توہین رسالت اور فرد کا حقِ سزا

توہین رسالت قانون کے حق میں دئیے جانے والے دلائل کا تجزیہ !
اب تک عدالت کےحکم کے تحت کسی توہین کر مرتکب شخص کو قتل نہیں کیا گیا ہے، مگر اس دوران میں دس افراد کو جیلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔معترضین حضرات اس قانون پر اس حوالے سے تنقید کرتے ہیں کہ۔
1۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پر بھی اس قانون کے تحت قتل کی سزا ہو جاتی ہے۔
2۔ موجودہ قانون کے تحت عفو و درگذر اور توبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور ہر صورت میں قتل کی سزا ہے۔
3۔ عدالت نے بہت سے لوگوں کو 8 تا 10 سال بعد جا کر ان الزامات سے باعزت بری کیا۔ مگر اس دوران میں ان لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو چکی تھی۔ چنانچہ ضمانت پر رہائی ممکن ہونی چاہیے۔
4. جھوٹا الزام لگانے والوں کے لیے فقط 6 ماہ کی سزا اور تھوڑا سا جرمانہ ہے
فہرست
• 1 جناب ابو ہریرہؓ کی والدہ کا توہین رسالت کا واقعہ
• 2 بوڑھی عورت کے کوڑا پھینکنے کا واقعہ
• 3 طائف کا واقعہ
• 4 حکم بن العاص کو شدید ترین توہین رسالت پر بھی قتل کی سزا نہیں دی گئی
• 5 عبداللہ ابن ابی کا شان رسالت میں گستاخی کرنا اور اس پر کسی سزا کا نفاذ نہ ہونا
• 6 قرآن کی گواہی کہ یہودی محمدﷺ کی توہین کیا کرتے تھے
• 7 قرآن کی ہدایت کہ مسلمان اہل کتاب ومشرکین کی بدگوئی پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کریں
• 8 عرفہ بن حارث اور عمرو بن العاص نے توہین رسالت کرنے والے کو قتل نہیں کیا
• 9 حضرت ابو بکر نے توہین اللہ اور توہین رسالت کرنے والے کو قتل نہیں کیا
•10گستاخی کرنے والے مسلمان پر نہ مرتد کا فتویٰ اور نہ قتل
• 11قانون توہین رسالت (پاکستان) اور فقہ حنفی
11. الف ۔ موجودہ قانون پر سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں بحث کا موقع ہی نہیں ملا
۱۱ ب ـ ثبوت: گستاخیِ رسول کا حکم "ارتداد” کے ضمن میں آئے گا
۱۱ ت ـ اعتراض: کچھ حنفی علماء نے گستاخِ رسول کی توبہ قبول ہونے کا انکار کیا ہے
• 12 ضعیف روایات سے استدلال
• 13 وہ واقعات جن میں قتل کی وجہ صرف گستاخی رسول نہ تھی بلکہ دیگر وجوہات بھی شامل تھیں
۱۳الف ـ کعب بن اشرف یہودی کا واقعہ
۱۳ ب ـ بو رافع یہودی کا واقعہ
•14 ابن خطل کا واقعہ
•15 فتح مکہ پر 5 افراد کے قتل سے احتجاج
•16 وہ واقعات جو صرف توہین رسالت سے مخصوص ہیں
الف ـ پہلا: نابینا صحابی کی باندی کا واقعہ
با ـ دوسرا: یہودی عورت کا قتل
تا ـ تیسرا : ابن ام مکتوم کا واقعہ
•17توبہ کی گنجائش نہیں، ہر صورت میں موت کی سزا
•18محمدﷺ کے علاوہ کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں
•19سورۃ المائدہ کی آیات 33 اور 34 پر بحث
•20سورۃ التوبہ، آیت 12 سے استدلال
• 21 عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا
•22 حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: محمد ﷺ کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں
•23 قائد اعظم اور توہین رسالت قانون
•24گستاخ رسول کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت
•25موجودہ توہین رسالت قانون کو سپریم کورٹ کے شریعت بنچ بھجوانے کا مطالبہ
•26 حوالہ جات
جناب ابو ہریرہ کی والدہ کا توہین رسالت کا واقعہ
معترضین حضرات کی طرف سے یہ واقعہ بطور دلیل[3] پیش کیا جاتا ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ کی والدہ نے جب محمد ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تو اس پر حضرت ابو ہریرہ نے انہیں قتل نہیں کیا اور نہ ہی محمد ﷺ نے اسکا پتا چلنے پر انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ بلکہ محمد ﷺ نے انکی والدہ کے لیے ہدایت کی اللہ سے دعا فرمائی۔
” صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ[4]:
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور اچھا فرمایا ۔ “
۔
طائف کا واقعہ
معترضین حضرات کی طرف سے طائف کا واقعہ بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ بوڑھی عورت والے واقعہ پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اُس وقت اسلام مکمل طور پر غالب نہ تھا اس لیے بوڑھی عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔ مگر طائف کا یہ واقعہ اس کی تردید کر رہا ہے۔ طائف میں محمد ﷺ مغلوب نہ تھے بلکہ جبرئیل انکی مدد کے لیے آ گئے تھے اور آپ ﷺ سے اجازت طلب کرتے تھے کہ ایک دفعہ اجازت دیجئے تو ان اہل طائف پر عذاب الہی نازل فرمایا جائے۔ مگر محمد ﷺ نے اہل طائف کا مارا جانا پسند نہ کیا اور مسلسل اللہ سے انکی ہدایت کی دعا کرتے رہے۔
” صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک (دن ) عرض کیا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگذرا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عائشہ کا یہ سوال سن کر)فرمایا :تمہاری ا س قوم کی طرف سے جو صورت حال پیش آئی تھی وہ احد کے دن سے کہیں زیادہ مجھ پر سخت تھی اوریہ عقبہ کے دن کا واقعہ ہے جب میں نے تمہاری اس قوم سے ایسی سخت اذیتیں اٹھائیں جن سے زیادہ سخت اذیتیں ان کی طرف سے عمر بھر مجھے کبھی نہیں پہنچیں ہوا یہ تھا کہ میں اس دن ابن عبد یا لیل ابن کلال کے پاس پہنچا (اور اس کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کی ) لیکن اس نے میری (تلقین پر کوئی توجہ نہیں دی اور میں رنجیدہ وغمگین اپنے منہ کی سیدھ میں چل پڑا یہاں تک کہ قرن ثعالب پہنچ کر میرے حواس قابومیں آئے ،میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ابر کا ٹکڑا ہے جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اورپھر اچانک میری نظر اس ابر کے ٹکڑے میں جبرئیل علیہ السلام پر پڑی ۔جبرئیل علیہ السلام نے مجھے مخاطب کیا اورکہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی اوراس کا وہ جواب بھی سن لیا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے اور اب اس (پروردگار )نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہا ڑوں کے فرشتہ کو اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر فرمائیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھ کو (یانبی !یامحمد !کہہ کر )مخاطب کیا اورسلام کرکے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی ہے ،میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ،مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے فیصلہ کی تعمیل کاحکم دیں ،اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں پر ان دونوں پہاڑوں اخشبین کو الٹ دوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا (میں ان کی ہلاکت کا خواہاں نہیں ہوسکتا )بلکہ میں تو یہ امیدرکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمادے جو صرف اسی ایک خدا کی عبادت کریں اورکسی بھی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں۔ “
