حیض اور روزہ پارٹ ون اور ٹو

اللہ پاک نے جب رمضان کے روزے فرض کیئے تو ان سے صرف استثناء دو صورتوں میں دیا ، فمن کان منکم مریضاً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر ،، اگر تم میں سے کوئی بیمار ھو یا سفر پر ھو تو چھوڑے ھوئے روزے باقی دنوں میں رکھ کر گنتی پوری کر لے ؛ تیسری کوئی صورت نہیں یہانتک اس کے بعد جب حکم دیا کہ ’’ تم میں سے جو بھی رمضان کے مہینے کو پائے تو لازم روزہ رکھے ، فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ، یہاں پھرصرف بیمار اور مسافر کو چھوٹ دی گئ کہ وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں ، ایام والی عورت نہ تو مریض ھے اور نہ مسافر پھر وہ اللہ کے حکم ’’ فلیصمہ ‘‘ سے کیسے مستثناء ھو گئ ؟ عدم طھارت کی وجہ سے وہ نماز تو نہیں پڑھے گی کیونکہ نماز کا وقت گزرنے تک وہ چاہ کر بھی طھارت نہیں پا سکی جو کہ نماز کی شرط ھے لہذا اس وقت کی نماز اس پر فرض ہی نہیں ھوئی ،چنانچہ قضا کرنے کا حکم بھی نہیں دیا گیا ـ روزے میں طھارت شرط نہیں صرف روزے کی نیت اور کھانے پینے اور جماع سے پرھیز کا نام روزہ ہے ، طرفہ تماشا یہ ہے کہ جس عبادت کو یہ وقت پر ادا کرنا حرام قرار دیتے ہیں ،اس کی قضاء کا حکم بھی دیتے ہیں ،بھلا حرام کی قضاء کیونکر ھو گی؟ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ھے مگر اس کی قضا نہیں رکھی گئ ،،
حبل اللہ ویب سائٹ کے مطابق ایام کی حالت کو بیماری سمجھ کر عورت کو اس میں چھوٹ دی گئ ھے کہ وہ چاھے تو روزہ چھوڑ سکتی ھے ، البتہ رکھے تو بہتر ھے ،،
ان کی دلیل یہ ھے کہ نماز طھارت سے مشروط ھے اور چونکہ ایام میں طھارت حاصل نہیں ھوتی لہذا نماز فرض بھی نہیں ھوتی ،، البتہ روزہ فرض ھو جاتا ھے کیونکہ روزہ بس تین چیزوں کا تقاضا کرتا ھے اور تینوں کے ساتھ طہارت کا کوئی لینا دینا نہیں ،، نفوس کو روزے کی نیت سے ،،
کھانے سے روکنا ـ
پینے سے روکنا ـ
جماع سے روکنا ـ
اور یہ تینوں چیزیں ایام کے دوران بھی قابل عمل ہیں ،،
ویب سائٹ کے مطابق اللہ پاک کے کلام اور رسول اللہ کے کلام میں لفظ قضا ھمیشہ یا اکثر ادا کے معنوں میں استعمال ھوا ھے ،، مگر بعد کے فقہاء نے اس کو بالکل الٹ استعمال کیا ھے ،، فاذا قضیتم مناسککم ،، کا مطلب ھے جب تم وقت پر اپنے مناسک ادا کر لو ،، اسی طرح فاذا قضیت الصلوۃ کا مطلب ھے کہ جب تم جمعے کی نماز ادا کر لو نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں قضا کر لو ،، موسی علیہ السلام نے جب مکا مارا تو قضی علیہ ،، قصہ چکا دیا بندہ بھگتا دیا ، مار دیا فارغ کر دیا ،، نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں قضا کر دیا ،، فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ (29) فلما قضی یعنی جب ختم ھو گیا یعنی ادا ھو گیا نہ کہ مستقبل کے لئے لٹکا دیا گیا ،،
انہی معنوں میں حضرت عائشہؓ نے ایک عورت کو جواب دیا کہ نماز ھم کو نماز ادا کرنے کا نہیں کہا جاتا تھا مگر روزے کو ادا کرنے کو کہا جاتا تھا ،،
اذی بمعنی حرج اور مرض استعمال ھوتا ھے بطور گندگی کبھی استعمال نہیں ھوتا ،،(ولا جناح عليكم إن كان بكم أذى من مطر أو كنتم مرضى أن تضعوا أسلحتكم ) النساء
اورتمہیں کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے کوئی حرج ھو یا تم بیمار ھو تو اسلحہ اتار سکتے ھو ـ یہ اذی اصل میں اردو کا لفظ اذیت ھے ،،
[ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ] البقرہ 196
جب تک قربانی اپنے محل کو نہ پہنچ جائے تم اپنے سر مت منڈاؤ۔پھر جب کوئی تم میں سے مرض میں مبتلا ھو جائے یا اس کو سر میں اذیت لاحق ھو جائے( جوئیں وغیرہ) تو سر منڈھا کر فدیئے میں روزے رکھ لے یا صدقہ دے یا قربانی ،،
ويسألونك عن المحيض قل هو” أذى ” فاعتزلوا النساء في المحيض ولا تقربوهن حتى يطهرن فإذا تطهرن فأتوهن من حيث أمركم الله إن الله يحب التوابين ويحب المتطهرين..
