خمیرہ تصوف جواھر والا

اللہ پاک نے تمام انسانوں کا سسٹم یعنی اندرونی نظام تنفس ،رگوں کا نظام ،ھاضمے کا نظام ،دماغی نظام ،حرام مغز بالوں کا نظام ،جینز ، بیماریاں ،، یہ تمام سسٹم بغیر کسی مذھبی تفریق کے ھر انسان کا ایک جیسا بنایا ھے ، اسی لئے ڈاکٹر حضرات بائی پاس کرتے ھوئے مذھب نہیں پوچھتے کہ مسلمان کی آرٹری کہیں اور ھوتی ھے اور ھندو کی کہیں اور ،، یہ معاملہ نفسیاتی اور طبیعاتی و مابعد الطبیعاتی طور پر بھی ھے ،ھر انسان جب سو جاتا ھے تو تقریباً 90 منٹ بعد اس کا شعور گہری نیند سو جاتا ھے اور تحت الشعور کا دروازہ کھل جاتا ھے ،، شعور کی مثال ایک چشمے یا کنوئیں کی سی ھے جبکہ لاشعور ایک سمندر ھے ،، شعور اگر 220 وولٹ رکھتا ھے تو تحت الشعور 10 ملین کیلون وولٹ رکھتا ھے ،، یہ جب حرکت میں آتا ھے تو ایک لیزر کی مانند ھوتا ھے جو آپ کے ھاتھ کے ریموٹ سے نکلتی اور اے سی کو آن آف کرتی ھے ،، جو آپ کے لیپ ٹاپ پہ لکھے گئے لیٹر کو وائرلیس پرنٹر سے پرنٹ کروا دیتی ھے ،، یہ ایک بچے کی مانند ھوتی ھے کبھی تو انسانی دماغ کے اندر ھی پینٹ اپلیکیشنز کو استعمال کر کے یادوں کے ٹکڑوں کو فوٹو شاپ کر کے خواب بناتا ھے ،، اور کبھی کبھار خلا میں بھی نکل جاتا ھے ،، سچے خواب عموماً تحت الشعور یا لا شعور کی باھر کی سیر پر مشتمل ھوتے ھیں یہ لائٹ کی رفتار سے بھی تیز حرکت کرتا ھے ،، سچے خواب چاھے مسلمان کے ھوں یا غیر مسلم کے ھوں ان کا مخاطب یہی لا شعور ھوتا ھے ، اور سچا خواب زیادہ تر یاد رھتا ھے کیونکہ وہ اس میں ڈاؤن لؤڈ ھوتا ھے اور محفوظ ھو جاتا ھے ، جبکہ خود یہ جو فوٹو شاپ کرتا ھے وہ جونہی شعور جاگتا ھے یہ جھٹ سے ان کو توڑ پھوڑ دیتا ھے یا نیچے رکھ کر اوپر بیٹھ جاتا ھے ،،،
اب مافوق الطبیعات کے ماھرین چاھے ان کا تعلق کسی مذھب سے ھو ، اسی جن کو قابو میں کرنے کی مشقیں کرتے ھیں،، ساری مشقوں کا مقصد وہ مہارت پیدا کرنا ھے جو اس لاشعور کو عین اپنے بل سے باھر نکلے ھوئے اس حالت میں اپنے کام کے لئے استعمال کرنا ھے کہ اسے پتہ بھی نہ چلے کہ آپ کا شعور جاگا ھوا ھے اور وہ آپ کی کمانڈ کو اپنی سوچ سمجھ کر اس پہ عمل کرتا چلا جائے ،، یہ "ما بین الیقظہ النوم ” یعنی نیند اور جاگ کے درمیان Grey ایریا ھے ،کہ آپ جاگے بھی نہ ھوں اور سوئے بھی نہ ھوں ،، یہ مہارت حاصل کرنے میں 10 – 10 سال لگ جاتے ھیں ،، اور بڑی اذیت سے گزرنا پڑتا ھے ،کئ لوگ اس رستے میں پاگل ھو جاتے ھیں ،،
اس کے چند اصول ھیں جو تمام لوگوں پہ یکساں اثر کرتے ھیں !