چنانچہ معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ جسمانی اذیت زبانی ہجو سے زیادہ سنگین جرم ہے مگراسکے باوجود محمد ﷺ گستاخی کرنے والے اہل طائف کے لیے موت کی بددعا نہیں کر رہے ہیں کیونکہ آپ (ص) کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کردے گا جو کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کی آغوش میں آجائیں گے۔
حکم بن العاص کو شدید ترین توہین رسالت پر بھی قتل کی سزا نہیں دی گئی
معترضین حضرات[8] کی اگلی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حکم بن ابی العاص جیسے شریر و گستاخِ رسول شخص کو بھی بستر مرگ پر معاف کر دیا تھا۔ حکم کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے اور انہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔ جب محمد ﷺ اپنی کسی صحابی سے رازداری سے کوئی بات کرتے تھے تو یہ شخص انہیں چھپ کر سن لیتا تھا اور پھر آگے جا کر پھیلا دیتا تھا جس سے منافقین کو پہلے سے بہت سی باتوں کا علم ہو جاتا تھا۔ حکم بن ابی العاص محمد ﷺ کے پیچھے چلتے ہوئے انکی چال ڈھال کی اور چہرہ مبارک کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ اور نماز کے دوران بھی ہاتھ اور انگلیوں سے بُرے بُرے انداز بناتا تھا۔ یہ اتنی بڑی گستاخی تھی کہ جب محمد ﷺ نے اس کو یہ حرکتیں ہوئے پکڑا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایسے ہی رہو۔ اس لعنت کے نتیجے میں وہ اُسی حالت میں ویسا کا ویسا ہی رہ گیا اور تامرگ ایسا ہی رہا کہ اسکا منہ، چہرہ اور ہاتھ ہر وقت اس بری حالت میں ہلتے ہی رہتے تھے۔ بہرحال، حکم بن ابی العاص اس لعنت کے باوجود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ ایک دن محمد ﷺ اپنی ایک زوجہ کے گھر میں تھے کہ یہ خاموشی سے آ کر دروازے کے سوراخ سے جھانکنے لگا۔ محمد ﷺ نے اسکو پہچان لیا ۔ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کون ہے جو مجھے اس گندے شخص سے بچائے گا؟ پھر آپ ﷺ نے مزید فرمایا کہ یہ شخص اور اسکی آل اولاد ہرگز اس شہر میں نہیں رہ سکتی جس میں میں موجود ہوں، اور اسکے بعد آپ نے اسکو بمع اسکے بیٹے مروان بن الحکم کے طائف کی طرف شہر بدر کر دیا اہم بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی محمد ﷺ نے اس شخص کو قتل نہیں کروایا بلکہ صرف شہر بدر کیا۔ اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ جب محمد ﷺ بستر مرگ پر تھے، تو حضرت عثمان نے اسکی سفارش کی تو آپ ﷺ نے اسے معاف بھی کر دیا ۔ جب حضرت عثمان خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے حکم بن ابی العاص اور اسکے بیٹے مروان بن حکم کو واپس مدینہ بلا لیا[9]۔
عبداللہ ابن ابی کا شان رسالت میں گستاخی کرنا اور اس پر کسی سزا کا نفاذ نہ ہونا
معترضین حضرات[10] کی اگلی دلیل یہ ہے کہ عبداللہ ابن ابی نے محمد ﷺ کی شان میں انتہائی گستاخی کی۔ اس گستاخی پر نہ محمد ﷺ نے اسکے قتل کا حُکم دیا اور نہ ہی وہاں پر موجود مسلمانوں نے اسے قتل کیا۔ اور اللہ نے بھی اسکے قتل کا حُکم نہیں دیا اور آیت تو نازل ہوئی مگر وہ اسے قتل کرنے کی نہیں تھی بلکہ یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو۔
” صحیح بخاری، کتاب الصلح[11]:
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہ انسؓ نے کہا لوگوں نے نبی ﷺ کو رائے دی اگر آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے چلیں تو بہتر ہے یہ سن کر آپؐ ایک گدھے پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے مسلمان آپؐ کے ساتھ چلے وہاں کی زمین کھاری تھی جب آپ اس (عبداللہ ابن ابی) کے پاس پہنچے تو وہ محمد ﷺ کو کہنے لگا کہ چلو پرے ہٹو تمہارے گدھے کی بد بو نے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ یہ سن کر ایک انصاری (عبداللہ بن رواحہ) بولے خدا کی قسم محمد ﷺ کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک شخص (صحابی) غصے ہوا۔ دونوں میں گالی گلوچ ہوئی اور دونوں طرف کے لوگوں کو غصہ آیا اور وہ چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے آپس میں لڑ پڑے۔ انسؓ نے کہا ہم کو یہ بات پہنچی کہ (سورت حجرات کی آیت وَ اِن طَائِفَتَانِ ِمنَ المُؤمِنِینَ اقتَتَلُوا فَاصلحُوا بَینھمَا) اسی بات میں اتری۔ (یعنی مسلمانوں کے دو گروہ لڑ پڑیں تو ان میں صلح کروا دو)۔ “
معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ عبداللہ ابن ابی نے محمد ﷺ کی شانِ اقدس میں براہ راست یہ گستاخی کی، مگر اس پر آپ (ص) نے اسکے باوجود اسکے قتل کا حکم نہیں دیا۔اور اگرچہ کہ دو مسلمان گروہوں میں ابتدائی طور پر جھگڑا ہوا، مگر محمد ﷺ کی اس صبر و تحمل کی وجہ سے یہ جھگڑا ختم ہو گیا۔
قرآن کی گواہی کہ یہودی محمدﷺ کی توہین کیا کرتے تھے
