سادگی

دیہاتی گرمیوں میں جب فصلیں کاٹ کر فارغ ھوتے تھے تو پھر کمائی کو خرچنے اور ڈیپریشن نکالنے کے لئے میلے منعقد کیا کرتے تھے جو کہ کسی نہ کسی مزار کے ارد گرد ھی ھوتے تھے یوں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام بھی کماتے تھے ،،بابا جی بھی خوش اور من بھی خوش ،،،،،،،،،، آج کل یہ رسم سمٹ کر بڑے بڑے بزرگوں کے مزاروں پر ھی رہ گئ ھے جو عرس یعنی شادی کے نام پہ ادا کی جاتی ھے ، چونکہ عیسائیوں کا عقیدہ یہ ھے کہ نن اللہ کی دلہن ھوتی ھے اسی لئے اس پہ شادی کرنا حرام ھے ، جب وہ مرتی ھے تو گویا رخصتی ھوتی ھے ، اس رسمِ جنازہ کا نام عرس یعنی شادی ھوتا تھا ، شام میں عیسائی اور مسلمان خانقاھیں شانہ بشانہ تعمیر ھوتی تھیں لہذا یہ عرس عیسائیوں سے بری امام اور داتا صاحب تک جا پہنچا ، عروسہ دلہن کو کہتے ھیں اور عریس دولہا کو ،،
ایسا ھی ایک میلہ ھمارے پڑوس کے گاؤں ڈھونگ میں لگا کرتا تھا ،، جس میں شمولیت کا پکا ارادہ ھم نے بھی لکھوا دیا ،،، ابا جان سے بڑی ضد کر کے دس روپے کی کوھاٹی چپل ادھار ایک دکان سے لی ،، ایک روپیہ رو رو کر امی جان سے وصول کیا ،جو اس شرط پہ دیا گیا کہ صرف چار آنے اس میں سے خرچ کرو گے – ھم نے اس روپے کے سائز کے چار پانچ کاغذ کے ٹکڑے کاٹ کر اس کے اندر رکھ کر ذرا گڈی ٹائپ بنا لیا تا کہ دوستوں پہ جعلی عکس ڈالا جائے ، جس طرح بعض دوست بگلا مارکہ کنگ اسٹار سگریٹ مارون کی ڈبی میں رکھ کر جعلی عکس ڈالتے تھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ھم جب نئ کوھاٹی چپل پہن کر اپنے چچا جان کے ساتھ میلے کی جانب روانہ ھوئے کوئی ایک آدھ میل ھی چلے ھونگے کہ نئ چپل نے چھالے ڈال دیئے ،، ھم نے وہ چپل اتار کر ھاتھوں مین لے لی اور ایک جگہ رسی کا ٹکڑا پڑا دیکھا تو چپل اس میں پرو کر کندھوں پہ لٹکا لی ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
گلے میں نئے جوتے کا ھار پہنے ھم جونہی میلے میں داخل ھوئے تو گھنگھرو کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ،، ھم آواز کی طرف کھنچے چلے گئے ،، آگے باداموں کی سردئی کی ریڑھی پہ حاجی ابوذر ( حاجی وہ ابوظہبی آ کر بنے تھے ) گھنگھرو والا گھوٹنا دونوں ھاتھوں میں لئے بادام کوٹ رھا تھا اور گھنگھرو کی چھن چھن میں ایک مخصوص جملہ بار بار دھرا رھا تھا ،، ” مالٹے مسمیاں دے جشو والا جشو والا ” مالٹے مسمیاں دے جشو والا جشو والا ” ایک سماں بندھا ھوا تھا ،، ھمیں منہ کھولے گلے میں جوتوں کا ھار ڈالے اپنی ریڑھی کے سامنے جو کھڑا دیکھا تو حاجی ابوذر نے گاتے گاتے ایک ھاتھ سے پانی کا مگا بھر کر ھماری طرف پھینکا ،، ٹھنڈا پانی پڑا تو ھمارا تراہ نکل گیا ،، سوچا ایک گلاس سردئی کا پی لیا جائے مگر وہ تو پورے سولہ آنے کا تھا،، جبکہ ھمارا بجٹ صرف چار آنے تھا ،، اس کے بعد ھم چچا بھتیجا نے ایک بیری کے نیچے ھنگامی اجلاس بلایا جس میں اتفاقِ رائے سے طے ھوا کہ میں خوبانی کی گٹھلیاں چن کر لاؤں گا اور چچا جان ان کو توڑیں گے اور دونوں ادھی آدھی کھائیں گے ،،،،،،، چچا جان کے بقول چونکہ وہ مجھ سے کوئی چار پانچ سال بڑے تھے لہزا ان کو شرم آتی تھی جبکہ ھماری عمر نے ابھی بےشرمی کی حدود پار نہیں کی تھی ،،،،،، ھم نے دو چار پھیرے لگائے ،، گٹھلیوں نے بڑا مزہ دیا ،، ھم اکٹھی دو چار گٹھلیاں منہ میں رکھ کر چل پڑتے تا کہ ختم ھونے سے پہلے مزید کوٹہ حاصل کر لیا جائے – ھمیں معلوم نہیں تھا کہ میلے میں گٹھلیوں کا کاپی رائٹ ابوذر کے نام پیٹنٹ تھا ،، پتہ اس وقت چلا جب دو شتروگہن سنہا ٹائپ لڑکوں نے ھمیں گریبان کے پچھلے حصے سے پکڑ کر اپنی طرف گھما لیا ،،،،، کیا کر رھے ھو بھائی ؟ انہوں نے پوچھا ،، خرمانی کی اڑیکاں چن رھا ھوں بھائیو ،،، کیوں چن رھے ھو ؟ یار کھانے کے لئے چن رھا ھوں ،، ھم نے تعجب اسے ان کو دیکھتے ھوئے کہا ،وہ ھمیں گھسیٹتے ھوئے ابوذر کی ریڑھی کے سامنے لے آئے ،، پتہ چلا ابوذر بادام کی بجائے یہی خرمانی کی گٹھلیاں ھی استعمال فرما رھا تھا ،، خیر اس نے ھمارے باپ دادا کا نام پوچھنے کے بعد ھمیں معاف کر دیا اور اگلے دو دن کے لئے میلے سے پلیک لسٹ کر دیا ،،،،،، ھم نے چار آنے کا تربوز لیا اور سر پہ رکھ کر پانچ کیلومیٹر چل کر گھر آگئے ،، سارے گھر والوں نے وہ تربوز مل کر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا ،،،،،،،،،