سنت اور حدیث

سنت اور حدیث ! حصہ دوم

اب آیئے نبی کریمﷺ کی ھستی کی طرف !

آپ نے مختلف کام کیئے ھیں ،، عبادات کا طریقہ واضح کیا ھے ! اور اپنے زمانے کے ماحول اور دستیاب سہولتوں کو استعمال فرمایا ھے !
اصل الاصول یہ ھے کہ نبی ﷺ سمیت تمام لوگ قرآن کے محتاج اور متبع ھیں ! خود اللہ پاک نے بھی واضح کیا ھے ،ما کنت تدری ماالکتاب ولا الایمان ولکن جعلناہ نوراًً نہدی بہ من نشاءُ من عبادنا ! و انک لتھدی الی صراطٍ مستقیم ! ( آپ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتابُ ( اللہ ) کیسی ھوتی ھے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ھے ! مگر ھم نے اس ( قرآن) کو وہ نور بنایا ھے جس کے ذریعے سے اللہ جس کو چاھتا ھے ھدایت دیتا ھے ،اور یقیناً آپ سیدھی راہ کی طرف ھدایت دیتے ھیں !
یہاں قرآن کو ھدایت قرار دیا ھے،، اللہ نے اپنے کو بھی ھادی قرار دیا ھے اور نبی کو بھی ھادی کا لقب دیا ھے !
ھمیں سب سے پہلے قرآن ھی کی طرف دیکھنا چاھئے یہ ھمارے قرآن پر ایمان کا لازمی تقاضا ھے ! اگر ھماری ضرورت قرآن پوری کر دیتا ھے تو پھر ھمیں اس پر کفایت کرنا چاھئے ،، یہی اللہ کے شایانِ شان رویہ ھے ! اللہ کی بات آ جانے کے بعد نبی کریم ﷺ سمیت ھر شخص اس کو ماننے کا پابند ھے ! قرآن بار بار اللہ کے رسول کو حکم دیتا ھے کہ وہ یہ بات کھول کر بیان کر دیں کہ وہ بھی اس قران کی اطاعت و اتباع کے پابند ھیں،، اس میں تبدیلی نبیﷺ کے دائرہ کار یا جیوریسڈکشن میں نہیں آتی ،، ان ﷺکی ڈومین اللہ کے حکم کی اطاعت ھے ! ” ان اتبع الا ما یوحی الیۜ ” کا جملہ آپ کو قرآن میں بار بار ملے گا،، میں تو سوائے اس کے کچھ نہیں کر سکتا کہ اتباع کرتا ھوں اس کا جو میری طرف وحی کیا گیا ھے !
جہاں قرآن خاموش ھے یا معاملے کو اپنے نبیﷺ کی طرف ریفر کر دیتا ھے وھاں سے نبیﷺ کی ڈومین شروع ھوتی ھے ،،مثلاً ” و اقیموا الصلاۃ و آتوا الزکوۃ و اطیعوا الرسول لعلکم ترحمون ! ( النور 56 ) و نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور ( اس کی تفصیلات کے لئے ) رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ! یہاں قران خود کہہ رھا ھے کہ تفصیلات تمہیں رسول سے ملیں گی ،،لہذا اب نمازوں کے اوقات، رکعات اور طریقہ کار لینے کے لئے اللہ نے خود ھمیں نبی ﷺ کی کھڑکی پر بھیجا ھے ،،
جو لوگ اس کو بڑی لا جواب دلیل سمجھتے ھیں کہ ” پھر دکھاؤ قرآن میں نماز کی تفصیلات اور طریقہ کار اور زکوۃ کا نصاب کہاں ھے، ؟ وہ بھی کمال کرتے ھیں ! جب اللہ نے رسول ﷺ کی طرف بھیجا ھے تو ھم قرآن کے بھیجے ھوئے آئے ھیں،، اب اللہ اپنے نبی ﷺ کو کس چینل سے سکھاتا یا بتاتا ھے یہ ھمارا دردِ سر نہیں ھے،،مگر اس ایک بودی دلیل کو استعمال کر کے امت کو بالکل اللہ اور اس کی کتاب سے کاٹ کر رکھ دینا بھی کوئی عقلمندی نہیں ھے ! اگر ھمارا بجلی کا بل گاؤں کے ڈاکخانے میں جمع ھو جاتا ھے اور اسلحے کے ٹوکن کے لئے ضلع کچہری کی اسلحہ برانچ میں جانا پڑتا ھے تو ھم بجلی کا بل بہت سہولت کے ساتھ گاؤں میں ھی جمع کرائیں گے ،،نہ کہ اسلحہ والے حکم کو دلیل بنا کر بل جمع کرانے بھی کچہری جائیں گے،،یہ تو سرکار کے فیصلے ھیں ،کیا اس نے قرآن میں دینا ھے اور کیا لینے کے لئے رسول ﷺ کے در پر بھیجنا ھے !

