سبائیات

سبائیات ـ
اویس قرنی عمران سیریز کی طرح کا ایک دیومائی کردار تھا ، اس کی طرف منسوب افعال کو سنتِ رسول ﷺ کے بالمقابل پیش نہیں کیا جا سکتا ـ رسول اللہ ﷺ نے بین کرنے ،منہ پیٹنے ،گریبان پھاڑنے کو زمانہ جاھلیت کی حرکات قرار دیا ہے ـ اپنے اوپر تشدد کے لئے اویس قرنی کے دانت توڑنے کا فسانہ پیش نہیں کیا جا سکتا ـ یمن سے ہمیشہ فتنہ ہی آیا ہے ـ کعب احبار یہودی تھا جو نبئ کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں موجود تھا مگر مسلمان نہیں ہوا ، جس نے اسلامی لٹریچر میں یہود کے عقائد اور کلچر کو گھسا دیا ، حضرت عثمانؓ کی خلافت کے زمانے میں عبداللہ ابن سبا یہودی چال کے طور پر مسلمان ہوا ،پہلے مدینے میں رہ کر مسلمانوں کی کمزوریوں کو سمجھا اور پھر ایک خفیہ گروہ قائم کیا ،جس نے اپنی دعوت و تبلیغ کی بنیاد لوگوں میں آل نبی ﷺ اور حضرت علی کی ولایت کی محبت پر رکھی ، اور بنو ھاشم اور بنو امیہ میں تعصب کی آگ بھڑکائی ، حضرت علی کو نبئ کریم ﷺ کا وصی عبداللہ ابن سبا نے ہی قرار دیا اور کہا کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ھے اور علی محمد ﷺ کے وصی ہیں ، چونکہ محمدﷺ خاتم النبیین ہیں لہذا علی خاتم الاوصیاء ہیں ـ
اس نے کہا کہ تعجب ہے کہ مسلمان ابن مریم کے واپس آنے پر تو یقین رکھتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے دوبارہ نزول کو نہیں مانتے ـ
بڑا ظلم ہے کہ لوگوں نے اپنے نبی کی وصیت کا خیال نہ کیا اور ایک وصی کے ہوتے ہوئے خلافت دوسروں کو سونپ دی ـ غیر مستحق لوگوں سے خلافت کا واپس لے کر وصی کی خلافت کو قائم کرنا فرض ہے ـ اس نے اسلامی ریاست کے تمام صدر مقاموں کا دورہ کیا ، مناسب بندے چن کو ان کو کام سمجھایا اور خود مصر کو مرکز بنا کر بیٹھ گیا ـ اس نے جو روڈ میپ تیار کیا وہ کچھ یوں تھا
۱۔ بظاھر متقی اور پرھیز گار بن کر عوام الناس پر اپنا اثرو رسوخ قائم کیا جائے[ ہمارے یہاں بھی قسم قسم کے چلے اور پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر یا الٹے لٹک کر چلہ کرنے جیسے طریقے اسی اسٹریٹیجی کا حصہ ہیں کہ جس کے بعد لوگ ان کے کہنے سے ہر سنت کو ترک کرنے اور ہر فرض کو پاؤں تلے روندنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ، اسی مقام پر مرشد دا دیدار لاکھوں کروڑوں حجوں پر فوقیت رکھتا ہے ]
۲ـ خلیفہ وقت کے خلاف پروپیگنڈا تیز کیا جائے اور جھوٹے قصے بنا کر ان کے مظالم کی دھائی دی جائے ـ
۳ـ تمام سرکاری عمال کو زچ کیا جائے اور ان کی شراب نوشی اور بدکاری کا چرچا کر کے لوگوں کو ان سے متنفر کیا جائے ـ [ یہی سب کچھ پہلے حضرت عثمان اور ان کے گورنروں کے خلاف کیا گیا اور بعد میں حضرت معاویہ اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا گیا ]