معترضین حضراتکی طرف سے اگلی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ سورہ نساء (٤)کی آیت ٤٦ میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے یہود کی اس گستاخانہ روش کا ذکر کیا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے وقت ‘راعنا’ (ہماری رعایت فرمایے) کے لفظ کو اس طرح بگاڑ کر ادا کرتے کہ وہ سب وشتم کا ایک کلمہ بن جاتا [رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ ۔ اسی طرح وہ السلامُ علیکم کی بجائے السامُ علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے۔]۔ اسی طرح وہ آپ کو مخاطب کرکے ‘اِسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ’ (سنو، تمھیں سنائی نہ دے) کے بددعائیہ کلمات بھی کہتے۔ قرآن مجید نے یہاں ان کی اس روش پر کوئی قانونی سزا تجویز نہیں کی اور عہد رسالت، عہد صحابہ اور اسلامی تاریخ میں بھی اس نوعیت کے واقعات پر صرف نظر اور تحمل و برداشت کا حکیمانہ رویہ اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایک باب اس مخصوص عنوان سے تحریر کیا ھے کہ” نبی نہ گالیاں دیتے تھے، اور نہ ھی آپ بد خلق تھے “ (لم یکن النبی فاحشاً ولا متفحشاً) اس باب میں آپ نے پیغمبر کے حسن اخلاق سے مربوط متعدد حدیثیں نقل کی ھیں، ان میں سے ایک حدیث اس طرح ھے:
” صحیح بخاری، کتاب كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، حدیث 6929 [14] :
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا انہوں نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا یہود میں سے چند لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس آنے کی اجازت چاہی (جب آئے تو) کہنے لگے السام علیک میں نے جواب میں یوں کہا علیکم السام واللعنۃ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہےمیں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے ان کا کہنا نہیں سنا آپ نے فرمایا میں نے بھی تو جواب دے دیا وعلیکم۔ “
چنانچہ معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اسوۃ محمد ﷺ بہت واضح ہے اور توہین رسالت پر محمد (ص) نے جو اللہ کی سنت بیان فرمائی ہے کہ "اللہ تعالیٰ نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی پسند کرتا ہے”۔۔۔ تو اللہ کی یہ سنت محمد ﷺ کی وفات کے بعد منسوخ نہیں ہو گئی ہے بلکہ اللہ کی یہ سنت تا قیامت یوں ہی قائم رہے گی۔
قرآن کی ہدایت کہ مسلمان اہل کتاب ومشرکین کی بدگوئی پر صبر و ضبط کا مظاہرہ کریں
معترضین حضرات] کی اگلی دلیل یہ ہے کہ یہود و مشرکین اسلام اور محمد ﷺ کے متعلق ایسی بدگوئیاں کرتے تھے جن سے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچتی تھی۔ مگر اس پر اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کو حکم جاری ہو رہا ہے کہ وہ صبر اختیار کریں۔
” [جوناگڑھی، سورۃ آل عمران 3:186]] ۔۔۔ اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں سننا پڑیں گی۔ اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقینا یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔ “
اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب (قرآن بمع ترجمہ و تفسیر، شاہ فہد پرنٹنگ پریس )لکھتے ہیں-
” اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی ﷺ ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن و تشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ ﷺ کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ ﷺ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ ﷺ کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا جس کا اسے شدید صدمہ تھا۔ چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ ﷺ کے خلاف سب و شتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگذر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہنا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ “
عرفہ بن حارث اور عمرو بن العاص نے توہین رسالت کرنے والے کو قتل نہیں کیا
” بیہقی، السنن الکبریٰ 18490 اور طبرانی، المعجم الکبیر 18/261
عرفہ بن حارث کندی کے سامنے ایک نصرانی نے محمد (ص) کی شان میں گستاخی کر دی تو عرفہ نے زور سے مکہ مار کر اسکی ناک توڑ دی۔ معاملہ عمرو بن العاص کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے عرفہ کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو انکے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے۔ عرفہ نے کہا کہ اس بات سے اللہ کی پناہ کہ ہم نے انکے ساتھ محمد ﷺ کی شان میں کھلم کھلا گستاخی کی اجازت دینے پر معاہدہ کیا ہو۔ “
اس روایت سے معترضعین حضرات یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر گستاخی رسول کی سزا فی الفور قتل ہوتی تو یہ دونوں صحابی اس سزا سے آگاہ ہوتے اور اس نصرانی کو ہر صورت میں قتل کرتے۔
حضرت ابو بکر نے توہین اللہ اور توہین رسالت کرنے والے کو قتل نہیں کیا
معترضین حضرات کی اگلی دلیل یہ ہے کہ ابن کثیر الدمشقی نے اپنی تفسیر میں سورۃ آل عمران کی آیت 181 کی تفسیر میں یہ واقعہ نقل کیا ہے:
” حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے زیادہ در زیادہ کر کے دے تو یہود کہنے لگے کہ اے نبی تمہارا رب فقیر ہو گیا ہے اور اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے اس پر یہ آیت (لقد سمع اللہ) الخ، نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ یہودیوں کے مدرسے میں گئے یہاں کا بڑا معلم فخاص تھا اور اس کے ماتحت ایک بہت بڑا عالم اشیع تھا لوگوں کا مجمع تھا اور وہ ان سے مذہبی باتیں سن رہے تھے آپ نے فرمایا فخاص اللہ سے ڈر اور مسلمان ہو جا اللہ کی قسم تجھے خوب معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے سچے رسول ہیں وہ اس کے پاس سے حق لے کر آئے ہیں ان کی صفتیں توراۃ و انجیل میں تمہارے ہاتھوں میں موجود ہیں تو فخاص نے جواب میں کہا ابوبکر سن اللہ کی قسم اللہ ہمارا محتاج ہے ہم اس کے محتاج نہیں اس کی طرف اس طرح نہیں گڑگڑاتے جیسے وہ ہماری جانب عاجزی کرتا ہے بلکہ ہم تو اس سے بے پرواہ ہیں٠ ہم غنی اور تونگر ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض طلب نہ کرتا جیسے کہ تمہارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہا ہے ہمیں تو سود سے روکتا ہے اور خود سود دیتا ہے اگر غنی ہوتا تو ہمیں سود کیوں دیتا، اس پر حضرت صدیق اکبر کو سخت غصہ آیا اور فخاص کے منہ پر زور سے مارا اور فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم یہود سے معاہدہ نہ ہوتا تو میں تجھ اللہ کے دشمن کا سر کاٹ دیتا “
