ذرا اپنی اداؤں پہ غور فرمایئے

اگر آپ کی نظر اسپیڈ کیمرے پر ھے ، آپ ساتھ بیٹھے آدمی کو بتا بھی رھے ھیں کہ یہ دیکھو نئ قِسم کے کیمرے متعارف کروائے ھیں حکومت نے – ساتھ ھی آپ کو کیمرہ پڑ جاتا ھے تو ،،،،،،،،،،،،،،،،،، اس سے بڑی بیوقوفی کی کوئی بات نہیں ھو سکتی کیونکہ کیمرے کے ساتھ ساتھ آپ کی نظر اپنی گاڑی کے اسپیڈو میٹر پر بھی ھونی چاھئے تھی ، اسے بھی کیمرے کی حد اور حدود کے اندر رکھنا تھا ،مجرد وعظ سے کام نہیں چلتے ،، اپنی ذات پہ بھی فوکس رکھنا چاھئے ، اگر آپ کیمرے کو نہ بھی دیکھتے مجرد اپنی اسپیڈ پہ نظر رکھتے تو کیمرہ دیکھنے کی ضرورت ھی نہیں تھی ،، انسان خدا کو دنیا میں کشف کے زور پہ دیکھنے کی مشقت میں بڑے بڑے مراقبے کرتا ھے ،تپسیا اور مجاھدے کرتا ھے ، ایک ٹانگ پہ کھڑا رھتا اور کنوئیں میں الٹا لٹک کر مجاھدے کرتا ھے ،، مگر اپنی ذات پہ نظر رکھنے جیسی آسان مشق کرنے کو تیار نہیں ، کانک تراہ سے پہلے ،،، ان تعبداللہ ھے ، اور تراہ سے مقصود بھی ان تعبداللہ میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرنا تھا ، تو اسے بے شک نہ دیکھے ،،،،، اگر تو اپنے آپ کو دیکھ لے ، اپنی اداؤں پہ غور فرما لے تو بھی تیری نجات کے لئے کافی ھے ،، اندھیرے میں الو کی طرح آنکھیں گھمانے کی بجائے دو فٹ سامنے لگے اسپیڈو میٹر کو دیکھنا جبکہ اس میں روشنی بھی ھوتی ھے ،، زیادہ فائدہ مند ھے ، اپنی ذات کو اس کی قائم کردہ حدود تک محدود کر دو اور بے فکر ھو جاؤ،، جنت کا دروازہ گھر گھر کھلا ھے ، اور جھنم کا دروازہ بھی اسی جنت والے دروازے کے ساتھ ھے Just next Door ،، تیرے والدین ، تیری بیوی ،تیرے بچے اور تیرے پڑوسی تیری جنت کے دروازے ھیں ،، اور یہی ھماری جھنم کا سبب بھی ھیں ،، فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی ،، پس میرے بندوں میں داخل ھو جاؤ اور میری جنت میں آ نکلو ،، جنت کا دروازہ اللہ کے بندوں میں سے ھو کر گزرتا ھے ،ھمیں بندوں میں بھیجا گیا ھے اگر مجرد اللہ کے قرب سے جنت دینا مقصود ھوتا تو اللہ پاک ھمیں اپنے پاس ھی رکھتا ،، ھم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ھیں تو کسی مقصد سے بھیجے گئے ھیں ، مگر ھمارا حال بھی اس نالائق بچے جیسا ھے جسے والدین اسکول چھوڑ کر آتے ھیں اور وہ بستہ کلاس روم کی کھڑکی سے باھر پھینک کر خود بھی چھلانگ دیتا ھے اور امی امی کرتا ماں سے پہلے گھر پہنچ جاتا ھے ، اللہ پاک نے ھمیں انسانوں میں بھیج کر امتحان میں ڈالا ھے اور ھم سماج سے نکل کر اللہ اللہ کرتے غاروں کی طرف جا نکلے ھیں کہ اللہ کو دیکھنا ھے ، کانک تراہ ” گویا کہ تُو اس کو دیکھتا ھے ”
