ساتواں دروازہ اور مجبور شہزادہ

مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو کبھی دادی دادا نے اس قسم کی کہانیاں سنائی ھیں کہ نہیں ،مگر ھمیں اس قسم کی بہت سی کہانیوں سے پالا پڑا ھے جن میں بادشاہ اور ملکہ پہلے تو شہزادے کو کہیں آگے پیچھے جانے ھی نہیں دیتے کہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ ھو جائے،مگر جب شہزادہ بہت ضد کرتا ھے تو پھر وہ اسے بہت ھی تاکید کے ساتھ یہ نصیحت کرتے ھیں کہ وہ چھ دروازوں سے داخل ھو کر جہاں چاھے جو چاھے کرے،مگر ساتویں دروازے میں داخلے کا سوچے بھی نہیں کیونکہ اس دروازے کے پیچھے بلاؤں کا ایک جنگل ھے جہاں اسےقدم قدم پر نت نئی مصیبتوں اور بلاؤں سے پالا پڑے گا، چڑیلیں خوبصورت شہزادیوں کی شکل میں ملیں گی اور جنات اور دیو بہروپ بدل کر ولی اللہ اور قلندر بن کر ملیں گے،جہاں کے درختوں کے بھل زہریلے اور جہاں کے دریاؤں کا پانی سحر زدہ ھے،جسے پینے والایا تو پتھر بن جاتا ھے یا اپنی یاد داشت بھول جاتا ھے یا دوست اور دشمن کی تمیز کھو دیتا ھے ! الغرض شہزادہ ساری نصیحت غور سے سنتا ھے اور بہت خلوص کے ساتھ والدیں سے اسی طرح وعدہ کرتا ھے کہ وہ ان کی اس پرخلوص نصیحت کو ھمیشہ مدنظر رکھے گا ، جس طرح شادی سے پہلے ھر نوجوان اپنی اماں کو پکی یقین دھانی کراتا ھے کہ وہ اپنی ھونے والی زوجہ کو ماں کے قدموں سے نہیں اٹھنے دے گا ،، مگر انسانی فطرت کے عین مطابق یہ پر تجسس سوچ ھمیشہ اس کے ذھن پر حاوی رھتی ھے کہ وہ اس ساتویں دروازے کے رازوں سے آگاھی حاصل کرے ورنہ وہ اپنی شخصیت کو ادھورا اور غلام محسوس کرتا ھے،، آخرکار وہ بسم اللہ کر کے اس دروازے کو کھول لیتا ھے اور اسے ایک خوبصورت ،معصوم سا ہرن نظر آتا ھے اور شہزادہ اپنا گھوڑا اس ہرن کے پیچھے ڈال دیتا ھے دوڑتے دوڑتے ھرن ایک کنوئیں میں چھلانگ لگا دیتا ھے اور شہزادہ بھی گھوڑا کنوئیں میں ڈال دیتا ھے،جس میں ایک سرنگ ھوتی ھے ،،جونہی وہ سرنگ ختم ھوتی ھے تو ایک بہت بڑا خوفناک قلعہ نظر آتا ھے ،،،،،،،،،،،،،، یہاں پہنچ کر ھمارے دادا بہت زبردست بریک لیا کرتے تھے، پہلے تو خوب ڈانٹ پلاتے کہ تم بہت ھلکے ھاتھوں سے ٹانگیں دبا رھے ھو،لہذا اب یہ کہانی نہیں سناتا، اب ھم لجاجت سے لوٹ پوٹ ھو جاتے اور منتیں کرتے کہ دادا جی بتائیں ناں ،پھر شہزادے کے ساتھ کیا ھوا؟