اس واقعہ سے معترضین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر توہین اللہ اور توہین رسالت کی سزا موت ہوتی تو جناب ابو بکر اس پر معاہدہ کا ذکر کرنے کی بجائے اسے قتل کر دیتے۔
گستاخی کرنے والے مسلمان پر نہ مرتد کا فتویٰ اور نہ قتل
” صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث 2363
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے حضرت زبیرر ضی اللہ عنہ سے حرہ کی ندی کے بارے میں جس سے کھجوروں کے باغ سیراب ہوا کرتے تھے ، جھگڑا کیا ۔ محمدﷺنے فرمایا: اے زبیر ! تم سیراب کرلو پھر اپنے پڑوسی بھائی کےلیے جلد پانی چھوڑ دینا ۔ اس پر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ! یہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں۔ اس پر محمد (ص) کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اے زبیر ! تم سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی کھیت کی مینڈوں تک پہنچ جائے ۔ اس طرح آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوادیا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ قسم اللہ کی ! یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی تھی” ہرگز نہیں ، تیرے رب کی قسم ! اس وقت تک یہ ایمان والے نہیں ہوں گے ۔ جب تک اپنے جملہ اختلافات میں آپ کو تسلیم نہ کریں ۔ "ابن شہاب نے کہا: انصار اور تمام لوگوں نے اس کے بعد نبی ﷺ کے اس ارشاد کی بناء پر کہ ” سیراب کرو اور پھر اس وقت تک رک جاؤ جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے” ایک اندازہ لگالیا ، یعنی پانی ٹخنوں تک بھرجائے۔ “
معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ جب اس صحابی نے کہا:”جی ہاں! یہ آپکی پھوپھی کے بیٹے ہیں”، تو یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس پر اس صحابی کو قتل نہیں کیا۔ ۔۔۔(اور نہ ہی اس چھوٹی بات پر اس کو مرتد قرار دیا)۔
قانون توہین رسالت (پاکستان) اور فقہ حنفی
پاکستان میں فقہ حنفی کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔ مگرقانون توہین رسالت (پاکستان) اہلحدیث فقہ کے مطابق بنایا گیا ہے۔
قانون توہین رسالت (پاکستان) اور فقہ حنفی میں فرق
فقہ حنفی قانون توہین رسالت (پاکستان)
اگر شاتم رسول غیر مسلم ہے تو اس پر قتل کی حد نافذ نہیں ہو گی، بلکہ حکومت وقت اسے تعزیزی سزا دے گی۔ اگر غیر مسلم نے ہلکی نوعیت کا جرم کیا ہو گا تو حکومت اسے تنبیہ کر کے سزا مکمل طور پر معاف بھی کر سکتی ہے۔ جرم جوں جوں سنگین ہوتا جائے گا، حکومت حالات کے تحت ایسے ہی سخت سزا سنا سکتی، حتی کہ بار بار یہ جرم کرنے پر حکومت موت کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔
امام طحاوی نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ سب و شتم کرنے والے ذمی کو صرف زبانی تنبیہ کی جائے، جبکہ اسکے بعد اگر وہ اسکا مرتکب ہو تو بھی اسے قتل کرنے کی بجائے تادیبی سزا ہی دی جائے (مختصر الطحاوی، صفحہ 262)
ہر صورت میں غیر مسلم کو قتل کر دیا جائے گا، چاہے کسی سے ہنسی مذاق میں ہی گستاخی کا ایک جملہ ہی کیوں نہ نکل گیا ہو۔ جرم چاہے ہلکا ہو یا سنگین نوعیت کا، ہر صورت میں اس غیر مسلم شخص کو قتل کر دیا جائے گا۔
اگر گستاخِ رسول مسلمان ہے تو اس کو توبہ کا موقع دیا جائے گا۔ اگراس نے توبہ کر لی تو اسکی سزا معاف ہو جائے گی، وگرنہ پھر اسے قتل کر دیا جائے گا۔
اگر گستاخ مسلمان عورت ہے، اور وہ توبہ نہیں بھی کرتی، تب بھی اسے قتل نہیں کیا جائے گا[26]۔
ہر صورت میں ایسے مسلمان کو قتل کر دیا جائے گا اور اسکی کوئی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
موجودہ قانون پر سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں بحث کا موقع نہیں ملا
جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث جناب مفتی محمد زاہد صاحب لکھتے ہیں:
” سن 1990ء میں اس مسئلے پر وفاقی شرعی عدالت کے معروف فیصلے، جس کی روشنی ہی میں پارلیمنٹ نے اس جرم پر عمر قید کی سزا کو حذف کر کے صرف سزائے موت کو برقرار رکھا تھا، اس میں بھی اس بات کی صراحت ہے کہ عدالت میں پیش ہونے والے متعدد اہل علم نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا تھا اس قانون میں توبہ کا موقع ملنا چاہیے۔ ان علماء میں دیوبندی مکتبِ فکر سے دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث مولانا سبحان محمود، بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم مفتی سرور قادری اور معروف اہلحدیث عالم حافظ صلاح الدین یوسف قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ شرعی عدالت کے فیصلے میں جو بحث کی گئی ہے، اس بحث کی پوری جھلک کورٹ آرڈر اور اس کی روشنی میں ہونے والی قانون سازی میں نظر نہیں آتی۔ بہتر ہوتا کہ اس وقت یہ مسئلہ اپیل کے لیے سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں چلا جاتا جہاں اس وقت مفتی محمد تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ جیسے جید علماء موجود تھے۔ اس وقت وفاقی حکومت کی طرف سے اپیل بھی کی گئی تھی، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے یہ اپیل واپس لینے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اس جرم کی سزا اگر موت سے بڑھ کر کوئی ہوتی تو وہ تجویز کی جاتی۔۔۔ اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ صاحب نے ایک کتابچے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو پیغام بھیجا تھا کہ یہ اپیل واپس لی جائے وگرنہ مسلمانوں کے جذبات انکی حکومت کے خلاف بھی مشتعل ہو جائیں گے۔۔۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کسی شرعی مسئلے کو ماہرین شریعت پر مشتمل آئینی فورم پر اس لیے پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مزید غور کر لیا جائے، تو اس میں جذبات مشتعل ہونے والی کون سی بات تھی؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے میں شروع ہی سے صرف ایک نقطہ نظر کو جو کہ یہاں کی اکثریتی فقہ سے بھی مطابقت نہیں رکھتا، ایمان اور عقیدے کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ مذکورہ فیصلہ صادر کرنے والے وفاقی شرعی عدالت کے بنچ میں کوئی باقاعدہ عالم دین شامل نہیں تھے، جبکہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں مذکورہ دو جید عالم موجود تھے۔ “