جہاں تک سنت کا تعلق ھے تو وہ پہلے دن سے معلوم تھی اور قیامت تک معلوم رھے گی ! امت کبھی ایک دن کے لئے بھی اس متواتر عمل سے نہ رکی ھے نہ اسے گم کیا ھے جو اسے نبیﷺ سے بواسطہ خلفاء ملی ھے ! محدثین کو اس چیز کی تلاش بھلا کیسے ھو سکتی تھی جو سامنے موجود تھی اور مدینے کا ھر شخص اس سے واقف اور اس سنت پر عامل تھا !
محدثین کو ایک دن کے لئے بھی سنت کی تلاش نہیں تھی ! وہ گمشدہ اقوال اور احادیث کی تلاش مین نکلے تھے،یہ صرف اور صرف کریز تھا،، دین کی ضرورت کبھی بھی نہیں تھی ! انہوں نے اپنے اپنے ثواب کے لئے سب جدوجہد کی ،، احادیث کی ڈیمانڈ نے جعلی حدیثوں کی فیکٹریاں کھول دیں یوں انہیں اپنے ثواب کے ساتھ اب ان جعلی حدیثوں میں سے اصلی کو الگ کرنے کے جوکھم کو بھی جھیلنا پڑا ! نہ اتنی ڈیمانڈ پیدا کی جاتی اور نہ جعلی چیزیں مارکیٹ میں آتیں ! مگر انہیں خود بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ آئندہ یہی حدیثیں نبی ﷺ کی سنت کے سامنے آ کھڑی ھونگی ! مگر خود نبی کریمﷺ ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ اس حقیقت سے بڑی حد تک واقف تھے اور اس پر کنٹرول رکھے ھوئے تھے !

اگر سنت کی تلاش مطلوب ھوتی تو سب سے پہلے اس کی گمشدگی کی کوئی دلیل دی جاتی ! دوسرا جب کسی شخص کے عمل کی تلاش ھوتی ھے تو سب سے پہلے اس کے قریب ترین ساتھیوں کو اپروچ کیا جاتا ھے جو صبح شام اور زیادہ عرصہ اس کے ساتھ رھے ھوں،، یہ ایک فطری طریقہ ھے،،مگر یہاں کا تو باوا آدم ھی نرالا ھے ! نبیﷺ سے براہ راست مصلی حاصل کرنے والے یارِ غار اور پہلے خلیفہ سے نماز کا آفیشل ورژن لینے کی بجائے یمن کے ایک صاحبؓ کو ڈھونڈ نکالا گیا جنہیں زندگی میں دو دفعہ حضورﷺ کے پاس آنے کا موقعہ ملا ! یوں ابوبکرؓ کی نبوی نماز کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئ،، بھلا کوئی بتائے تو سہی کہ ابوبکرؓ و عمر‍ؓ و عثمانؓ و علیؓ کی نمازوں کی کتنی تلاش کی گئ ھے اور حدیث کی کس کتاب میں ھے ؟ جن کے بارے میں نبی ﷺ گارنٹی دے کر گئے تھے کہ ان کی سنت میری سنت ھے ،، علیکم بسنتی و سنت خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی ،عضوا علیہا بالنواجذ !!
سنت حدیثوں میں نہیں ملتی وھاں مختلف لوگوں کے اپنے اپنے تجربات ھیں،ان میں سے جہاں ضرورت ھو بقدرِ دوا حدیث لینی چاھئے اسے چاٹ یا سلاد نہیں بنا لینا چاھئے ! سنتوں کا سرکاری یا آفیشل ورژن وھی ھے جو خلفاء سے جاری و ساری ھے اور کتاب الآثار میں منقول ھے
! اس کا روٹ خلفاء سے عبداللہ ابن مسعودؓ پھر خود حضرت علیؓ کے عراق آ جانے کے بعد وہ خود ،، براستہ امام ابوحنیفہ آج تک جاری و ساری ھے،،
اپنی 500 حدیثوں کے مجموعے کو ایک ماہ استخارہ کر کے حضرت عائشہؓ سے آگ منگوا کر جلا دینا اگر ابوبکرؓ کو منکرِ حدیث نہیں بناتا تو ھمیں کوئی منکرِ حدیث کا طعنہ نہیں دے سکتا ،، اور عمر فاروقؓ کا حضرت ابوھریرہؓ کو بار بار حدیث کے بیان سے منع کرنا اگر انہیں منکرِ حدیث نہیں بناتا تو ھمیں بھی اس کا کوئی ڈر نہیں ،، جس خدشے سے ابوبکر صدیقؓ نے اپنا مجموعہ جلایا تھا،،وہ ھی اس امت کو پیش آ کر رھا ! بقول حضرت ابو ھریرۃؓ اگر عمرؓ زندہ ھوتے تو تم لوگ کبھی یہ حدیثیں نہ سن سکتے ،،میں آج تک ان کی ماری ھوئی مار کا درد محسوس کرتا ھوں !