آپ سے ایام والی کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہہ دیجئے کہ یہ ایک اذیت ناک مرحلہ ھے تو عورتوں سے ایام میں الگ رھو اور جب تک وہ اس سے پاک نہ ھو جائیں ان کے قریب مت جاؤ ، یہاں قریب مت جاؤ سے مراد خون کی جگہ کے قریب مراد ھے کیونکہ رسول اللہﷺ سے عملی طور پر یہی ثابت ھے ،،
جس طرح احتلام مرد کے بس میں نہیں خود سے ہو جاتا ھے ، اسی طرح حیض بھی عورت کے بس میں نہیں خود سے ہو جاتا ہے ـ مرد کو احتلام ہو جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ،بہت معصوم ہے بیچارہ ،، عورت ۱۷ گھنٹے کا روزہ رکھے بس پندرہ منٹ پہلے ایام شروع ھو جائیں تو اس کا روزہ کالعدم ھو گیا ، اب یہ دوبارہ رکھے گی ، حالانکہ خون نکلنے کی نسبت شہوت سے منی کے نکلنے سے روزہ ٹوٹنا اولی ہے ، مگر مرد کو ڈسکاؤنٹ دی گئ ہے کہ چونکہ یہ اس کے بس میں نہیں تھا ، البتہ عورت بد نیتی سے ایام لے کر آئی ہے ؟ ۔ـ عورت پرایام میں روزہ رکھنا باقاعدہ حرام کیا گیا ،رکھے گی تو گناہگار ہو گی ، اس لئے جونہی بیمار ھو گی روزہ ٹوٹ جائے گا ،اگر دس منٹ بھی جاری رکھنے کی نیت کرے گی تو گنہگار ھو ،کیسے کیسے ظالم اجتہاد ہیں اور دلیل صرف اجماع ہے ،کتاب و سنت سے کوئی دلیل نہیں ـ سوال یہ ھے کہ اگر ایام بیماری ہیں تو بیمار کے لئے روزہ چھوڑنے کی اجازت ھے جبکہ روزہ رکھنا حرام نہیں ھے رکھے تو ھو جاتا ھے ،اسی طرح مسافر کے لئے بھی چھوٹ ھے کہ روزہ چھوڑ سکتا ھے مگر روزہ رکھے تو ھو جاتا ھے ،اگر حیض بیماری ھے تو عورت کو یہی سہولت دستیاب کیوں نہیں ؟ اس پر روزہ رکھنا حرام کس آیت ،کس حدیث میں کہا گیا ہے ؟؟ ایام میں روزہ رکھنا بھی حرام ،اور کھانا پینا بھی حرام ،، کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ؟ عورت کا ۱۷ گھنٹے کا روزہ جب ٹوٹ گیا تو پھر وہ کھائے پیئے کیوں نہ ؟؟ جس طرح نماز ٹوٹ کر ختم ھو جاتی ھے اسی طرح روزہ بھی ٹوٹ کر ختم ھو جاتا ھے ،عورت کے لئے سب کے سامنے کھانا تو درست فعل نہیں ،مگر چھپ کر کھانے سے اس کو کونسی آیت کونسی حدیث روکتی ھے ؟ روزہ بھی نہ رکھے ،اور کھائے پیئے بھی ناں ،، عورت کی سزا کے بہت سارے طریقے ایجاد فرمائے ہیں مجتھدین نے جزاھم اللہ خیرا
نماز میں طھارت شرط ھے لہذا نماز سے روکا گیا تو معاف بھی کر دیا گئ ،، روزے کے لئے طھارت شرط نہیں نبئ کریم ﷺ نے حالتِ جنابت میں روزہ رکھا ،، اس ضمن میں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت زینبؓ سے مروی احادیث کے تین چار مطلب نکلتے ہیں ، مجتھدین نے بس ایک کو اخذ کر کے حرمت ایجاد فرما لی ـ سوال یہ ھے کہ قضاء ہمیشہ فرض کی ھوتی ھے ، جب روزہ اس پر فرض ہی نہیں بلکہ حرام ھے جس طرح عید کے دن کا روزہ تو پھر قضاء کس چیز کی ؟ کیا عید کے روزے کی قضاء بھی ھوتی ھے ؟ روزہ نام کس جس چیز کا ہے ، روزے کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے اجتناب کا نام روزہ ھے ، حائض ان میں سے کونسا کام کرتی ھے ؟ نماز میں چونکہ طھارت شرط ھے لہذا نماز اس پر فرض ہی نہیں ھوئی ،جب فرض ہی نہیں ھوئی تو قضاء بھی کوئی نہیں ، روزے کے ساتھ یہ واردات اجماع کے نام پر کی گئ ہے ـ حدیث ام المومنین حضرت عائشہؓ سے تو یہی ثابت ھوتا ھے کہ جو عورت کمزوری کی وجہ سے حیض میں روزہ چھوڑے اس کا حکم مریض کا سا ھے کہ بعد میں تعداد پوری کرے ، ہمیں نماز لوٹانے کا تو حکم نہیں تھا مگر روزے لوٹانے کا حکم تھا[ جو روزے چھوڑ دے ] اس لئے کہ بعض عورتوں کو خون بکرا ذبح کرنے کی طرح آتا ھے جبکہ بعض کو بہت کم آتا ھے ، اس لئے ایک قانون نہیں بنایا گیا بلکہ کیس ٹو کیس چھوڑ دیا گیا ، جو رکھ سکتی ھے بسم اللہ کر کے رکھے اور جو کمزوری محسوس کرتی ھے بعد میں تعداد پوری کر لے مگر یہ تو سراسر ظلم ھے کہ سترہ گھنٹے کی مشقت بھرا روزہ ایک پل میں مٹی میں ملا کر رکھ دیا گیا ـ
اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ’ و قد فصل لکم ما حرم علیکم ،، تم پر جو حرام کیا گیا ھے وہ تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے یعنی قرآنِ حکیم میں ،، قرآن میں جب باقاعدہ حائضہ کے بارے میں سوال کیا گیا ،تب موقع تھا تفصیل سے حکم بیان کرنے کا ، وھاں تو اللہ پاک نے صرف یہ فرمایا کہ بس اس حالت میں مباشرت سے اجتناب کرو ،، اور بس ،، نماز کی چھوٹ طہارت کے حکم سے واضح ھے کہ عدم طھارت کی وجہ سے نماز عورت پر فرض نہیں ،، جب فرض نہیں تو منطقی نتیجہ ہے کہ قضاء بھی نہیں رکھی گئ ـ روزے کی قضاء رکھی گئ ھے جو حائضہ پر روزے کی فرضیت کو مستلزم ہے اور فرض طاقت ھوتے ہوئے ادا کرنا اولی ہے جبکہ عدم استطاعت پر قضاء ہے جیسا کہ حدیثِ عائشہؓ و حدیثِ زینبؓ رضی اللہ عنھما سے واضح ہے ، حقیقت یہ ہے کہ روزے کو اجماع کے مارشل لاء سے حرام کیا کیا ہے ’’ نہ کہ کتاب و سنت ‘‘ کے نام پر حرام کی فہرست میں شامل کیا گیا ـ
حیض کیس ٹو کیس معاملہ ہے ، ہر عورت خود فیصلہ کرے گی کہ اس کا حیض اذیتناک ہے یا نہیں، اور خود ہی فیصلہ کرے گی کہ اس کو مریض والی سہولت اگنور کر کے روزہ رکھنا ہے یا یہ سہولت استعمال کرتے ہوئےچھوڑنا ہے۔ یہ اول تا آخر عورت کا صوابدیدی حق ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ،،
قاری حنیف ڈار بقلم خود۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزے کا حیض سے کوئی تعلق نہیں،خواہ مخواہ عورت پر ظلم کر رہےہیں یہ مولوی، اللہ پاک نے صاف صاف فرمایا ہے کہ( ولا تقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھذا حلال و ھذا حرام لتفتروا علی الکذب۔ النحل) اپنی زبانوں سے جھوٹ بول کر آللہ پر افترا مت باندھا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ روزے جیسا فرض چھڑوانے کے لئے راوی کا قول نہیں قرآن کی آیت درکار ہے، اللہ پاک نے روزے میں صرف مریض اور مسافر کو ترک کرنے کا اختیار دیا ہے،حرام ان پر بھی نہیں کیا۔ مگر یہ لوگ عورت پر باقاعدہ روزہ حرام کر دیتے ہیں اور سارا دن رکھنے کے باوجودِ افطاری سے تھوڑا پہلے حیض شروع ہونے پر بھی روزہ فاسد ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
حیض اور روزہ ،پارٹ ٹو