معترضین حضرات کا مؤقف یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف صاحب کی مداخلت کی وجہ سے وجہ سے سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اس قانون پر بحث نہیں ہو سکی اور اتمام حجت مکمل کیے بغیر اس کو قانون کا درجہ دے کر اسکا نفاذ کر دیا گیا۔ چنانچہ اس قانون پر شپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں کھل کر بحث ہونی چاہیے اور اسکی روشنی میں اس قانون میں تبدیلیاں ہونی چاہیے ہیں۔
ثبوت: گستاخیِ رسول کا حکم "ارتداد” کے ضمن میں آئے گا
فقہ حنفی گستاخی رسول کا حکم ارتداد کے ضمن میں رکھتی ہے۔ جبکہ موجودہ توہین رسالت قانون اہلحدیث فقہ پر مبنی ہے جو اسے ارتداد کے ضمن میں نہیں رکھتے بلکہ گستاخی رسول پر علیحدہ سے حد کا حکم لگا کر قتل کی سزا تجویز کرتے ہیں۔
اس ضمن میں فقہ حنفی کی دلیل ذیل کی روایت ہے جسکو امام تقی الدین سبکی نے پیش کیا ہے:
” صحیح بخاری، کتاب الدیات
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا ہم سے والد نے کہا ہم سے اعمش نے انہوں نے عبد اللہ بن مرہ سے انہوں نے مسروق بن اجدع سے انہوں نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان آدمی اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی سچا خدا نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں تو اس کا خون کرنا بغیر تین صورتوں کے درست نہیں ایک یہ کہ کسی کو ناحق قتل کرے اس کے قصاص میں ،دوسرے یہ کہ محصن ہو کر زنا کرے ،تیسرے یہ کہ اسلام سے پھر جائے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے۔ “
یہی روایت بخاری اور دیگر کتب میں صحیح اسناد کے ساتھ جناب عائشہ، جناب عثمان اور عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے- یہ سارے صحابہ محمد ﷺ کی پوری مدنی زندگی میں آپ (ص) کے ساتھ تھے۔ یہ سب کے سب صحابہ ساتھ میں بڑے پائے کے فقیہ بھی ہیں۔ اگر محمد (ص) کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہوتا جس میں گستاخی رسول پر کسی کو قتل کیا گیا ہوتا تو وہ واقعہ یقینا ان کی نظر میں ہوتا اور وہ اسکا ذکر لازمی طور پر کرتے۔ بہت مشکل ہے کہ یہ سب کے سب صحابہ اس مسئلے میں اکھٹی غلطی کریں۔
چنانچہ فقہ حنفی کی دلیل یہ ہے کہ جب گستاخی رسول پر آج مسلمان پر مرتد کی سزا کا اطلاق کریں گے تو خودبخود دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ مرتد کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور اس پر قتل کی سزا ساقط ہے۔ حتیٰ کہ بذاتِ خود اہلحدیث فقہ کے مطابق بھی مرتد کو توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اگر وہ توبہ کر لے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
اعتراض: کچھ حنفی علماء نے گستاخِ رسول کی توبہ قبول ہونے کا انکار کیا ہے
اس اعتراض کا جواب پروفیسر محمد مشتاق صاحب نے یوں دیا ہے: نویں صدی ہجری کے ایک حنفی عالم البزازی نے سب سے پہلے یہ لکھا کہ گستاخ رسول کی توبہ قبول نہ ہو گی اور اسے ہر صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔ بزازی کے بعد میں آنے والوں کچھ لوگوں نے یہ بات اسی طرح نقل کر دی۔ لیکن علامہ شامی نے البزازی کی اس بات کو تفصیل سے دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ مکمل طور پر رد کیا ہےاور یہ ثابت کیاکہ بزازی سے پہلے فقہ حنفی کا نقطہ نظر، خواہ وہ کسی حنفی عالم نے بیان کیا ہو یا غیر حنفی نے، سب نے یہی کہا ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق شاتم رسول کی توبہ قابل قبول ہے۔ نیز فقہ شافعیہ کا نقطہ نظر بھی فقہ حنفی کے قریب قریب ہے اور وہ بھی توبہ کے قائل ہیں۔ حتیٰ کہ فقہ مالکی اور فقہ حنبلی میں بھی ایک ایک قول توبہ کے قبول ہو جانے کا ملتا ہے۔
ضعیف روایات سے استدلال
معترضین حضرات اس بات کی طرف بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ اصول یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے "قوانین” بناتے وقت "ضعیف” روایات کا استعمال نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جب کہ موت و قتل جیسے قوانین بنائے جا رہے ہوں۔ مگر اسکے باوجود توہین رسالت قانون کو سہارا دینے کے لیے کچھ ضعیف روایات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسکی مثال وہ عصماء بنتِ مروان کے واقعہ سے دیتے ہیں-
” عصما بنت مروان رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جو کہ نابینا (اندھے) تھے، ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیرنے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی۔پھر نماز فجر محمدﷺ کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں۔ “
معترضین حضرات کی تنقید یہ ہے کہ یہ صحابی نابینا تھے، مگر اسکے باوجود اس عورت کے گھر تک پھر اکیلے کیسے پہنچ گئے؟ پھر اکیلے اندھیرے میں اس انجان گھر میں اس عورت کو اندھیرے میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور اس پورے وقت میں کسی گھر والے کی آنکھ نہیں کھلتی۔ پھر ایک عورت ملتی ہے اور ٹٹولنے پر پتا چلتا ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پھر اس دودھ پیتے بچے کو زبردستی الگ کیا جاتا ہے مگر پھر بھی ماں جاگتی ہے اور نہ کوئی اور گھر والا (اگر کسی دودھ پیتے بچے کو الگ کیا جائے تو وہ فورا رونا شروع کر دیتا ہے)۔اور پھر یہ صحابی تقریبا ًاندھے تھے اور ساتھ ہی ساتھ آدھی رات کا گھپ اندھیرا بھی تھا۔ تو پھر انہیں کیسے یقین ہوا کہ جس عورت کو وہ قتل کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ عصماء بنت مروان ہی ہے؟