نبی کریمﷺ کا ھر فعل سنت نہیں ھے ! جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ حدیث کا سار دارومدار راویوں پر ھے راوی کا کردار اس کو قوی کرتا ھے اور اس کا کردار اس کو ضعیف کر دیتا ھے،،جب کہ سنت کا دارو مدار نبیﷺ کے فعل پر ھے ،، بار بار کیا ھے اور صحابہ نے اسے اپنا کر سنت یا رواج بنا دیا ھے تو سنتَ مؤکدہ ھے ، کبھی کبھار کیا ھے تو وہ خیر مؤکدہ ھے !
نبی کریمﷺ کے عمل کی ایک قسم تعلیمی ھے ،، جو ضرورت کی وجہ سے کی گئ ھے،، وہ بھی نہ مؤکدہ سنت ھے اور نہ غیر مؤکدہ ! مثلاً نبی کریمﷺ نے اونٹنی پر شیطان کو کنکریاں ماری ھیں اور اونٹنی پر طواف کیا ھے ،، یہ دونوں نہ مؤکدہ سنتیں ھیں اور نہ غیر مؤکدہ ،، بلکہ یہ اس وقت کی ضرورت تھی ،، نبی ﷺ اونٹنی پر اس لئے سوار تھے کہ لوگوں کو نظر آئین اور لوگ نبیﷺ کو مناسک کرتے دیکھیں اور جو مسئلہ پوچھنا چاھتا ھے وہ اونٹنی کی طرف آئے ! اسی وجہ سے خلفاء راشدین میں سے کسی نے اونٹنی والے طریقے کو نہیں دھرایا یا اپنایا ،، اگر وہ بھی اس پر عمل کرتے تو اب یہ سنت سمجھا جاتا،،مگر خلفاء چونکہ نبیﷺ کے مزاج شناس تھے لہذا وہ سنت کا بہتر ادراک رکھتے تھے ! اسی طرح کی تعلیم سنت تھی نبیﷺ کا بلند آواز سے آمین کہنا تا کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ولا الضالین کے بعد آمین ھے ! نبی کریمﷺ جب بھی کسی نئے وفد کو جماعت میں دیکھتے تو پھر زور سے آمین کہتے تھے گویا یہ تعلیمی ضرورت تھی،، اسی طرح آپ کا درد کی کیفیت میں تورک کرنا یعنی سرین کے بل بیٹھنا ،، اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے ھاتھ ٹیک کر اٹھنا ،،مگر جب درد کا آرام ھو تو پنڈلیوں کے زور پر اٹھنا ،،