اللہ کے رسول ﷺ کے کردار کی گواھی آنحضرت ﷺ کے دشمنوں سے دلوائی گئ ھے ، ایک صاحب پوچھتے ھیں کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے بھلا کیسے پتہ چلے کہ میں نیک ھوں یا بد ، کیونکہ ھر انسان اپنے کو تو نیک ھی کہتا ھے ،،،،، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ” اگر تیرا پڑوسی کہے کہ تُو نیک ھے تو بیشک تو نیک ھے ،، اور اگر تیرا پڑوسی کہے کہ تو برا انسان ھے تو جان لے کہ بےشک تو بُرا ھے ،، ارشاد فرمایا تیرے ایمان کا گواہ تیرا پڑوسی ھے ، اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم اس کا ایمان نہیں ،، پوچھا گیا کہ اللہ کے رسولﷺ کون مومن نہیں ؟ فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے امن میں نہیں ( متفق علیہ ) ،،،،،، دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا ،،،،، وہ شخص مومن نہیں جس نے پیٹ بھر کر کھا لیا اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ گیا ،، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ھیں کہ اگر تیرے گھر میں کھانا بچ گیا ھے تو یقین جان تیرے پڑوس میں کوئی بھوکا سو گیا ھے ،، جو شخص امانتدار نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو وعدے کی پابندی نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں کیونکہ دین نام ھی اللہ اور بندے کے درمیان عہد کی پاسداری کا ھے !
اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے عہد کی پاسداری میں اعتکاف توڑ دیا اور اگلے سال اس کی قضا کر کے 20 دن اعتکاف کیا ، اور اس عہد کا تعلق بھی اپنی زوجہ کے ساتھ تھا ،ھم اپنی ازواج سے کیئے گئے وعدوں کو مچھر کے پر کے برابر بھی اھمیت نہیں دیتے بلکہ ان کو کوئی ایسی شخصیت ھی نہیں سمجھتے کہ جس کے ساتھ کوئی سنجیدہ عہد کیا بھی جا سکتا ھے ،، ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ سے آپ نے وعدہ فرما لیا کہ اس دفعہ جب میں اعتکاف بیٹھا تو تم بھی اپنا خیمہ مسجد میں لگا کر اعتکاف کر لینا ،، مگر جب آپ نے کچھ اور خیمے بھی مسجد میں لگتے دیکھے تو پوچھا کہ یہ کیا ھو رھا ھے ؟ پتہ چلا دیگر امھات المومنین بھی اعتکاف مسجد میں کرنا چاھتی ھیں ، ازواج میں اس مسابقت کو دیکھتے ھوئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہؓ سمیت سب کے خیمے اکھاڑ دو ، اور اس بات کے مدںطر کہ وعدہ خلافی نہ ھو چونکہ اس سال اپنے اعتکاف کے ساتھ حضرت عائشہؓ کے اعتکاف کا وعدہ کر بیٹھے تھے، اللہ کے رسول ﷺ نے خود بھی اس سال اعتکاف نہیں فرمایا اور اگلے سال رمضان میں اس کی قضاء کرتے ھوئے 20 دن کا اعتکاف کیا ،، ایک عام سے وعدے کو بھی آپﷺ نے کس قدر اھمیت دی ، حالانکہ دباؤ ڈال کر یا حکم دے کر حضرت عائشہؓ کو بھی منع کیا جا سکتا تھا ،مگر اللہ کے رسولﷺ نے اپنی شوھرانہ حیثیت کو اپنی وعدہ خلافی کے لئے جواز بنانے کی کوئی کوشش نہیں فرمائی اور عہد کے مطابق اگر حضرت عائشہؓ کو اعتکاف نہیں کرنے دیا تو خود بھی نہیں کیا ،،،،،،،