دعا اور تقــــــدیر

کچھ لوگ یہ سوال اٹھاتے ھیں کہ دعا سے اللہ کے فیصلے کیسے تبدیل کرائے جا سکتے ھیں،،فیصلے تو وہ تبدیل کرتا ھے جو فیصلوں میں غلطی کرتا ھے،، اور اسے احساس دلایا جاتا ھے کہ آپ نے یہاں میرے ساتھ زیادتی کر دی ھے،یا آپ سے انجانے میں کچھ غلط ھو گیا ھے تو جناب میری درخواست یہ ھے کہ آپ اسے تبدیل کر دیں !! دعا اللہ پاک کا حکم ھے اور انسان کا فرض اور ضرورت ھے،، جس طرح نماز کا حکم مشروط نہیں ھے بلکہ نماز ھم نے ھر حال میں پڑھنی ھے ،چاھے ھم غریب ھوں، بیمار ھوں، بے اولاد ھوں، لولے لنگڑے ھوں، روزہ غیر مشروط حکم ھے،روزہ ھم نے ھر حال میں رکھنا ھے، اسی طرح دعا ایک مستقل عبادت ھے اور اس دعا کے نتیجے میں اگرچہ آپ کے گھر پر سونا چاندی نہ برسے،،یا اولاد نہ ھو ،یا بیماری دور نہ ھو تب بھی، دعا کرنا تو ھمارا فرض ھے،و قال ربکم ادعونی استجب لکم،، اور تمہارا رب کہتا ھے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا ھوں،، ان الذین یستکبرون عن عبادتی،، بےشک وہ لوگ جو میری عبادت سے استکبار کرتے ھیں،،یہاں دعا کو عبادت کہہ کر دعا نہ کرنے والے کو متکبر قرار دیا اور پھر آگے نتیجہ سنا دیا،،سیدخلون جہنم داخرین،،عنقریب جہنم میں داخل ھوں گے،،اس ایک ھی آیت میں اللہ پاک نے کسی چیز کو فرض کر دینے والے سارے اسلوب اختیار فرما لئے ھیں،، حکم،،اس پر عمل کی جزاء کی بشارت اور نہ کرنے پر جہنم کی وعید (المومن 60 ) یہ اللہ کا احسان ھے کہ اس نے کسی عبادت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ کرو میں قبول کروں گا،، بلکہ اس کو اوپن رکھا کہ تم عبادت کرتے چلے جاؤ،، میں قبول کروں یا نہ کروں،، یہ میرا اختیار ھے،، اور فرمایا انما یتقبل اللہ من المتقین،،اللہ تو درحقیقت متقین سے ھی قبول فرماتا ھے،، سوائے دعا کے،، ایک تو اس میں نیک ھونے کی شرط کوئی نہیں رکھی بڑے سے بڑے گنہگار سے قبول کی جا سکتی ھے،، اسکی وجہ یہ ھے کہ اللہ پاک نہیں چاھتا کہ نیکوں کا ایک ایسا طبقہ یا مستقل ادارہ وجود میں آ جائے جو کرائے پر دستیاب ھو دعا کرانے کے لئے ( اس کے باوجود ھم ایک سے ایک بڑا مچھندر پالے بیٹھے ھیں) دوسرا اللہ پاک نے اس کی غیر مشروط قبولیت کا وعدہ فرمایا ھے،،،اس سے ایک تو امید دلانا مقصود ھے ،،اللہ گنہگار سے براہ راست رابطے یا انٹر ایکشن کا طلبگار ھے کسی وکیل کو درمیان میں نہین آنے دینا چاھتا،،وہ چاھتا ھے کہ گنہگار اسی بہانے سے بھی میرے در پہ آ جائے اور ھماری دعا سلام ھو جائے،، اس کے لئے فرمایا” یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ -ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا،، انہ ھو الغفور الرحیم- اے میرے وہ بندو ! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ھو ،اللہ کی رحمت سے مایوس مت ھو جاؤ،وہ سارے گناہ معاف کر دے گا،وھی تو ھے بخشنے والا رحم کرنے والا ! یہ اصول اللہ قرآن حکیم مین بار بار دھرایا ھے کہ مصائب مشکلات اور تکلیفوں کا نزول انسان اور قوموں کو رب کے در پر لانے کے لئے کیا جاتا ھے اور یہ آخری موقع ھوتا ھے،تعلقات کی بحالی کا،،اگر مصائب میں مبتلا ھونے کے باوجود انسان رب کا در نہ دیکھے تو وہ روحانی طور پر لاعلاج قرار دے دیا جاتا ھے،،پھر اس پر ھر چیز کے دروازے کھول دیئے جاتے ھیں یہانتک کہ جب وہ خوب غافل ھو جاتا ھے اور بے فکر ھو جاتا ھے کہ اچانک کسی سخت گرفت مین پکر لیا جاتا ھے اور اس کا قصہ چکا دیا جاتا ھے؛واخذناھم بالبأسآءِ والضراء لعلھم یتضرعون،،اور ھم نے ان کو پکڑا تنگیوں اور تکلیفوں مین تا کہ وہ گڑگڑائیں،، فلوا لا اذ جاء ھم بأسنا تضرعوا ولکن قست قلوبھم،، پھر جب ان پر ھماری مصیبت آئی تو وہ گڑگرائے کیوں نہیں؟ مگر ان کے دل سخت ھو گئے تھے،، دعا کی قبولیت کے انداز !!! دعا کبھی تو فوری طور پر پوری ھو جاتی ھے،،کبھی تاخیر سے پوری ھوتی ھے اور کبھی پوری نہیں ھوتی،، جن کی تاخیر سے پوری ھوتی ھے، اللہ پاک چاھتا ھے کہ وہ اسی بہانے سہی مگر اس سے رابطے میں رھیں،، جن کی نہیں پوری نہیں ھوتی،، وہ ان کے نصیب نہیں ھوتی بلکہ کسی اور کے نصیب میں ھوتی ھے،ـ