4۔ ایک شہر سے دوسرے شہر وہاں کے حکام کے ظلم و ستم کا جھوٹا پروپگنڈا کیا جائے ، یعنی عراق سے شام کے خطوط لکھے جائیں کہ عراق میں بہت ظلم و ستم ہو رہا ھے جبکہ شام سے عراق خط لکھے جائیں کہ شام میں بہت ظلم و ستم ہو رہا ہے ـ مدینے سے حضرت علیؓ ، حضرت طلحہؓ ،حضرت زبیرؓ اور دیگر اکابر صحابہ کے نام سے جھوٹے خطوط لکھے جائیں ،جن سے ان کے اس تحریک کے ساتھ وابستگی کا چرچا ہو ،، یہ کام مختلف صوبوں میں کچھ اس ترتیب سے ہوا ـ
بصرہ ـ
ابوموسی الاشعریؓ بصرے میں حضرت عثمانؓ کی طرف سے والی تھے ـ آپ نے ایک دفعہ اللہ کی راہ میں پیدل چل کر جہاد کرنے کے فضائل بیان کیئے ، جب کردوں کے خلاف جہاد کے لئے نکلے تو آپ ترکی گھوڑے پر سوار تھے، ظاھر ہے آپ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ سوار ہو کر جہاد نہ کریں بلکہ آپ کا مقصد تھا کہ پیدل لوگ بھی جہاد سے محروم نہ رہیں ،، شورش پسندوں نے ان کے اس فعل کو بنیاد بنا کر ایک وفد مدینے بھیجا کہ ہم ایسے والی کو پسند نہیں کرتے جس کے قول و فعل میں تضاد ہو کہ لوگوں کو پیدل جہاد کی ترغیب دے اور خود گھوڑے پر سوار ہو ،، حضرت عثمان نے ان کو تبدیل کر کے عبداللہ بن عامر کو گورنر بنا کر بھیج دیا ، عبداللہ بن عامر بہادر اور مدبر انسان تھے ، ان کے خلاف یہ الزام لگایا کہ یہ کم عمر اور حضرت عثمانؓ کے رشتے دار ہیں اور یہ قبیلہ پروری ہے ـ بصرہ میں ایک شخص حکیم بن جبلہ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب اسلامی لشکر جہاد میں مشغول ہوتا تو یہ پیچھے اپنا گروہ لے کر ذمیوں پر ٹوٹ پڑتا اور ان کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ بےکس مسلمانوں کے مال پر بھی قبضہ کر لیتا ـ اھل بصرہ جب اس کی حرکتوں سے عاجز آ گئے تو عبداللہ بن عامر نے اس کو اس کی جماعت سمیت قید خانے میں ڈال دیا ، اسی دوران عبداللہ ابن سبا بصرہ آیا اور اس نے حکیم بن جبلہ کو اپنی پارٹی کے صوبائی سربراہ کے طور پر چن لیا ، یوں حکیم بن جبلہ نے اپنے آپ کو حضرت علی کی خلافت کی دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کر لیا ـ
کوفہ ،،
کوفہ اپنی فتنہ انگیزی میں بصرہ سے بھی دو چار ہاتھ آگے تھا ـ اشتر نخعی، جندب ، ابن ذی الحبکہ ،صعصہ، عمرو ابن حمق وغیرہ یہاں کے شورش پسندوں کے گینگ ماسٹر تھے ـ
حضرت عثمان نے سعد بن وقاص کو یہاں کا گورنر بنایا ، حضرت سعد بن وقاصؓ نے اپنی کسی ضرورت کے لئے حضرت عبداللہ ابن مسعود جو افسر خراج تھے ،ان سے کچھ رقم قرض لی جو وقت پر ادا نہ کر سکے ـ عبداللہ ابن مسعود نے سختی سے تقاضا کیا اور سبائی پارٹی کے شورش پسند اس میں انوالو ہو گئے ، معاملے نے طول کھینچا تو خبر مدینے پہنچی اور عثمان غنیؓ نے ان کو معزول کر کے ولید بن عقبہ کو گورنر مقرر کر دیا ـ ولید بن عقبہ کے دور میں چند نوجوانوں نے ایک شخص کے گھر میں نقب لگا کر چوری کی اور صاحبِ خانہ کو قتل کر دیا ، نوجوان موقعے پر پکڑے گئے اور قصاص میں قتل کر دیئے گئے ، ان کے رشتے دار ولید بن عقبہ سے انتقام لینے کی راہ ڈھونڈنے لگے ـ ولید بن عقبہ رات کو ایک محفل متعقد کیا