خلافت بمقابلہ جمہوریت (وائرل تحریر پر تبصرہ)

یہ وہ تحریر ہے جو میرے ایک دوست نے وٹس ایپ پر مجھے بھیجی جس پر مجھے اپنی تاریخ کا حقیقی چہرہ دکھانا پڑا۔
کیونکہ خطبوں میں اپنی تاریخ کے چند واقعات کو بچپن سے بڑھاپے تک سن سن کر ہمیں ہیضہ ہو جاتا ہے
< خلافت بمقابلہ جمہوریت (Democracy) >
اللہ کے نازل کردہ قوانین اللہ کی قائم کردہ حدود ہیں
اور جمہوریت مغربی کفریہ نظام ہے جس میں تمام قوانین انسان کے بنائے ہوے ہیں اور انسان کو اختیار ہے کہ وہ اس میں اپنی مرضی سے رد و بدل کر سکتا ہے جبکہ قرآن میں ہے ”ان الحکم اللّٰہ“ حکم جو صرف اللہ کا ہے ۔ ووٹ ڈالنا اس نظام کا حصہ بننا قطعاً اسلام نہی ہے۔
(یہی دلیل خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف استعمال کی تھی جس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا تھا کہ حکم یعنی ریفری یا جج تو اللہ پاک نے خود قرآن میں بنانے کا حکم دیا ہے کہ ایک پنچایتی مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے لے کر فیصلہ کراؤ، اسی آیت کے مطابق ہمارے عائلی قوانین میں مصالحتی کمیٹی بنائی گئی ۔ق ح۔ڈ )
جمہوریت میں کوئی بھی قانون چاہے دینی ہو یا شہری ہو اس وقت تک نافذ العمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ پارلیمنٹ اس کو اکثریتی ووٹوں سے پاس نہیں کرتی اس کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ چاہے تو اللہ کے کسی بھی حکم کو اکثریت نہ ہونے کی بنا پر رد کر سکتی ہے اور یہ جرّات صرف جمہوری نظام میں ممکن ہے کیوں کہ پارلیمنٹ کے نمائندے عوام کی اکثریت سے منتخب ہوتے ہیں لہذا اس کفر میں عوام بھی برابر کی شریک ہوتی ہے۔
(یہ ایک فرضی الزام ہے ۔ق،ح،ڈ)
جب کے ایک اسلامی ملک جس کی بنیاد کلمہ حق پر رکھی گئی ہو وہاں الله کا قانون ہر صورت میں نافذ العمل ہونا چاہیے الله نے اسلام کو” دین حق ” قرار دیا ہے –
اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا
سورۃ 17 بنی اسرئیل – آیت 81
یعنی 1400 سال پہلے اللہ نے جو دین اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا تھا اس کا ہر حکم قیامت تک کے لئے نافذ ہو چکا، اب انسانوں کو اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ اللہ کے احکامات کو اکثریتی بنیادوں پر قبول یا رد کر سکیں اب ہر صورت میں اس کے آگے سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے
-اللہ تعالی نے فرمایا:-
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی تو ظالم ہیں، فاسق ہیں، کافر ہیں۔
سورۃ 5 المائدة – آیت 44 + 45 + 47
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ آیات یہود و نصاری کو کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنی اپنی کتاب یعنی تورات اور انجیل کے مطابق فیصلے کریں ،قران کھول کر پڑھ لیجئے ان آیات کو اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر یہ آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی کتابوں کے مطابق نہیں بلکہ قرآن کے مطابق فیصلہ کریں،ق،ح،ڈ)
لیکن جمہوریت ہی ایسا طرز حکومت ہے جس میں عام عوام سے لے کر حکمران طبقے تک فیصلے کا اختیار اکثریتی بنیاد ہے چاہے وہ الیکشن کے بعد ہو یا بعد میں پارلیمنٹ کا اندر ہو اور یہ اکثریتی بنیاد سرا سر اللہ کے احکمات سے بغاوت پر مبنی ہے