(میں کسی کے دستِ طلب مٰں ھوں تو کسی کے حرف دعا میں ھوں ،میں نصیب ھوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ھے)
مگر ایسی دعا کی استجابت کا طریقہ یہ ھے کہ وہ اللہ کے یہاں محفوظ کر لی جاتی ھے اور قیامت کے دن دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ اس کا اجر دیا جائے گا،،نبی کریمﷺ کے فرمان کے مطابق اس دن انسان کی جو دعائیں قبول ھو چکی ھوں گی وہ ان پر بھی حسرت کرے گا کہ کاش وہ بھی قبول نہ ھوتیں اور آج کے اجر میں شامل کر لی جاتیں ! دعا اللہ کے فیصلوں میں تقدیر کا حصہ ھوتی ھے یعنی یہ دعا کرے گا تو ھم یہ عطا کریں گے،،کچھ چیزوں کو فوری طور پر بن مانگے بھی دے دیا جاتا ھے،مگر کچھ کے لئے ایپلائی کرنا پڑتا ھے ، یہ اصول ھر ادارے میں ھوتا ھے،،کچھ کے لئے ایک خاص گریڈ درکار ھوتا ھے جب وہ بندہ اپنے صبر اور عاجزی و گریہ زاری سے جونہی اس گریڈ میں ترقی کرتا ھے ،،اللہ کے نظام مین اس گریڈ سے متعلق فیصلے فوری طور پر حرکت مین آ جاتے ھیں،، یعنی آپ کی ترقی جب اگلے گریڈ میں ھوئی تو آپ کو پہلے سے بڑا گھر، پہلے سے قیمتی کار،پہلے سے زیادہ تنخواہ پہلے سے طے شدہ ضوابط کے تحت ملی ھے،،تبدیل آپ کا گریڈ ھوا ھے کمپنی کا اصول نہیں،،یہ اصول اللہ نے سورہ کہف میں بیان فرمایا ھے،،جب نیک والدین کو ایک بیٹا دیا،پھر اسے بچپن میں مار دیا،،جب انہوں نے اس پر صبر کیا تو انکی ترقی اگلے درجے میں ھوئین جہاں ایک صالح بیٹا ان کے مقدر مین تھا،، اب کیا اللہ کو پیدا کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بچہ تو غلطی سے نیکوں کے گھر پیدا ھو گیا ھے ،، اسے تو کسی گنہگار کے گھر پیدا کرنا تھا پھر اللہ نے اپنی بیوروکریسی کا بندہ بھیجا جس نے موسی علیہ السلام کے سامنے اس کو مار دیا؟؟؟ دعا اور محبت ! جنہیں اللہ سے حقیقی محبت ھوتی ھے وہ ھمیشہ چھوٹے چھوٹے بہانے ڈھونڈتے ھیں رب کا دروازہ کھٹکھٹانے کے،،آپ نے کبھی غور فرمایا ھے جو بچہ جتنا آپ سے پیار کرتا ھے اور آپ کی توجہ چاھتا ھے،وہ اتنی ھی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر ھائے ددی ھائے ددی کرتا آپ سے پھونکیں مرواتا ھے ؟ میاں محمد فرماتے ھیں، جس گھر مین محبت داخل ھوتی ھے اس گھر کے گھڑے بھرے رھتے ھیں،،یعنی وہ لڑکی آدھا گھڑا گرا کر پھر بھرنے نکل کھڑی ھوتی ھے کہ شاید اسی بہانے محبوب کا دیدار ھو جائے ،، ھمیں جب لسی لینے کسی ایسے گھر بھیجا جاتا تھا،جہاں ھمارا محبوب ھوتا تھا تو ھم دعا کرتے جاتے تھے کہ پہلی دفعہ نہ ھی ملے بلکہ کہہ دیں کہ ابھی لسی” رِڑکی "ھی نہیں ھے، تا کہ اسی بہانے دو چار چکر لگ جائیں،، اللہ والوں کو قبول ھونے سے قبول نہ ھونے کی زیادہ خوشی ھوتی ھے،، نبی کریمﷺ کو اللہ نے فرمایا ” اگر تم کہو تو احد کو سونا بنا دوں تم خرچ کرو اور کم بھی نہ ھو،،مگر آپﷺ تڑپ گئے اور فرمایا اللہ ایسے نہیں تو ایسے کر مجھے ایک وقت دے تا کہ میں تیرا شکر ادا کروں،، اور ایک وقت بھوکا رکھ کہ میں تجھ سے سوال کروں،، دعا کرنا عاجزی کرنا ، اپنی بے کسی و بے بسی کا اظہار کرنا ھے اور اللہ کو انسان سے یہی ادا مطلوب ھے،،بے نیازی صرف اسی ذاتِ بےھمتا کو زیب دیتی ھے،،