ریاست اور اس کی حرکیات

ریاست ایک جسم کی طرح کام کرتی ہے جس کے مختلف اعضاء یا اجزاء ہوتے ہیں – بعض دفعہ ان میں سے کوئی عضو جب کام نہیں کرتا تو اس عضو کی خاطر پورے جسم کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا – بعض دفعہ سانس جب ناک اور منہ کے فطری راستوں سے ناممکن ہو تو گلے میں سوراخ کر کے آکسیجن اور خوراک کے پائپ ڈال دئیے جاتے ہیں ، آپ اس مریض پر کسی صحتمند جسم کو تصور نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی منہ سے کھانے اور ناک سے سانس لینے والے کے ساتھ تقابل کر کے لعن طعن کر سکتے ہیں کہ دیکھو یہ لوگ اس کو گلے کے سوراخ سے کھلا کر اللہ کے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں –
ہمارے یہاں یورپ کے ترقی یافتہ صحتمند ممالک کی قانون پرستی اور وہاں کے سسٹم کی مثالیں دینے والوں سے گزارش ہے کہ کسی کا منہ لال دیکھ کر اپنا تھپر مار کر لال نہیں کرتے – ان لوگوں نے جب غیر قانونی حرکت کرنی ہوتی ہے تو اس بندے کو اپنے ملک سے نکال لے جاتے ہیں اور گونتانامو بے یا یورپی ممالک میں اپنے قائم کردہ ٹارچر سیلز میں لے جاتے ہیں – یا قانون کی نظر میں آنے ہی نہیں دیتے اور کسی غیر فطری طریقے سے بندہ پار کر دیتے ہیں کسی کو ایکسیڈنٹ میں مروا دیتے ہیں ، کسی کو خودکشی کا نام دے دیتے ہیں اور کسی کو کنیڈی کی طرح مار دیتے ہیں –
دو ممالک جب جنگ کرتے ہیں تو ان ممالک نے کچھ معاہدے دستخط کر رکھے ہوتے ہیں جس کی پاسداری دو طرفہ ہوتی ہے ، جب آپ کا دشمن کسی معاہدے کا پابند نہ ھو تو خود آپ قانون کی پاسداری کر کے خودکشی نہیں کر سکتے – ایسے گروہوں کو { آوٹ لاء ] دشمن کی اصطلاح دے کر اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں ہم کسی ملکی یا غیر ملکی قانون کے پابند نہیں ہیں ہم دشمن کے عمل کا رد عمل دیں گے ، اگر وہ ہمارے بندے قیدی نہیں بناتا بلکہ مار دیتا ہے تو ہم بھی اس دشمن کا بندہ قیدی بنانے کے پابند نہیں بلکہ موقعے پر ماریں گے اور اگر قیدی بنائیں گے تو بھی معلومات لینے کے بعد مار دیں گے جس طرح وہ ہمارے قیدی کی گردن کاٹ کر ویڈیو بناتے ہیں ، امریکہ نے القاعدہ اور داعش وغیرہ کو ایسے ہی گروہ قرار دے رکھا ہے لہذا امریکی قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور نہ جنیوا کنوینش اس کو روک سکتا ہے –
پاکستان کا مقابلہ جس دشمن سے ہے وہ بالکل کسی قانون ،ضابطے یا مذھب کا پابند نہیں ہے ، اس کے جواب میں پاکستانی اداروں سے تقاضا کرنا کہ وہ ان آوٹ لاء جنگجووں کے خلاف مقدمے چلائے اور پھر عدالتوں سے ان کو سزا دلائے ایک غیر منطقی مطالبہ اور ملک سے دشمنی کے مترادف ہے – جب جج اور وکیل بھی ان کی ہٹ لسٹ پر ہوں ، ان کو دھمکی دی جائے کہ اگر ہمارے بندے کی ضمانت نہ دی تو تیری بیٹی کالج سے اٹھا لی جائے گی یا بارود سے بھرا ٹرک تمہارے گھر سے ٹکرا دیا جائے گا تو وہ بیچارہ عدل کیسے کرے گا ؟ اگر فوج دس بندے شھید کرا کر ایک جنگجو کو پکڑتی ہے اور آپ کی عدالت اس کو ضمانت دے دیتی ہے تو شہداء کے ساتھیوں اور لواحقین پر کیا گزرتی ہے یہ وہی جانتے ہیں –