1- قلتِ منام ،،،،،، یہ دین کے اصول پہ نہیں بلکہ مشق کی ضرورت کے تابع ھے
2- قلتِ طعام ،، یہ بھی اس مشق کی ضرورت ھے ،،،،،،،،،،،
3- اور قلتِ کلام ،،،،،،،، یہ بھی اس مشق کے لئے ضروری ھے ،،،،،،،،
قلتِ منام میں آپ ھر وقت نیند کے غلبے کی کیفیت میں رھتے ھیں لہذا جب آپ کو مشق کرنی ھوتی ھے تو نیند سولی پہ بھی آ جاتی ھے کہ اصول پر آپ کو انتہائی مشکل لوکیشن پہ بھی جھٹ نیند میسر آ جاتی ھے ،،
قلتِ طعام کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ خالی پیٹ یہ نیند آ تو جاتی ھے مگر گہری نہیں ھوتی ،،
اپنے آپ کو گہری نیند سونے سے بچانے کے لئے کسی کھائی کے کنارے یا کسی کنوئیں کے کنارے یا اندھے کنوئیں میں لٹک کر یا بلند درخت جیسے ناریل کے درخت پہ یا پھر پانی میں کھڑے ھو کر مراقب ھوا جاتا ھے تا کہ گرنے کا ڈر گہری نیند پہ غالب رھے ، دوسری جانب سونا بھی ضروری ھے کیونکہ شعور کے سوئے بغیر لاشعور متحرک نہیں ھوتا ،، آئستہ آئستہ انسان اس مقام پہ پہنچ جاتا ھے کہ ادھر اس کا لاشعور متحرک ھوا ، ادھر شعور بھی جاگ گیا ،، مگر لاشعور کو پتہ نہ چلنے دیا اور سوتے میں ھی دل میں سوچا کہ فلاں جگہ چلتے ھیں ،آپ کی سوچ بیک وقت لاشعور میں بھی پیدا ھوتی ھے وہ آپ کی سوچ کے لئے شیشہ ھوتا ھے ،، لاشعور اس کو اپنی سوچ جان کر زقند لگاتا ھے اور سیکنڈ کے ھزارویں حصے میں اس جگہ جا پہنچتا ھے اور آپ اس کا دم چھلا بنے سب دیکھ رھے ھوتے ھیں ،، گویا جاگتی آنکھوں کا خواب شروع ھو گیا جبکہ لاشعور اس کو عام خواب سمجھ رھا ھے ،، ماھر استاد کی زیرِ نگرانی قریب قریب کے فاصلے طے کیئے جاتے ھیں عالمِ مثال کی طرف اڑان کا مرحلہ بہت بعد میں جا کر آتا ھے ،، اس علم کے بھی اسی طرح درجات ھیں جس طرح پرائمری ،مڈل ، ھائی اسکول اور کالج اور پھر گریجویشن ھوتی ھے ،، جب کوئی بندہ مشق کے اس مرحلے پہ پہنچ جاتا ھے کہ لاشعور کو خبر لگے بغیر جاگ لیتا ھے تو سمجھ لیں کہ وہ ولایت کی پہلی سیڑھی چڑھ جاتا ھے ،، اصلی سمندر ابھی آگے طے کرنا ھوتا ھے ،،،،

چلہ کشی کے لئے خوفناک جگہوں کا انتخاب اسی مقصد کے لئے کیا جاتا ھے کہ لوگ ایسی جگہوں پہ آنے سے کتراتے ھیں یوں آپ کو خلوت میسر رھتی ھے ،، لوگ غریب ھوا کرتے تھے اور حویلیاں اور محلات کسی کو نصیب نہ تھے کہ وہ اپنی چلہ کشی کے لئے کمرے مختص کرتے ، بعد میں سہولیات میسر آ جانے پر اھل مدارس اپنے حجروں میں یہ مشقیں کرنے لگے مگر اس میں بھی پابندی یہ تھی کہ شیخ کو نماز کے وقت بھی ڈسٹرب نہیں کیا جائے گا ،، شیخ دو دو دن حالتِ سکر میں بے سُدھ پڑے رھتے اور "لا تقربوا الصلوۃ حتی تعلموا ما تقولون” کی دفعہ کے تحت نماز سے معذور ھوتے ،، عالم بالا کی سیر کے دوران اگر چلہ کش کو چھیڑ دیا جائے تو اس کی موت بھی واقع ھو سکتی ھے اور جنون بھی لاحق ھو سکتا ھے ،، جس