ربا تیری حکمت والے بھید نئیں جاندے پھولے !

سردی کے دن تھے ،، صبح بہت جلدی جاگ کر اسکول جانا ھوتا تھا ورنہ بس نکل جاتی تھی ،،، ابراھیم کو نیند سے بھری آنکھوں سمیت ایک ھاتھ میں پکڑا اور اس کا بستہ دوسرے ھاتھ میں ،، گھسیٹتا ، کوستا جا رھا تھا کہ جلدی پاؤں اٹھاؤ بس نے ڈبل اشارہ لگایا ھوا ھے اور جانے لگی ھے ،، محراب کے پاس سے گزرتے ھوئے میں نے پوچھا ” ابراھیم کیا بنو گے؟ ابراھیم نے ایک نظر محراب کے دروازے کی طرف دیکھا اور جواب دیا ” امام مسجد ” میں نے کہا اس لئے کہ امام دبا کے سوتے ھیں ؟ اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ھلا دیا ،، حضرت داؤد علیہ السلام کے والد نے باقی بچوں کو تو زرہ لے کر دی ھوئی تھی ، مگر داؤد علیہ السلام کو چھوٹا سمجھ کر اگنور کر رکھا تھا ، جبکہ حضرت داؤد علیہ السلام کو زرہ کا بہت شوق تھا ،، اور یہ احساس ِ محرومی ان کے اندر بچپن سے تھا ،، جب اللہ پاک نے ان سے پوچھا کہ وہ کونسا پیشہ پسند کریں گے تو بیساختہ ان کا احساسِ محرومی جاگ اٹھا ،، فرمایا ” زرہ سازی ” کا پیشہ ،، چنانچہ آپ کو اس کی صلاحیت معجزانہ طور پہ دے دی ، لوھا آپ کے ھاتھ میں یونہی ھو جاتا تھا جیسے گندھا ھوا آٹا ھوتا ھے ،، "و ألنۜا لَہُ الحدید” اور ھم نے اس کے لئے لوھا نرم کر دیا ،،،،،،،
جب انسان غریب ھوتا ھے اور اشیاء تک اس کی رسائی نہیں ھوتی تو اس کی طلب کی شدت امیر کی نسبت سیکڑوں گنا زیادہ ھوتی ھے ،، بہت ساری خواتین ایسی ھیں کہ جب کپڑے کی طلب کی شدت میں پاگل ھوئی پھرتی تھیں ،، اور کسی کو پہنے دیکھ کر ھپناٹزم کے معمول کی طرح پلک نہیں چھپکتی تھیں ،، جب اللہ نے کروڑ پتی کر دیا تو طلب مر گئ تھی ،،،،،،، جب بھوک لگتی تھی تو کھانے کو کچھ نہ تھا ،جب کھانے کو ملا تو شوگر ھو گئ ،، جب تک بیوی نہیں ھوتی انسان کی ساری سوچیں اور اوقات اسی کے گرد گھومتے ھیں ،کسی جوڑے کو جاتے دیکھ کر ان کے دل میں وھی آگ بھڑکتی ھے جو سولہ گھنٹے کے روزے کے دوران ٹھنڈے پانی یا روح افزا کو دیکھ کر روزے دار کے دل میں بھڑکتی ھے ،،،، اور جب ملتی ھے تو اسے گھر بند کر کے باھر دوستوں میں راتیں گزرنا شروع ھو جاتی ھیں ،، ان الانسان لکفور ” یقیناً انسان بڑا نا شکرا ھے ،،