حائضہ مریض کے زمرے میں شامل ہے، لہذا اگر وہ روزہ رکھ سکتی ہے تو اللہ کے حکم، فمن شھد منکم الشھر فلیصم’ تم میں جو بھی اس ماہ کو پائے روزہ رکھے۔ کے مطابق روزہ رکھے ،حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی تحریف کی گئی ہے اور روزہ رکھنے کی بات کو روزہ چھوڑنے کا خلاف قرآن ترجمہ کیا گیا ہے۔ تورات میں عورت پر حیض کی حالتِ میں کئ پابندیاں تھیں، وہ خود بھی نجس تھی اس کی چٹائی بھی نجس تھی، چٹائی کو چھونے والا بھی پورے دن کے لئے نجس ھو جاتا تھا،اگر کوئی حیض کی حالت میں بیوی سے ملاپ کرتا تو دونوں کو شہر کے باھر لے جا کر بدترین طریقے سے قتل کرنے کا حکم تھا۔یہ تمام احکامات یہود کی باغیانہ روش کی وجہ سے ان پر لازم کیئے گئے تھے اور موسی علیہ السلام کی درخواست کے باوجود صاف جواب دے دیا گیا تھا کہ ان احکامات سے بچنے اور آسان شریعت سے استفادہ کرنے کے لئے ان کو نبی امی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لانا ہوگا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حیض سے متعلق تورات کے احکامات کے بارے میں پوچھنے گئے تھے کہ کیا وہی احکامات اسلام میں بھی جاری رہیں گے؟ مولویوں نے سمجھا کہ صحابہ یہ پوچھنے گئے تھے کہ حیض میں بیوی کے پاس جانے کے بارے میں اجازت لینے آئے تھے اور اللہ نے اجازت نہیں دی۔ بات قرآن اور تورات کی تھی کیونکہ عیسی علیہ السلام نے بھی تورات کے انہی قوانینِ کو اختیار کیا تھا , توارت کے فرض کردہ کو کوئی آسمانی کتاب ہی منسوخ کر سکتی تھی بدؤوں کا تواتر آسمانی قانون کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک نے تورات اور بائبل کے سارے پیکیج کو منسوخ کر کے صرف اور صرف ازدواجی تعلق کی پابندی باقی رکھی, باقی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو روزے کی ادائیگی کا حکم دیا اور عدم طھارت کی وجہ سے نماز معاف کر دی۔ اس کے بعد صحابہ میں تب تک کوئی اختلاف سامنے نہیں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے چٹائی مانگی، انہوں نے عذر پیش کیا کہ میں حیض سے ہوں،( اگر چٹائی کو چھو لونگی تو وہ ناپاک ہو جائے گی، یہی تورات کا حکم تھا اور یہی سارے عربوں کا تواتر تھا جس تواتر کے حوالے غامدی صاحب سمیت دیگر لوگ حوالہ دے رہے ہیں اور وہی یہودی تواتر امت میں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کانسیپٹ پر کاری ضرب لگائی اور فرمایا حیض تیرے ہاتھ کو نہیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کے دوران سر حجرے میں کر کے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میرا سر دھو دے۔ انہوں نے وہی عذر پیش کیا کہ میں تو حیض سے ہوں( آپ کو چھؤا تو آپ بھی ناپاک ہو جائیں گے، ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حیض جہاں ہے وہیں ہے تیرے ہاتھ کو اس سے کیا لینا دینا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات کے اس قانون کو عملاً نسیا منسیا کرنے کے لئے حیض کے دوران امھات المومنین ازواج مطہرات سے درمیان میں کپڑا ڈال کر بوس و کنار تک کیا تا کہ اس امت سے حیض کے بارے میں ھزاروں سال کی یہودی متوارث رسموں کی پھیلی نفرت ختم کی جائے۔ مگر بھلا ہو ہمارے فقہاء کا جنہوں نے پہلے تو قضاء کی ایک فارسی اصطلاح ایجاد فرمائی جو قرآن کی قضاء کے ایک سو اسی ڈگری مخالف تھی یعنی قران کی قضاء کا مطلب ہے عبادت وقت پر ادا کرنا جبکہ فقہاء کی قضاء کا مطلب عبادت کا وقت ضائع کر کے بعد میں ادا کرنا،پھر اسی اصطلاح کو اختیار کر کے حضرت عائشہ کی حدیث ” ہمیں حیض میں روزے ادا کرنے کا کہا جاتا تھا جبکہ نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا،'” کا ترجمہ یوں کیا کہ ہمیں حیض میں روزے قضا کرنے کا کہا گیا جبکہ نماز قضا کرنے کو نہیں کہا جاتا تھا۔ ۔۔یوں اک نکتے نے محرم سے مجرم بنا دیا اور تورات کی شریعت مسلمان عورتوں پر جاری و ساری ہے ۔۔