درایت کے علاوہ سند کے حساب سے بھی یہ ضعیف روایت ہے۔ الشیخ ناصر الدین الالبانی صاحب اس روایت کو اپنی کتاب "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ و الموضوعۃ ، روایت نمبر 6013 کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اور ابن عدی، علامہ ابن جوزی اور ابن معین نے کہا ہے کہ اس روایت کا ایک راوی "محمد بن الحاج” ہے جو کہ جھوٹی حدیث گھڑا کرتا تھا اور کذاب اور خبیث تھا، چنانچہ یہ روایت موضوع (گھڑی ہوئی) ہے۔
معترضین حضرات کے مطابق ایسے ہی ضعیف واقعات میں ابو عفک یہودی اور انس بن زنیم کا واقعہ بھی شامل ہے۔
” محمد ﷺ نے فرمایا:
«من سب نبیا قتل ومن سب أصحابی جلد» (الصارم المسلول:۹۲
ترجمہ: جس شخص نے کسی نبی کو گالی دی وہ قتل کیا جائے اور جو شخص اس نبی کے صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے لگائے جائیں۔ “
یہ روایت ضعیف ہے اور اسکے راوی مجہول الحال اور کذاب ہیں
اسی طرح ابن خطل کی 2 لونڈیوں کے قتل کا ذکر بھی صرف سیرت کی کتابوں موجود ہے۔ صحیح بخاری میں جہاں ابن خطل کے قتل کی روایت موجود ہے، وہاں ان 2 لونڈیوں کے قتل کا کوئی ذکر نہیں۔
وہ واقعات جن میں قتل کی وجہ صرف گستاخی رسول نہ تھی بلکہ دیگر وجوہات بھی شامل تھیں
قانون توہین رسالت کے حامی حضرات سے کعب بن اشرف، ابو رافع جیسے چند واقعات بطور دلیل پیش کیے جاتے ہیں۔ مگر معترضین اسکا جواب یہ دیتے ہیں کہ :
1. ان کفار کے قتل کی بنیادی وجہ ایک آدھ مرتبہ کی جانے والی گستاخی نہ تھی۔
2. بلکہ وہ اس سے زبانی کلامی "ہجو” سے بڑھ کر "عملی” طور پر مسلمانوں کے لیے خطرناک سازشیں کر رہے تھے اور دیگر کفار اور قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے تھے۔
معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ مکہ اور طائف اور خیبر وغیرہ میں ہزاروں نہیں تب بھی سینکڑوں ایسے کفار تھے جنہوں نے محمد ﷺ کی معاذ اللہ ہجو کی اور جواب میں شاعر رسول حسان بن ثابت بھی اشعار کے ذریعے ان لوگوں کو جواب دیتے تھے۔ مگر جب خیبر و مکہ و طائف وغیرہ فتح ہوئے تو محمد ﷺ نے ایسے تمام کے تمام لوگوں کے قتل عام کا حکم نہیں دیا کہ جنہوں نے انکی ہجو کی تھی، بلکہ چُن کر کُل پانچ افراد کو قتل کیا گیا۔ فقہ حنفیہ کے مفتی مولانا محمد زاہد صاحب ان واقعات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
” اس (توہین رسالت کے) مسئلے میں عہد رسالت کے جن واقعات کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں کچھ لوگ تو ایسے تھے جن کا اسلامی ریاست کا شہری ہونا ہی ثابت نہیں ہے۔ بعض تو محارب (برسرِ پیکار) تھے۔ بعض کے اس جرم کے علاوہ اور بھی کئی جرائم تھے اور یہ بات تو اکثر و بیشتر واقعات میں ہے کہ ان سے یہ جرم ایک آدھ مرتبہ صادر نہیں ہوا تھا، بلکہ بار بار اور عادت کے طور پر انہوں نے یہ وطیرہ اپنایا ہوا تھا۔ اس جرم پر سیاسۃً یا تعزیراً سرائے موت کے سلسلے میں متعدد فقہاء حنفیہ نے اسی صورتِ حال یعنی عادت اور تکرار کا ذکر کیا ہے۔ “
کعب بن اشرف یہودی کا واقعہ
اس کا واقعہ صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4039 میں موجود ہے۔ کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ اسکا سب سے بڑا فتنہ یہ تھا کہ یہ قریش کے کفار کو مسلمانوں کے جنگ کرنے کے لیے ابھارتا تھا، اور اگر وہ اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جاتا تو اس سے مسلمانوں کا بہت جانی نقصان ہوتا۔ اس لیے اس کی شرارتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے مجبوراً ماہ ربیع الاول سنہ3 ہجری میں یہ قدم اٹھایا گیا۔چنانچہ محمد ﷺ کے حُکم پر سعد بن معاذ نے لوگوں کو جمع کیا اور پھر محمد بن مسلمہ اور چند مجاہدین کو اسکے پاس روانہ کیا گیا۔ انہوں نے اسکے پاس جا کر پہلے محمد ﷺ کی (معاذ اللہ) برائیاں شروع کر دیں تاکہ اسے بھلا پھسلا کر اسکے گھر اور قوم سے دور لے جائیں، اور پھر موقع ملتے ہی اسے قتل کر دیا۔
معترضین حضرات کے مطابق مدینہ اور خیبر اور آپس پاس کے علاقوں میں ایسے کئی کفار و یہودی تھے جو محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے، مگر صرف کعب بن اشرف یہودی کواس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔ ۔ مزید براں کعب بن اشرف نے جب پہلی مرتبہ گستاخی رسول کی تو اس پہلی مرتبہ پر ہی اس کو قتل کرنے کے لیے مجاہدین کو روانہ نہیں کیا گیا، بلکہ کعب بن اشرف نے محمد ﷺ کو بُرا بھلا کہنا اپنی "عادت” اور "معمول” بنائی ہوئی تھی۔
ابو رافع یہودی کا واقعہ
معترضین حضرات کے نزدیک ابو رافع کا جرم بھی صرف یہ نہیں تھا کہ اس نے محمد ﷺ کی ہجو کی تھی، بلکہ اسکا جرم اس سے بڑھ کر تھا اور یہ مسلمانوں کے خلاف عملی سازشوں میں ملوث تھا جس سے عملا مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ابو رافع اُن لوگوں میں سے تھا جو غزوئہ خندق میں قبائل کو مدینہ پر چڑھا لانے کے مجرم تھے۔ ابن اسحاق کے الفاظ میں ،’فیمن حزب الاحزاب علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم’۔۔ صحیح بخاری، کتاب المغازی، حدیث 4041 میں اسکا ذکر یوں ہے:۔
” ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ، ان سے اسرائیل نے ، ان سے ابو اسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی ( کے قتل ) کے لیے چند انصاری صحابہ کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر بنایا ۔ یہ ابو رافع حضورﷺ کو ایذا دیا کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کیا کرتا تھا ۔حجاز میں اس کا ایک قلعہ تھا اور وہیں وہ رہا کرتا تھا ۔ “
ابن خطل کا واقعہ
معترضین – اس واقعہ کا جواب یہ دیتے ہیں کہ عبداللہ بن خطل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تحصیل کے لیے بھیجا۔ اُس کے ساتھ ایک انصاری اور ایک مسلمان خادم بھی تھا۔ راستے میں حکم عدولی پر اُس نے خادم کو قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا۔ چنانچہ ابن خطل کے قتل کی بنیادی وجہ اسکا مرتد ہونا اور اسکا ایک مسلمان کو قتل کر دینا تھا ۔ پھر ابن خطل نے اپنی "عادت ” اور "معمول” بنا رکھا تھا کہ وہ اسلام اور محمد ﷺ کے شان میں بیہودہ باتیں کرتا تھااور لوگوں کو مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اکساتا تھا۔ فتح مکہ کے وقت وہاں ایسے بے تحاشہ لوگ موجود تھے جنہوں نے محمد ص کی شان میں گستاخیاں کی تھیں، مگر ابن خطل کے لیے خاص طور پر احکامات اس لیے جاری ہوئے کیونکہ وہ مرتد ہو گیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا، اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا تھا۔