(دین میں بھی” جمہور علماء کی رائے ” نامی امرت دھارا بھی جمہوریت کا ہی اصول ہے)
جمہوریت یہود و نصاری کا دین ہے یہ لوگ ہر وقت ہر لمحہ اس کی ترویج اور اشاعت میں لگے رہتے ہیں تا کہ کسی نا کسی طر ح مسلم ممالک میں اس کا نفاذ کر کے لوگوں کو الله کی بغاوت پر امادہ کریں۔
جب کہ قرآن میں الله کا واضح فرمان ہے –
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو صاف کہہ دوکہ راستہ بس وہی ہے، جو اللہ نے بتایا ہے ورنہ اگراُس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لیے نہیں ہے
سورۃ 2 البقرة – آیت 120
خلافت اور جمہوریت میں کیا فرق ہے ؟؟؟
1- خلافت میں خلیفہ کو منتخب کرنے کا اختیار اہل علم کو ہوتا ہے
جس طرح حضرت عمر ؓ نے شہادت سے کچھ دیر پہلے 6 لوگوں کی ایک ٹیم بنائی اور کہا کہ آپس میں مشورہ کرنا اور تم چھ میں سے کوئی ایک خلیفہ بن جانا اور میرے بیٹے عبداللہ کو مشورے میں شامل کرنا مگر اس کو خلیفہ نہ بنانا
جب کہ جمہوریت میں ہر جاہل کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنا حکمران چن لے
جس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ جس بندے کے فالوورز زیادہ ہوں گے وہ حاکم بن جاۓ گا چاہے وہ حکومت کرنے کا اہل ہو یا نہ ہو
2- خلافت میں جب بھی کوئی نیا قانون بنانا ہو یا ملک پر کوئی مشکل پیش آۓ تو قرآن و حدیث کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے
جب کہ جمہوریت میں قرآن کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے بس اسمبلی میں بیٹھے لوگوں سے ووٹنگ کروائی جاتی ہے اور جس بات پر زیادہ لوگ ووٹ دیں اس قانون کو پاس کر دیا جاتا ہے چاہے وہ اسلام کے خلاف ہی کیوں نہ ہو
3- خلافت میں عورت حکمران نہیں ہو سکتی جب کہ جمہوریت میں ہو سکتی ہے
4- اسلام پارٹی بنانے کے سخت خلاف ہے اور یہاں تک حکم ہے کہ جب ایک خلیفہ کی بیعت ہو جاۓ اور پھر کوئی دوسرا اپنی بیعت کو آۓ تو اسے قتل کر دو (صحیح المسلم – 4776)
جب کہ جمہوریت میں ایک وقت میں اتنی پارٹیاں ہوتی ہیں کہ اگر کوئی وزیراعظم بن جاۓ تو اس کے خلاف سازشیں شروع ہو جاتی ہیں تا کہ اگلی دفعہ لوگ اس کو ووٹ نہ دیں
5- خلافت میں طاقت کا سر چشمہ اللہ ہے اور جمہوریت میں عوام ہے
اگر ایک ملک میں 49 پڑھے لکھے اور قابل لوگ ہیں اور 51 جاہل اور شرابی ہیں تو حکومت اس کی ہو گی جس کو وہ جاہل لوگ چن لیں گے کیونکہ ان کے پاس 2 ووٹ زیادہ ہیں
جمہوری ووٹ میں مسلم اور کافر برابر ہوتے ہیں جبکہ اللہ کا ارشاد ہے :-
بھلا یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص مومن ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جائے جو فاسق ہو؟ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے
سورۃ 32 السجدة – آیت 18
جمہوری ووٹ میں عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں جبکہ اللہ کا ارشاد ہے :-
علم رکھنے والے اور علم نا رکھنے والے دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے ہیں
سورۃ 39 الزمر – آیت 9
جمہوری ووٹ میں نیک اور بد برابر ہوتے ہیں جبکہ اللہ کا ارشاد ہے :-
بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہمیشہ اللہ کی رضا پر چلنے والا ہو وہ اُس شخص کی طرح ہو جو اللہ کے غضب میں گھر گیا ہو اور جس کا آخری ٹھکانا جہنم ہو جو بدترین ٹھکانا ہے؟
سورۃ 3 آل عمران – آیت 162
اب آتے ہیں ہماری جمہوریت کی مذہبی جماعتوں کے دلائل کی طرف