فوج کو نہ تو عدالتوں کے چکر میں پڑنا چائیے اور نہ مقدمات کی دلدل میں اترنا چاہیے ،فوج کو شرعی حق حاصل ہے کہ وہ بطور ادارہ بندے کے مجرم یا معصوم ہونے کا فیصلہ کرے اور اس کو مار کر میدان جنگ کا مردہ ظاہر کرے – میڈیا کی عدالتوں کو لگام دیا جائے ، ان میں کئ ایک جانتے بوجھتے جبکہ باقی انجانے میں دشمن کے ایجنٹ بن چکے ہیں -انڈیا کا میڈیا دیش بھگت جبکہ ہمارا میڈیا غدار اور پیسے کا پتر ہے ،یہ اپنی رینٹنگ کے لئے مصنوعی واقعات تخلیق کرنے سے بھی باز نہیں آتے ، عوام کا حال یہ ہے کہ وہ کیمرے میں آنے کے لئے میدان عرفات میں بھی لوٹے لہرا کر ساری دنیا کو دکھاتے پھرتے ہیں اور طواف کے ہر چکر کی رننگ کمنٹری کرتے ہوئے کلپس بناتے پھرتے ہیں تو پھر مال روڈ پر ان کو جمع ہونے سے کون روک سکتا ہے ؟ یہ ہڑتالوں اور دہرنوں کا رواج ہی لائِیو کورج کی وجہ سے پڑا ہے ، حکومت یا فوج کوئی بھی اس لائیو کورج پر پابندی عاِئد کر دے تو یہ رجحان ہی ختم ہو جائے گا ، میڈیا کو ۸۰ کی دہائی میں لے جائیے تو بے حیائی سمیت کئ مسائل حل ہو جائیں گے ، نیز یہ نیوز چینل پر بیٹھ کر عوام کو ٹینشن دینے والے سیاست دان بھی اپنے حلقے کے عوام کو دستیاب ہو جائیں گے –
خلافت میں ریاست اور شخصی آزادی –
خلافت میں سب سے پہلی اہمیت فرد کی نہیں بلکہ ریاست کی تھی، لہذا جب ریاست نے محسوس کیا کہ کوئی اس کے وجود کو للکار رہا ہے تو اس نے نہایت مستعدی سے اقدام کیا اور کسی کے تقدس کو خاطر میں نہیں لائی – حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ایک جید صحابی تھے ، خود بھی مسکین طبیعت کے مالک تھے آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ انسان کی ضرورت سے زیادہ جو بھی بچ جائے وہ کنز ہے جس پر انسان کا کوئی حق نہیں بلکہ اس کو بانٹ دینا چائیے – یہ نقطہ نظر کوئِی شخص بھی اپنی ذات کے بارے میں تو اپنا سکتا ہے مگر اس کو شریعت کہہ کر کسی اور پر نہیں تھوپ سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مجھے پتہ ہے کہ میری ضرورت ۲۵ روپے ہے اور اس سے زیادہ اگر کمائے تو وہ مجھے دوسروں میں بانٹ دینے ہیں تو میرا دماغ خراب ہے کہ میں دوسروں کے لئے اپنی جان ماروں گا ، میں بچے لے کر تفریح کے لئے کیوں نہ نکل جاوں آخر وہ بھی تو شرعی تقاضا ہے – یہی سوشلزم ہے ،، جب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے یہ مہم شروع کی تو خلیفہ وقت سمیت کئ فقہاء صحابہ نے ان سے سوال کیا کہ پھر زکوۃ کس پر فرض کی گئ ہے ؟ زکوۃ بچے ہوئے مال پر جب سال گزر جائے تبھی تو فرض ھو گی جبکہ آپ کے نزدیک روز کے روز گھر خالی کر کے سونا چاہیے ؟ یہ ذاتی تقوی تو ہو سکتا ہے مگر شریعت نہیں ہے شریعت میں کنز وہی ہے جس پر زکوۃ نہ دی جائے ،زکوۃ دینے کے بعد آپ کے پاس اربوں درھم ہوں تب بھی وہ حلال اور آپ کی وراثت ہیں اسی لئے تو وراثت کا قانون نازل ہوا ہے ،اگر آپ کے نزدیک شریعت یہ ہے کہ جو بچا ہے وہ پڑوسی کو دے دینا ہے تو وارثت کا قانوں کہاں لاگو ہو گا ؟ جب تک تو بات ذاتی خیال تک محدود رہی تب تک تو ریاست ان کو برداشت کرتی رہی مگر جب انہوں نے گلی محلوں میں اس کی تبلیغ بھی شروع کر دی اور مالدار صحابہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا تو ریاست نے ان کو علاقہ بدر کر کے شام بھیج دیا ،مگر وھاں نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ،وہاں کے ویلے اور لوفر ان کے پیچھے لگ گئے اور باقاعدہ ایک جتھہ بن گیا ، جس کا نعرہ تھا کہ ” دم مارو دم – کمائے گی دنیا کھائیں گے ہم – جب شورش کا خطرہ پیدا ہوا تو ان کو واپس مدینہ بھیجا گیا اور وہاں پھر اسی مہم کی وجہ سے ان کو مدینے کے باہر نظر بند کر دیا گیا –
