زکواۃ

علماء پرانے زمانے کے فتوے کے مطابق فرماتے ہیں کہ جس کے پاس کھانے پینے کے علاوہ پچاس روپے ہوں اس پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ جبکہ اس زمانے میں پچاس روپے میں بھینس آ جاتی تھی، آج کل پچاس روپے میں سیفٹی آتی ہے۔ بچوں کی اسکول فیس، بجلی پانی کا بل اور مکان کا کرایہ، کچھ بھی پرانے زمانے میں نہیں ہوتا تھا۔ قرآن مجید نے کتنا بہترین اصول دیا ہے جو ہر زمانے میں ویلڈ ہے۔ صدقات در حقیقت ان کے لئے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں اور ان کے لئے ہیں جن کے پاس ہوتا تو ہے مگر پورا نہیں ہوتا، ایک آدمی کی منتھلی آمدن پچاس ھزار مگر اخراجات ساٹھ یا ستر ہزار ہیں تو وہ مسکین ہے، سارا دارومدار ذاتی حیثیت پر ہے، ایک شخص کے تین چار بچے پڑھ رہےہیں،بوڑھے والدین بیمار پڑے ہیں گھر کرائے کا ہے اس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں تو آمدن پچاس ہزار بھی ہو تو ناکافی ہے دوسرا بندہ گاؤں میں رہتا ہے اولاد بھی نہیں،مکان بھی اپنا ہے، ایک اکیلی ذات ہے تو اس کو مزدور کی دیہاڑی بھی کفایت کرتی ہے، البتہ جب وہ بیمار پڑ جائے تو زکوٰۃ لینے کا حقدار ہو جاتا ہے کیونکہ انکم کا ذریعہ ختم ہو گیا ہے۔

قاری حنیف ڈار