،( پلیز اس زمانے مین ابھی ایجاد نہیں ھوا تھا ) تو پیارے بچو یہ چھ دروازے چھ جہتیں ھیں،، سامنے، پیچھے، دائیں ،بائیں،اوپر،نیچے،، اب وہ ساتواں دروازہ کونسا ھے جس کے کھولنے سے والدین منع کیا کرتے تھے وہ سوچ کا دروازہ ھے،سوچ انسان کے لئے ساتواں دروازہ ھے، اس دروازے میں داخل ھوتے ھی اک نئی دنیا سے واسطہ پڑتا ھے،جہاں کی ھر چیز نرالی ھے، والدین کے منع کرنے اور علماء کے خبردار کرنے کے باوجود اب بچوں کے خیالات پر پابندی ناممکن ھو گئی ھے،پہلے اس کے علاج کے لئے حفظ ما تقدم کے طور پر دوستوں پر نگاہ رکھی جاتی تھی وہ بھی اب ناممکن ھے،آپ بچے کا ان باکس تک چیک نہیں کر سکتے نہ فیس بک اکاؤنٹ میں بڈیز لسٹ دیکھ سکتے ھیں دیکھ لیں تو دوستوں کے کردار کا پتہ نہیں چلا سکتے،، دوسرا طریقہ بچے کو باھر نہ جانے دینے کا تھا،،وہ بھی ناکام ھو گیا ھے،،بچہ ایک کلک کے ساتھ نیویارک ،دوسری کے ساتھ لندن اور تیسری کلک کو ساتھ ٹوکیو ھوتا ھے،، شہزادہ ساتویں دروازے مین داخل ھو گیا ھے،، اب اسے بچانے کی فکر کرنی ھے،، سوال جب پیدا ھو جاتا ھے تو پھر کبھی مرتا نہیں ھے ،پینڈنگ میں پڑا رھتا ھے دس سال بعد بھی بلبلے کی طرح پاپ اَپ کر جاتا ھے، نہ تو والدین کا کلچر یہ ھے کہ وہ بچے سے مکالمہ کریں اور نہ مذھبی طور پر بچے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ھے کہ وہ کسی اشکال کو اپنے والدین یا مولوی صاحب سے ڈسکس کر لیا کرے،، اب سوال ،عام سوال نہیں بلکہ تناور درخت بن چکے ھیں،، والدین بچے کو بہت نیک سمجھتے ھیں،،بچہ ان کے لیئے نماز بھی پڑھ لیتا ھے مگر جعلی آئی ڈی بنا کر الحاد بھی پھیلا رھا ھے، میرا ایک ایسے ملحد سے بھی مکالمہ ھوا ھے جو نہ صرف عالم تھا بلکہ مدرسے میں معلم بھی تھا،، پتہ چلا کہ یہ اشکالات اس کے اس زمانے کے تھے جب وہ ایک جامعہ میں پڑھتا تھا،، سوال ڈر کے مارے نہیں کیئے کیونکہ یا تو کلاس فیلو استادوں کو بتا دیں گے ،یا استادوں سے پوچھ لیا تو وہ جامعہ سے نکال دیں گے،، پھر فارغ ھو کر اور مدرسی کے دوران بھی اس نے اپنے اشکالات چھپائے رکھے، اور اشکالات بھی قرآن اور حدیث کے بارے میں تھے، الغرض اشکالات کے ازالے کے بعد وہ الحمد للہ آج ایک متحرک مبلغ بنے ھوئے ھیں،، اس وقت کی ضرورت یہ ھے کہ طے یہ کیا جائے کہ کوئی شخص کب تک مسلمان رہ سکتا ھے،یعنی کم سے کم صیغہ جس کے ساتھ کوئی مسلمان رہ سکتا ھے،،ذرا ذرا سی بات پہ اسلام سے خارج کرنے کی روش نے اب نوجوانوں کو اس حد تک مایوس کر دیا ھے کہ وہ مسلمان ھوتے ھوئے بھی اپنے آپ کو خود اسی طرح گریبان سے پکڑ کر اسلام سے باھر دھکا دے لیتے ھیں جس طرح ٹوم کبھی کبھی کرتا ھے،، آج اس شہزادے کو ساتویں دروازے کے سحر سے آزاد کرانے کی ضرورت ھے، اور آج کے مسائل اور اشکالات کو آج کے ذرائع سے ھی حل کرنا ھو گا،ماضی میں کبھی بھی ایسے مسائل پیدا نہیں ھوئے لہذا ان کا حل ماضی میں ھے بھی نہیں،،