کوفے کے گورنر نے چوریوں اور ڈاکہ زنی کی وجہ سے قانون بنایا کہ مغرب کے بعد جو شخص شہر کی فصیل کے باہر پایا گیا اس کو ڈاکو سمجھا جائے گا لہذا سب لوگ مغرب سے پہلے فصیل کے اندر داخل ہو جایا کریں – ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکری کو پکڑنے کے لءے دور چلا گیا اور وقت پر شہر واپس نہ آسکا وہ اپنی بکری پکڑ کر فصیل کے باہر ہی بیٹھ گیا ،رات کو پیٹرولنگ پارٹی نے اس کو پکڑ لیا اور گورنر کی عدالت میں پیش کر دیا ، اس نے اپنا عذر بیان کیا ، گورنر نے تحقیق کی اور اس کی بات شچ نکلی ،مگر گورنر نے اس سے کہا کہ دیکھ اگرچہ تیری بات سچ اور تیرا عذر معقول ہے مگر ریاست کی رٹ اور قانون کی علمبرداری کی خاطر تجھے قربانی دینے پڑے گی ورنہ کل یہاں درجنوں لوگ اپنے اپنے سچے جھوٹے عذر لئے کھڑے ہونگے ، گورنر نے اس کی گردن اڑا دی ، اس کے بعد کسی کو رات باہر رہنے کی جرات نہ ہوئی –
تصویر کا دوسرا رخ –
اگر ریاست یہ سمجھے کہ کسی فرد یا ادارے پر ہاتھ ڈالنے سے خود ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا بغاوت بھڑک سکتی ہے تو اس صورت میں وہ متعلقہ فرد یا ادارے سے صرف نظر بھی کر سکتی ہے – عبداللہ ابن ابئ ایسا ہی شخص تھا کہ جو مدینے میں اپنا اثر و رسوخ اس حد تک رکھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے متصل پہلے نازل ہونے والی سورت توبہ میں اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ ” و فیکم سماعون لھم ” تمہارے اپنے اندر ان کی بات سننے والے لوگ موجود ہیں ، اس کا اندازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی ہو چکا تھا جب واقعہ افک میں رسول اللہ کی موجودگی میں منبر رسول کے سامنے بیٹھ کر حضرت سعد ابن عبادہ نے کہا تھا کہ ” کوئی عبداللہ ابن ابئی کو ہاتھ لگا کر تو دیکھے _ لہذا رسول اللہ نے اس کو ۸۰ کوڑے بھی نہیں مارے بلکہ معاملے کو اخرت کے حوالے کر دیا سورہ توبہ میں ان کو ۱۱ بار کافر کافر کہنے کے باوجود حکم دیا کہ ” فاعرض عنھم انھم رجس ” ان سے اعراض فرمائیں ،یہ گندگی ہیں – کیا بےبسی کا عالم ہے کہ وہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ کو شھید کرنے کی بھی کوشش کرتےہیں مگر مسلمانوں کو ان کے خلاف کسی اقدام سے روکا جا رہا ہے مبادا ریاست میں خانہ جنگی شروع نہ ہو جائے بلکہ ان کے نام تک بتانے سے منع کر دیا کہ لوگ اپنے طور پر ان افراد کو گستاخ رسول کہہ کر مار نہ دیں یوں وہی بغاوت کا سلسلہ چل نکلے –
حکومت کے سامنے دونوں راستے کھلے ہیں ،، باغیوں سے مذکرات کرنے والا بھی ، اور بغیر عدالتی چکروں کے ہر اس فرد ادارے یا جماعت کو عدالت سے بالاتر ہو کر رگڑ دینے کے بھی – قانون اور آئین ملک چلانے کے لئے ہوتے ہیں جب ملک کا وجود ہی خطرے میں ہو تو قانون کو چولہے جلانے کے لئے نہیں رکھا جاتا ، ملک پہلے ہے قانون بعد میں ہے ملک زچہ ہے اور قانون بچہ ہے ، اگر دونوں کو بچانا ممکن نہ ہو تو پھر زچہ کو بچایا جائے گا اور بچہ کو اللہ کے حوالے کر دیا جائے گا –
واللہ اعلم بالصواب –