طرح ٹیک آف کیا تھا اسی ترتیب سے لینڈنگ ھو گی تو سلامتی ھے ورنہ کریش لینڈنگ سب کچھ تباہ کر دے گی،، آپ جس کے پیچھے گئے تھے واپسی کا رستہ بھی اسی کو پتہ ھے ، آپ نے اسی کا دامن پکڑے رکھنا ھے ،آپ کی کسی حرکت کی وجہ سے اگر لاشعور کا تراہ نکل جائے تو وہ تو جھٹ سے اپنی جگہ آ پہنچے گا مگر آپ ( شعور ) وھیں رہ جائیں گے اور پھر مجذوب کہلائیں گے ،، جس طرح ریڈیو کا ایریل مراحل میں کھلتا ھے پہلے موٹا پھر اس میں سے پتلا پھر اس سے بھی پتلا حصہ باھر نکلتا ھے ، اسی طرح واپس بند بھی ھوتا ،، لطائفِ سبعہ یہی کام کرتے ھیں قلب سب سے موٹا حصہ ھے جس سے باقی لطائف منسلک ھیں ،، یہ شعور کو فیول فراھم کرتے ھیں اور ملٹی اسٹیجز فیول ٹینک کا سا کام کرتے ھیں ،، عالم بالا ایک بازار ٹائپ جگہ ھے آپ اگر کسی بڑے شاپنگ مول میں گئے ھوں جہاں درجنوں بڑی بڑی اسکرینیں لگی ھوں جن پر مختلف پروگرام دکھائے جا رھے ھوں جدھر نظر اٹھے قد آدم تصویریں دوڑتی پھر رھی ھوں ،، جہاں پہلے زمانوں کے ریکارڈ شدہ ویڈیو کلپس کی بھر مار ھے ،، یہاں چہل پہل نظر آتی ھے اگر مسلمان شخصیات وھاں نظر آتی ھیں تو ٖدیگر اقوام اور مذاھب کے لوگ بھی بے شمار ھیں بالکل دبئ کا سا منظر ھے جہاں ھر نیشنلٹی اور ھر مذھب کا بندہ منہ لگتا ھے ،،مگر وہ سب ماضی کا ریکارڈ ھے ،، ھمارے صوفیاء نے جب اس بازار میں ھندو اور سکھ یوگیوں کو بھی مٹر گشت کرتے دیکھا تو ان میں سے مذھبی تعصب نکل گیا اور انہوں نے سمجھا کہ حقیقت یہ ھے کہ سارے مذاھب ھی ٹھیک ھیں ،، دلیل اس کی یہ ھوئی کہ جب ان کی رسائی بھی عالمِ بالا تک ھو گئ تو پھر ھم میں اور ان میں فرق کیا ھے ؟
دُوئی دور کرو کوئی شور نئیں !
اے تُرک ھندو کوئی ھور نئیں !
سب سادھ کہو کوئی چور نئیں !
ھر گھٹ وچہ آپ سمایا اے !
مولانا اشرف علی تھانوی کے بقول ھمارے اکابر غیر مسلموں کو بھی بیعت کر لیتے تھے مگر میں نہیں کرتا کیونکہ جب اس کو رسائی حاصل ھو جاتی ھے تو وہ اسلام کو غیر ضروری سمجھ لیتا ھے کہ اسلام کے بغیر بھی ولایت پائی جا سکتی ھے ،
یہیں پر نبئ کریم ﷺ اور بعض صحابہؓ سے ملاقات بھی ھو سکتی ھے ،، کیونکہ ان کے اعمال بھی ریکارڈڈ دستیاب ھیں ،، میں نے اکثر نبئ کریم ﷺ اور ابوبکر صدیقؓ کو اکٹھے ھی پایا ھے ،، آج یہ بات آپ کے لئے معلوم ھے مگر آج سے دو چار صدیاں پہلے کا سوچیں جب ویڈیو کلپس اور چلتی پھرتی تصویروں سے دنیا آگاہ نہیں تھی تو اس عالم بالا کے بازار تک رسائی پانے والے دنیا کے عام لوگوں کو کس قدر محروم اور حقیقت سے نابلد سمجھتے ھونگے اور اپنے مرشد کو کیا چیز سمجھتے ھونگے جس نے انہیں لے جا کر نبئ کریم ﷺ کے سامنے کھڑا کر دیا ،صوفیانہ شاعری میں مرشد کے قصیدے اسی شکرانے کا مظھر ھیں ،،
تن میرا جے چشمہ ھووے تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ھُو !
