دائیں والے اور بائیں والے

سجا کھبے تے پانی پاندا نالے اس نوں ملدا !
جس دی خدمت کرو محمد اوہ کیوں نئیں کردا !
میاں محمد بخش صاحب ایک بہت عظیم نکتہ بیان فرما رھے ھیں جس میں لوگوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دے رھے ھیں کہ سماجی ٹوٹ پھوٹ میں وہ اپنا جائزہ لیں کہ ان کا اور ان کی انا کا کتنا ھاتھ ھے ،، یہ جو گھر گھر ناراضیاں ھیں اس میں میرا کتنا شیئر ھے ،، میاں بیوی ، ساس بہو ،، بہن بھائی ،اور پڑوسی سب اپنے اپنے شیئر کاؤنٹ کریں ، بخدا اگر اس فساد کے اسٹاک ایکسچینج میں سے ھم میں سے ھر بندہ اپنے اپنے شیئر نکال لے تو فساد کی منڈی کا دیوالیہ بول جائے ، اور شیطان گریبان پھاڑ کر کلمہ چوک پر یا حیدری مارکیٹ کے سامنے یا سواں پل پر خود کو آگ لگا لے !

میاں صاحب فرماتے ھین کہ دایاں ھاتھ جسے پشتو والے بھی خئے لس کہتے ھیں ، چوھدری اور پھنے خان ھے ،، قرآن بھی اس کی عظمت کی گواھی دیتا ھے تو حدیث اس کے فضائل بیان کرتی ھے ،، دائیں ھاتھ والے ،، سلامتی ھو تم پر دائیں ھاتھ والے ،، جن کے دائیں ھاتھ میں نامے پکڑائے جائیں گے وہ ایک دوسرے کو بشارتیں سنا رھے ھوں گے ،، نبی کریم ﷺ ھر اچھا کام دائیں ھاتھ سے شروع کرتے ،،دائیں سے کھاؤ ، دائیں سے مسواک کرو ،، دائیں سے پیو ،، مسجد میں دائیاں اندر رکھو ،، گویا دائیں ھاتھ کی آسمان اور زمین دونوں جگہ بلے بلے ھے !
دوسری جانب کھبہ ھاتھ ھے ، بائیاں ھاتھ ،اوڑلے لس ، یہ انسانی بدن کا چوڑھا یا بھنگی ھے ،، ھر گندہ کام اسی کے ذریعے سر انجام دیا جاتا ھے ، اور قیامت کے دن جہنم کا پروانہ بھی اسی ھاتھ میں پکڑایا جائے گا ،، بائیں والوں کی مذمت سے قرآن حدیث بھرے پڑے ھیں،، گویا اس زندگی کی فلم کا ھیرو دائیاں ھاتھ ھے تو ولن بائیاں ھاتھ ھے !
مگر دائیاں اپنی چوھدراھٹ کے باوجود مجبور ھے کہ اپنی صفائی ستھرائی کے لئے بائیں سے تعاون کرے ،جتنا تعاون کرے گا ، اُتنا ھی خود بھی صاف ستھرا ھو گا ،، جتنا بچ بچ کے اور لئے دیئے رھے گا ،،گندہ رھے گا ،
میاں صاحب فرماتے ھیں کہ دائیاں ھاتھ بائیں پر پانی بھی ڈالتا ھے اور اس کو مَلتا بھی ھے ،، تب بدلے میں پانی بھی پاتا ھے اور جوابی مَلنا بھی وصول کرتا ھے ،، اگر کھڑپینچ بن کر بیٹھا رھے کہ میرے فضائل سے قرآن اور صحاح ستہ بھری پڑیں ھیں ،، تو گندہ ھی رھے کبھی صاف نہ ھو !
نبیوں کے سردار ﷺ کی سیرت کا مطالعہ فرمائیں ،، کہ آپ کس قدر معاشرے میں گھل مل کر رھتے تھے ِ بیوؤاں کو سودا سلف لا دیتے تھے، اور مجمعے میں بیٹھے ھوتے تو اجنبی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ اس مجمعے میں نبی کون ھے اور امتی کون ؟ آپ سفر سے واپس آ رھے تھے کہ اسماؓء بنت ابی بکرؓ ، اس حال میں نظر آئیں کہ اپنی بساط سے بڑھ کر وزن اپنے سر پہ رکھے ھانپتی کانپتی چلی جا رھی ھیں ،، آپﷺ نے اپنا اونٹ بٹھا لیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنا وزن اونٹ پر منتقل کر دیں اور اگر چاھئیں تو پیچھے سوار ھو جائیں ،، مگر حضرت اسماء فرماتی ھیں کہ میں نے بوریا تو اونٹ پہ رکھ دیا مگر خود بیٹھتے ھوئے جھجھک گئ ،، آپ ﷺ نے محسوس فرما لیا اور اونٹ کو اٹھا لیا ،،
ھمارا گمان ھے کہ لوگ گنہگار ھونگے ،مگر ھمارا یقین ھے کہ ھم گنہگار ھیں ،، یقین کو گمان پہ فوقیت حاصل ھے ،، لوگوں کے گناھوں سے زیادہ ان کی حاجات کی طرف توجہ دیجئے اللہ پاک آپ کے گناہ بھی معاف فرمائے گا اور حاجتیں بھی پوری فرمائے گا