ابن خطل کے قتل کے حوالے سے یہ روایت بھی اہم ہے اور اسکی وجوہات پر روشنی ڈالتی ہے ۔
زکریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، وہ اپنے والد سے، یزید نحوی، عکرمة، ابن عباس سے روایت ہے کہ خداوند قدوس نے اس فرمان مبارک میں کہ (إِنَّمَا جَزَائُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ) آخر تک یہ آیت مشرکین کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے جو ان لوگوں میں سے توبہ کرے گرفتار کیے جانے سے قبل تو اس کو سزا نہیں ہوگی اور یہ آیت مسلمان کے واسطے نہیں ہے اگر مسلمان قتل کرے یا ملک میں فساد برپا کرے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرے پھر وہ کفار کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس کے ذمہ وہ حد ساقط نہیں ہوگی (اور جس وقت وہ شخص اہل اسلام کے ہاتھ آئے گا تو اس کو سزا ملے گی)۔
فتح مکہ پر 5 افراد کے قتل سے احتجاج
موجودہ قانون کے حامی حضرات دلیل لاتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت 5 افراد کو قتل کیا گیا جو کہ گستاخیِ رسول کرتے تھے۔اس قانون کے معترضین جواب دیتے ہیں کہ فتح مکہ پر 5 افراد کا قتل بھی ایک آدھ مرتبہ کی گئی توہینِ رسالت کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے محاربہ، فساد فی الارض اور بدعہدی کا تھا۔ اہل مکہ کے معاملہ میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر کوئی قبیلہ یا شہر والے اپنا معاہدہ توڑ دیتے اور مخالفین کی مدد کرتے تھے، تو پھر انکی شرارت کے بعد جب وہ مفتوح ہوتے تھے تو اس بدعہدی اور شرارت کے نتیجے میں حق بن جاتا تھا کہ ان سے بدلہ لیا جائے اور انہیں سزا دی جائے۔ مثلاً بنو قینقاع نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا اور معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں ان پر حملہ کیا گیا اور انکی ابتدائی سزا قتل پائی، مگر انکے چونکہ انصار کے قبیلے خزرج سے بہترین تعلقات تھے لہذا حالات کے تحت انہیں انکے علاقے سے علاقہ بدر کر دیا گیا۔اسی طرح بنو قریظۃ نے پہلے محمد ﷺ کے ساتھ معاہدہ کیا۔ مگر جب جنگ خندق جاری تھی تو انہوں نے کفار مکہ سے بات چیت شروع کر دی اور یوں معاہدہ شکنی کی۔ جواب میں جنگ خندق کے بعد انکو عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے محمد ﷺ نے فوج کشی کی اور انہوں نے محاصرے کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ انکی سزا قتل پائی
اسی طرح اہل مکہ سے صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ مگر انہوں نے بدعہدی کی۔ ابن کثیر الدمشقی سورۃ توبہ کی آیت 7 کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیاان کے حلیف بنو بکر نے محمد صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا”
معترضین حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اس اصول کے تحت مکہ کو فتح کرنے کے بعد وہاں صرف ان 5 افراد ہی نہیں بلکہ پوری آبادی کا قتل جائز ہو چکا تھا کیونکہ یہ قصاص تھا خزاعہ کے بہائے جانے والے خون کا۔ اگر توہین رسالت کے جرم میں ہی قتل کرنا ہوتا تو مکہ، طائف و خیبر وغیرہ میں ان 5 افراد سے کہیں زیادہ لوگ توہینِ رسالت کرتے تھے اور آپ ﷺ کو ایذا دیتے رہے تھے اور آپ ﷺ کو خون تک میں لہولہان کر چکے تھے۔ پورے اہل قریش کا طرز عمل یہ تھا:
” صحیح بخاری،کتاب المناقب، حدیث 3535:
اورحضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ سے ) فرمایا کہ تمہیں اس پر حیرت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اورلعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟وہ مذمم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں محمد ہوں ۔ “
مزید براں جن 5 افراد کو قتل کیا گیا انہوں نے کوئی ایک آدھ مرتبہ ہی توہین رسالت کا جرم نہیں کیا تھا بلکہ انکے جرائم میں بدعہدی، مرتد ہونا، لوگوں کو اکسانا، سازشیں کرنے وغیرہ کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ عادتاً اور معمولاً محمد ﷺ پر سب و شتم کیا کرتے تھے۔
وہ واقعات جو صرف توہین رسالت سے مخصوص ہیں
اس ضمن میں موجودہ توہین رسالت کے حامی حضرات کی طرف سے 3 روایات پیش کی جاتی ہیں۔
پہلا: نابینا صحابی کی باندی کا واقعہ
اس قانون کے حامی حضرات سنن ابو داود، حديث نمبر ( 4361 )کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
” ايك اندھے كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:” ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور لڑكھڑاتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں “
معترضین حضرات اس روایت پر یہ تنقید پیش کرتے ہیں:
1. اس روایت کے مطابق بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُس باندی نے پہلی مرتبہ توہینِ رسالت کی ہو اور اس پر فوراً قتل کر دی گئی ہو۔ بلکہ اس میں صاف طور پر موجود ہے کہ اُس باندی نے عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ مستقل محمد ﷺ کو بُرا بھلا کہتی تھی۔
2. اور وہ صحابی پہلی ہی مرتبہ میں فوراً قتل کر دینے کی بجائے شروع میں عفو و درگذر اور صبط و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستقل اُسے ہدایت کی نصیحت کرتے رہے اور ادب سکھاتے رہے، جبکہ موجودہ توہین رسالت میں توبہ یا ہدایت و نصیحت یا ادب سکھانے کی کوئی گنجائش نہیں۔
3. اس روایت کا ایک راوی عثمان الشحام ہے جس کے متعلق علامہ يحيى القطان كہتے ہيں: كبھى معروف اور كبھى منكر بيان كرتا ہے، اور ميرے پاس وہ نہيں (یعنی اسکی روایت قابل قبول نہیں)۔ جبکہ نسائی نے کہا ہے "لیس بالقوی”، یعنی اسکی روایت مضبوط نہیں ہے۔.
