے اخراجات جمع کریں تا کہ وہ حج کا فریضہ ادا کر سکیں۔ یوں دو چیزیں فرض ہو جائیں گی۔ایک زکوۃ دوسرا زکوٰۃ کے نصاب تک پہنچنا،جبکہ اللہ پاک نے صرف یہ فرض کیا ہے کہ اگر کبھی زندگی میں فلاں نصاب کو پہنچنا نصیب ہو تو زکوٰۃ ادا کرنا ورنہ زکوۃ تم پر فرض نہیں ہے اور اگر کبھی زندگی میں اتنے وسائل میسر ہوں کہ گھر والوں کے لئے اخراجات دے کر حج کے اخراجات پورے کر سکو تو حج کرنا فرض ہے ورنہ حج تم پر فرض نہیں ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ شادی کرنا اس لئے فرض کیا گیا ہے تا کہ مسلمان طلاق والی آیات پر عمل کر سکیں،اگر شادی نہیں کریں گے تو طلاق والی آیات پر عمل کوئی کیسے کر پائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے صرف جہاد فرض کیا تھا،اگر مسلمان ریاست دستیاب ہو۔ ورنہ جہاد تم پر فرض نہیں ہے۔اسلام نے مسلم ریاست بنانا تو فرض کیا ہی نہیں۔ مکے کے تیرہ سالہ دور میں نہ جہاد ہوا،نہ جہاد کی آیات نازل ہوئیں۔ جب ریاست اتفاقیہ دستیاب ہو گئ تب اس کے دفاع کے اقدامات کیئے گئے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے پر حملہ کر کے ریاست قائم کی تھی؟ اگر ریاست قائم کرنا فرض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لازم بہت پہلے مدینے یا طائف پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے۔ رہ گیا معاملہ حدود و تعزیرات کا تو یہ کوئی قبیلہ اور قبائلی سردار بھی کرسکتا ہے۔ کیا مکے والا بغیر حدود و تعزیرات والا اسلام اسلام نہیں تھا؟یا جو یورپ اور امریکہ کینیڈا میں مسلمان بغیر ہاتھ کٹائے بس رہے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں ؟ یہ سارا مغالطہ لفظ اقیموا الدین سے لگا ہے،ہمارے بزرگوں کو۔ اقامت دین کا حکم نوح علیہ السلام، ابراھیم علیہ السلام،موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السّلام سب کو دیا گیا تھا ( شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم و موسی و عیسی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ شوری آیت نمبر تیرہ )کیا انہوں نے اسلامی ریاستیں بنائی تھیں؟ لفظ اقیموا سے ریاست یا ملک بنانا کہاں سے لیا گیا؟،اللہ پاک نے یہود ونصاریٰ کو تورات اور انجیل قائم کرنے کا حکم اس حال میں دیا کہ وہ باجگزار تھے اسلامی ریاڈت کے۔ قل یا اھل الکتاب لستم علی شیء حتیٰ تقیموا التوراۃ و الانجیل وما انزل الیکم من ربکم۔کیا اھل کتاب کے پاس کوئی ریاست تھی جہاں تورات کے مطابق نظام نافذ کرنا تھا یا مجرد تورات پر چلنا ہی تورات کو قائم کرنا تھا؟ عقل استعمال کر کے جیو

قاری حنیف دآر