بریلویوں کی علامہ خادم حسین رضوی والی پارٹی ہو، دیوبندیوں کی مولانا فضل الرحمان والی پارٹی ہو، اہلحدیثوں کی پروفیسر ساجد میر والی پارٹی ہو یا جماعت اسلامی ہو
یہ سب لوگ جمہوریت کو جائز قرار دینے کیلئے جو دلائل دیتے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں
1- اسلام میں مشورے کیلئے مجلس شوریٰ ہوتی ہے اسی طرح جمہوریت میں بھی پارلیمنٹ میں جو مشورے اور ووٹنگ ہوتی ہے وہ شوریٰ کی طری ہی ہے
جواب:-
ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﺎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭﮐﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﮨﮯ ﺷﻮﺭﯼ ﺻﺮﻑ ﻣﺒﺎﺡ ﺍﻣﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﺣﺰﺍﺏ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻌﮯ ﭘﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻗﻠﻌﮧ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻟﮍﯾﮟ ﯾﺎ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺒﺎﺡ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﺻﻠﺢ ﺣﺪﯾﺒﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﻣﺸﻮﺭﮮ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮩﺎﮞ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﻭﺣﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﺷﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺸﻮﺭﮮ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﻣﯿﮟ دو تہائی ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﺎﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﻔﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺴﻖ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﻧﮯ ﺳﻮﺩ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺗﮩﺎﺋﯽ ﺍﮐﺜﺮﯾﺖ ﺳﮯ ﺭﺍﺋﮯ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺳﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﮐﻮ ﺷﻮﺭﯼ ﺳﮯ ﺗﺸﺒﯿﮧ ﺩﯾﻨﺎ ﯾﺎ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﺷﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻧﮩﯿﮟ
2- چونکہ پاکستان میں نمازپڑھنے، اذان دینے، روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے کی آزادی ہے اس لیے یہ ایک اسلامی ریاست ہے
جواب:-
کیا اسلام صرف نماز، روزے، اذان اور قرآن پڑھنے کا نام ہے؟ ان چیزوں کی اجازت تو امریکہ، برطانیہ، اور انڈیا میں بھی ہے کیا وہ بھی اسلامی ریاستیں ہیں؟ مکمل اسلام کہاں ہے؟ اسلام کا معاشی نظام جو سود سے پاک ہو، بے حیائی سے پاک معاشرتی نظام، حدود، تعزیرات کی بنیاد پر عدالتی نظام، نیکیوں کا فروغ اور منکرات کا خاتمہ، جہاد کی فرضیت وغیرہ یہ سب کہاں ہیں؟
یہاں وہ جواب دیں گے : "ٹھیک ہے یہ سب نافذ نہیں ہیں، مان لیا، اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دیا جائے تاکہ ہم حکومت میں آ کر مکمل اسلام نافذ کر سکیں۔” قصہ مختصر ان کی بات کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے :
"جمہوریت اسلام سے ہے۔ اگر کوئی حکومت اسلام نافذ نہیں کررہی ہے تو عوام کو ہماری جماعت کو منتخب کرنا چاہیے تاکہ ہم اقتدار میں آکر مکمل اسلام نافذ کرسکیں۔”
اب دیکھیے : ان کی یہی دلیل خود ان کے خلاف جاتی ہے اور جمہوریت کو خلافِ اسلام ثابت کرتی ہے۔ کیسے ؟