کرتے تھے جس میں ابوزید طائی ایک نصرانی نومسلم بھی شریک ہونے لگا ـ ابو زید کے متعلق مشہور تھا کہ وہ شراب نوشی کرتا ہے ـ ولید بن عقبہ کے مخالفین نے مشہور کر دیا کہ ولید ابن عقبہ بھی ابو زید کے ساتھ شراب نوشی کرتے ہیں ـ انہوں نے بس اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک وفد بنا کر مدینہ گئے جس میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کو مختلف حرکتوں کی وجہ سے ان کے عہدوں سے معزول کیا گیا تھا ، ان میں سے دو نے جھوٹی گواہی دی کہ انہوں نے ولید کو شراب کی قے کرتے دیکھا ہے ،، ولید کو معزول کر کے مدینہ بلایا گیا اور حضرت علیؓ کے فتوے پر ان پر شرب نوشی کی حد جاری کی گئ ، اور سعید بن عاص کو کوفے کا گورنر بنا کر بھیج دیا گیا ـ سعید بن عاص بھی رات کو ایک محفل کا اہتمام کرتے [ یہ عربوں کا قبائیلی کلچر تھا ] ان کی محفل میں ہر خاص و عام کی شرکت کی اجازت تھی ْ۔ ایک رات کسی نے اس مجلس میں کہا کہ طلحہ بن عبیداللہ بڑے سخی انسان ہیں ،، سعید بن عاص نے کہا کہ جس کے پاس نشتاسیج جیسا زرخیز علاقہ ہو اس کو سخی ہونا ہی چاہیئے ، اگر میرے پاس بھی ایسا زرخیز علاقہ یعنی جاگیر ہوتی تو تم میری سخاوت کی بہار دیکھتے ـ یہ سن کر ایک جوان نے کہا کہ آپ فرات کے کنارے جو آلِ کسری کا زرخیز علاقہ ہے وہ لے لیجئے ـ
یہ سن کر اشتر النخعی اور عمیر بن ضابی نے کہا کہ کم بخت تو ہماری جاگیر امیرِ کوفہ کو دلانا چاہتا ھے ؟ پھر یہ اس نوجوان پر وہیں مجلس میں پل پڑے اور اس پر شدید تشدد کیا ـ سعید بن عاص ان کی اس بدتمیزی پر بہت ملول ہوئے اور رات کی محفل موقوف کر کے دروازے پر دربان بٹھا دیئے ،، اب ان لوگوں نے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ سعید فرعون بن گیا ہے ، متکبر ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ لوگ جب زیادہ تنگ ہوئے تو مدینے شکایت بھیجی گئ کہ ہمیں اس گروہ سے نجات دلائی جائے ،، مدینے سے حضرت سعید بن عاص کو ھدایت دی گئ کہ ان کو شام معاویہ بن سفیانؓ کے پاس بھیج دو ،، یہ لوگ جب شام پہنچے تو حضرت معاویہؓ نے ان کا خوب اکرام کیا اور ان کو بہت پیار محبت کے ساتھ سمجھایا مگر ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ،الٹا حضرت معاویہؓ کے ساتھ بھی بدزبانی کی ،، انہوں نے مدینے لکھ بھیجا کہ یہ لوگ ناقابلِ اصلاح ہیں ، کم از کم میرے بس کے تو ہر گز نہیں ـ حضرت عثمان نے حکم دیا کہ ان کو حمص عبدالرحمان بن خالد کے پاس بھیج دو ـ عبدالرحمان نے ان کے کس بل نکال کر رکھ دیئے اور انہوں نے اپنے افعال سے توبہ کر لی ، حضرت عثمان کو اطلاع دی گئ تو انہوں نے ان کو واپس کوفہ جانے کی اجازت دے دی ،مگر کوفہ کی مٹی پہ پاؤں رکھتے ہی ان لوگوں کی شرپسند فطرت عود کر آئی اور دوبارہ سے وہی کھیل شروع کر دیا ، اسی دوران وہاں عبداللہ ابن سبا آ پہنچا اور کوفے میں فتنہ پھیلانے کے لئے اس نے اسی گروہ کو اپنا ایجنٹ بنا لیا ـ