ان بزرگوں سے یہی سؤال ہے کہ اسلام سے پہلے یہودی شریعت کے علاوہ کونسا تواتر تھا؟ یمن یہودی تھا مدینہ اور اس کے گرد ونواح والے یہودی تھے شام و عراق اور مصر بھی یہودی شریعت کے تابع تھے کیونکہ عیسی علیہ السلام نے تورات کا ایک کومہ اور دل اسٹاپ ہٹائے بغیر پوری تورات کا قانون اڈاپٹ کر لیا تھا تو عملاً یہودیئ شریعت کا تواتر ہی پوری عرب دنیا پر لاگو تھا اور قرآن کے آسان حکم کو چھوڑ کر آپ اسی مقدس یہودی تواتر سے چمٹے ہوئے ہیں۔ تورات کے لکھے قانون کو قرآن میں نازل کردہ قانون نے منسوخ کر دیا ہے اور وہی کر سکتا تھا ۔ مگر وہ تو قرآن ماننے والوں کے لئے ہے۔ روایتوں کی تحریف کر کے قرآن کے قانون کو معطل کرنے والوں کے لئے قرآن میں کچھ بھی نہیں صرف ثواب ہی ثواب ہے۔
پاکستانی علماء تو مکمل طور پر جمود کا شکار ہیں مگر عرب دنیا میں باقاعدہ زوردار مہم چل رہی ہے،ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے علاوہ سیمنارز میں سؤال اُٹھائے جا رہے ہیں کہ ان فارسیوں نے کس طرح حقیقی دین کو مسخ کیا ہے۔
تورات کے احکامات حیض کے بارے میں ـ
Torah. It says in the Torah in the rulings of the menstruating woman: ((And if a woman has a discharge of blood, then she piles up in her menstrual period for seven days. And everyone who touches her will be unclean until the evening, and everything that she lies on during her menstrual period will be weaving, and everything that she sits on is unclean, and everyone who touches her bed wash his clothes and bathe in water. And he will be unclean until the evening, and whoever touches anything she sits on shall wash his clothes and bathe in water and be unclean until the evening.If he is on the bed or on the things on which she is sitting when he touches it, he will be touched until the evening.
And every bed on which he lies shall be unclean, and everyone who is poor shall be unclean, so he shall wash his clothes and bathe in water and be unclean until the evening, and if she is purified from her discharge, she shall be counted for seven days, and on the eighth day she takes two chickens or two doves for herself and brings them to the priest. And the priest shall make atonement for her before the Lord due to the torrent of her uncleanness.))
But what is the ruling on one who lies with a menstruating woman? Come to the strangest judgments.
Came in Leviticus chapter 20:18 (((And if a man lies with an impending woman, both of them shall be cut off from their people)).
That is, they are killed, they kill the two together, the husband and the wife throw them out of town and stone them to death. Their only sin is that they had sex during their menstrual period.