دیکھیے وہ خود کَہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس دو آپشن موجود ہیں :
1۔ وہ اسلام نافذ کرسکتی ہے۔
یا
2۔ وہ اسلام نافذ نہیں کر سکتی۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسلام آپ کو آپشن نمبر 2 اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اگر ہاں تو اس کی شرع سے دلیل کیا ہے؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام ہرگز ہرگز اسلام کے سوا راستہ اختیار کرنے کا آپشن نہیں دیتا۔ اور اسے دنیا و آخرت کی رسوائی قرار دیتا ہے۔ (سورۃ 4 النساء – آیت 115)
کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ایسا نظام جس میں ہم آپشن 1 یا 2 میں سے کوئی ایک آپشن اختیار کرسکیں وہ پھر بھی اسلامی ہے؟ حکومت کو یہ آپشن 2 انتخاب کرنے کا اختیار کس نے دیا ؟ کیا جمہوری نظام نے؟ اگر ہاں تو پھر کیا ایسا نظام، جو خود اسلام نافذ نہ کرنے کا اختیار دے، وہ اسلامی ہوسکتا ہے؟
3- پارلیمنٹ غیراسلامک قانون بنا رہی تو اچھے لوگوں کو آگے لاؤ تاکہ وہ کچھ اسلامی قانون بنائیں
جواب:-
یعنی ان کا ماننا ہے کہ اگر اسمبلی میں ہمارے علماء پہنچ جائیں تو مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا یہ نظام خود بخود ہی مسلمان ہو جائے گا۔
وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اصل مسئلہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ نہیں یہ پارلیمنٹ ہے، یعنی ہمارا اصل اختلاف ہی یہی ہے کہ لوگوں کے ہاتھ میں اللہ کا اختیار حرام و حلال اور قوانین بنانے کا کیوں دیا جائے پھر چاہے وہ عمران، نواز، بلاول ہو یا کوئی حضرت علامہ مولانا ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسے رب بنا کر کفر تو دونوں صورتوں میں ہوگا۔
عدی بن حاتم‌ رضی اللہ عنہ (عیسائی سے مسلمان ہوۓ تھے) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے پاس آیا تو میری گردن میں سونے كی ایک صلیب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عدی اس بت کو پھینک دو، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سورۃ التوبة – آیت 31) کی تلاوت فرمائی
ترجمہ:- "انہوں (عیسائیوں) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے”
میں نے كہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے کبھی اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہیں كہ عیسائی ان كی عبادت كرتے ہوں، بلكہ معاملہ اس طرح تھا كہ جب ان کے علماء اور درویش كسی چیز كو حلال كرتے تو وہ لوگ بھی اسے حلال سمجھنے لگتے اور جب ان پر كسی چیز كو حرام كرتے تو وہ بھی اسے حرام سمجھتے
سلسلۃ الصحیحہ – 965
یعنی پچھلی امتوں نے بھی حرام و حلال کا اختیار اپنے نیکوکاروں ہی کو دیا تھا برے لوگوں کو نہیں، انہوں نے طاغوت اپنے علماء اور درویشوں کو بنایا اور وہ اس پہ راضی بھی تھے۔
یہی اسلامی جمہوریت والے آج کرنا چاہتے ہیں کہ بظاہر نیک لوگوں کو پارلیمنٹ پہنچاؤ مسئلہ ہی ختم، پھر تو جمہوریت ہی اسلامی ہو جائے گی اور کوئی کفر وشرک نہیں۔
جبکہ جب کوئی انسان کسی کو اپنا ووٹ قانون ساز بنانے کیلئے دے تبھی اس نے اللہ کی حاکمیت میں شرک کیا، یہ دیکھا ہی نہیں جائے گا کہ کس کو دیا۔
واللہ اعلم
اور اُس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے
سورۃ 32 السجدة – آیت 22
منقول ۔