لو لو دے مُڈھ لکھ لکھ چشماں ،میں اک کھولاں اک کجاں ھُو !
ایہناں ویکھیاں مینوں صبر نہ آوے تے میں ھو کدے ول پہجاں ھُو !
مرشد دا دیدار ھے باھو، مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھو وووووووووووو !
اس بازار تک رسائی ان حضرات کی زندگی بھر کی کمائی تھی اور یہی ان کی معراج تھی ،، آپ آج اس کی حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ھیں ،،
عالمِ مثال کا یہ دنیاوی رخ ھے جہاں ماضی کی شخصیات اور احوال دیکھے جا سکتے ھیں ،جبکہ عالمِ مثال کا وہ رخ بھی ھے جہاں زمین پر نازل ھونے سے پہلے حوادث اسی طرح نمودار ھوتے ھیں جس طرح بارش زمین پر برسنے سے پہلے آسمان پر نمودار ھوتی ھے ،، یہ عالمِ خواب ھے سچے خواب اسی رخ تک رسائی کا نتیجہ ھوتے ھیں کہ کسی دن لاشعور وھاں جا نکلا اور مستقبل کے کسی واقعے کی خبر کو بریک کر دیا ،، عالم مثال کو پڑھ لینے کا نام غیب دانی نہیں جنات اکثر وھاں پائے جاتے ھیں ،، جس غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ غیب جبرائیل سمیت سب سے غائب ھے ،، جو کہں کسی شعبے کو Flash کر دیا جاتا ھے وہ اس غیب کے زمرے سے نکل جاتا ھے کیونکہ موت سے متعلق ایک سال کا علم عزرائیل کو بھی دے دیا جاتا ھے ، رزق کے فرشتے کو بھی سال کا ڈیٹا فلیش کر دیا جاتا ھے ،، وھاں بیت اللہ کی سافٹ کاپی بھی دستیاب ھے جس کو صوفیاء حقیقتِ کعبہ کہتے ھیں حالانکہ وہ ماضی کے طواف کی ریکارڈنگ کے سوا کچھ نہیں ،جس میں کعبہ کی ماضی کی صورت موجود ھے جس میں ریتلے اور تنگ مطاف میں لوگ طواف کر رھے ھیں ، اسی طرح مسجدِ نبوی کی پرانی صورت اور لوگ نماز ادا کرتے نظر آتے ھیں ،،
چلہ کشی کے دوران ورد اور وظیفے ھر مذھب کے اپنے اپنے ھیں ،، ھمارے بزرگ اگر اللہ اللہ کرتے رھتے ھیں کہ جب تک نیند آتی اللہ کا نام لے لیا جائے تو ھندو اتنی دیر رام رام کرتے رھتے ھیں ،، ان اوراد کو کوئی کمال نہیں ،ایک شخص فرض نماز چھوڑ کر کھڑا ھے ،اللہ کے گھر سے فرار اختیار کر کے کھڑا ھے ،، اللہ نے کہیں اور بلایا تھا وہ کہیں اور پایا جاتا ھے تو اس میں صرف اللہ اللہ کر کے وہ کیسے اللہ کو راضی کر لے گا ؟ نبئ کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ میرا جی چاھتا ھے کہ میں بلال کو اقامت کے لئے کہوں اس کے بعد جتنے لوگ گھروں میں پائے جائیں میں ان گھروں کو ان سمیت جلا دوں ،مگر یہ بچوں اور عورتوں کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا ،، تو عرض یہ ھے کہ کمال ارتکاز کا ھے ،، یہ کوئی رب کی رضا کی دلیل نہیں ،،،،،،،،
(جاری ھے )