ضعف کے علاوہ یہ روایت “خبرِ واحد” بھی ہےاور عثمان الشحام کے علاوہ کسی اور نے اس باندی والی روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔
4. یہ روایت پر "درایت” کے حوالے سے بھی اعتراض ہے۔ اسلام میں "گواہوں” اور "شہادتوں” کا ایک مکمل نظام موجود ہے اور اس نظام میں انتہائی سختی ہے کہ نہ صرف گواہ موجود ہونے چاہیے ہیں بلکہ انکی گواہیوں میں بھی کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ گواہوں کی اتنی سخت شرائط رکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بے گناہ کو کسی صورت غلط سزا نہ ملنے پائے۔
مگر ان نابینا صحابی والی روایت میں کوئی گواہ ہے اور نہ کوئی عدالت ہے اور نہ کوئی ثبوت۔
دوسرا: یہودی عورت کا قتل
سنن ابو داؤد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک اور واقعہ شعبی نے علی ابن ابی طالب سے منسوب کیا ہے:
ايك يہودى عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور آپ پر سب و شتم كرتى تھى، تو ايك شخص نے اس كا گلا گھونٹ ديا حتى كہ وہ مر گئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا خون باطل قرار ديا
معترضین حضرات اس روایت پر یہ تنقید پیش کرتے ہیں:
1. اس روایت کے صحیح ہونے پر اختلاف ہے۔ فقط شعبی نے ہی اسے علی ابن ابی طالب کے نام پر بیان کیا ہے۔ مگر اہل علم کی اکثریت کے مطابق شعبی نے علی ابن ابی طالب کو نہیں پایا ہے اور نہ ان سے احادیث سنی ہیں اور اس وجہ سے یہاں انقطاع ہے۔
شیخ عثمان الخمیس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا شعبی کی علی ابن ابی طالب سے مراسیل قابل قبول ہیں؟ جواب میں شیخ عثمان الخمیس کہتے ہیں کہ شعبی نے علی ابن ابی طالب کو نہیں دیکھا ہے اور اہل علم کے اقوال کے مطابق یہی مشہور ہے کہ علی ابن ابی طالب سے شعبی کی مراسیل صحیح نہیں ہیں۔
2. دوسرا یہ کہ یہ روایت بھی” خبر واحد” ہے جو شعبی کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کی ہے۔
3. تیسرا یہ کہ اس روایت سے بھی پتا چلتا ہے کہ اُس یہودیہ عورت نے "عادت” بنا لی تھی اور وہ مستقل محمد ﷺ پر سب و شتم کرتی تھی اور ایسا نہیں ہوا کہ پہلی مرتبہ میں ہی فورا اسے قتل کر دیا گیا ہو۔
4. چوتھا یہ کہ یہ روایت بھی درایت کے اصولوں پر پوری نہیں اتر پا رہی ہے۔ اس میں بھی منصف ہے، نہ عدالت ہے، نہ مجرمہ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع، نہ گواہان اور نہ انکی شہادتیں۔
تیسرا : ابن ام مکتوم کا واقعہ
طبقات الکبری میں یہ واقعہ ملتا ہے (تفصیلی بحث یہاں:
” ہميں قبيصہ بن عقبہ نے خبر دى، وہ كہتے ہيں ہميں يونس بن ابى اسحاق نے ابو اسحاق سے حديث بيان كى، وہ عبد اللہ بن معقل سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں: ابن ام مكتوم مدينہ ميں ايك انصارى كى پھوپھى جو يہودى تھى كے پاس ٹھرے، وہ ان كے ساتھ نرمى برتتى اور بڑى رفيق تھى، ليكن اللہ اور اس كے رسول كے متعلق انہيں اذيت ديتى، تو انہوں نے اسے پكڑ كر مارا اور قتل كر ديا، اس كا معاملہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لايا گيا تو ابن ام مكتوم كہنے لگے:اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كى قسم اگرچہ وہ ميرے ساتھ بڑى نرم دل تھى، ليكن اس نے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے بارہ ميں بڑى اذيت دى تو ميں نے اسے مارا اور قتل كر ديا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:” اللہ تعالى نے اسے دور كر ديا، ميں نے اس كا خون باطل كر ديا ”
اس پر معترضین حضرات کی طرف سے یہ تنقید پیش ہوتی ہے:
1. پہلا یہ کہ یہ روایت "مرسل” ہے۔ مرسل اس روایت کو کہتے ہیں جس میں تابعی کے بعد والے راوی (یعنی صحابی) کو حذف کر دیا گیا ہو۔ اس روایت کو بیان کرنے والے عبداللہ ابن معقل ہیں جو کہ تابعی ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ محمد ﷺ کے زمانے میں ہونے والے اس ام مکتوم کے واقعے کے عینی شاہد ہوں۔
نیز یہ روایت "غریب” بھی ہے۔ بلکہ غریب حدیث کی بھی جو سب سے نچلے درجہ کی قسم ہے، جسے “غریب مطلق” کہا جاتا ہے، یہ روایت اس “غریب مطلق” درجے کی ہے۔ (یعنی شروع سے لیکر آخر تک ہر دور میں اسکو بیان کرنے والا صرف اور صرف ایک ہی شخص ہے)۔
2. دوسرا یہ کہ اس روایت میں بھی یہ ذکر ہے کہ اس عورت نے اپنی عادت اور معمول ہی بنا لیا تھا کہ وہ اللہ اور اسکے محمد ﷺ کے متعلق گستاخانہ باتیں کر کے لوگوں کو اذیت پہنچاتی تھی، اور یہ نہیں ہوا کہ پہلی دفعہ میں ہی پکڑ کر اسے قتل کر دیا گیا ہو۔
3. درایت کے اصولوں پر بھی یہ روایت پوری نہیں اترتی۔ اس روایت میں بھی کوئی عدالت لگتی ہے اور نہ کوئی گواہ ہیں اور نہ ملزمہ کو صفائی پیش کرنے کا کوئی موقع مل رہا ہے۔ اگر وہ عورت محمد ﷺ پر سبِ و شتم کرتی تھی تو پھر اُس انصاری مسلمان کو ہی اس صحابی سے پہلے اپنے پھوپھی کو پکڑ کر قتل کر دینا چاہیے تھا۔
توبہ کی گنجائش نہیں، ہر صورت میں موت کی سزا
قانون توہین رسالت (پاکستان) اہلحدیث فقہ پر مبنی ہے۔ اسلام سوال جواب ویب سائیٹ پر شیخ محمد صالح المنجد معافی کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں کہ
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا عظيم حرام كاموں ميں شامل ہوتا ہے، اور بالاجماع يہ كفر اور اسلام سے ارتداد ہے، چاہے ہنسى مذاق ميں ہو يا حقيقتا، اور اس كے مرتكب كو قتل كيا جائے گا چاہے وہ توبہ بھى كر لے، چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر. “
معترضین حضرات کو اس توبہ کے مسئلے پر اختلاف ہے اور وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اہلحدیث فقہ میں اگر کوئی شخص مرتد ہو جاتا ہے، تب بھی اسکے پاس 3 دن کا وقت ہوتا ہے کہ وہ توبہ کر لے- لیکن انکے مطابق اگر کسی شخص سے غیر دانستگی میں ہنسی مذاق میں چھوٹی سی بھی بات گستاخی رسول میں ہو جائے تو ہرگز اسکی توبہ قبول نہ ہو گی، بلکہ ہر صورت میں اسے قتل کیا جائے گا۔مزید دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے جہاں رسول (ص) نے توہین کرنے والے انصاری صحابی پر نہ مرتد کا فتویٰ لگایا اور نہ اسے قتل کیا۔ اسی طرح صحیح بخاری کی دوسری روایت جہاں آپ نے جناب عائشہ کو یہودیوں کی گستاخی سے درگذر کرنے کا اس لیے کہاں کیونکہ اللہ تعالی خود نرمی کرتا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
محمدﷺ کے علاوہ کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں
محمد ﷺ نے خیبر، مکہ و طائف وغیرہ فتح ہو جانے کے باوجود ان تمام لوگوں کو قتل نہیں کیا جو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔ نہ ہی ان یہودیوں کو قتل کیا جو راعنا اور السام علیکم جیسے الفاظ کا استعمال کر کے آپ ﷺ کی توہین کیا کرتے تھے۔ اس پر موجودہ توہین رسالت قانون کے حامی حضرات کا دعویٰ ہے کہ محمد ﷺ کو حق حاصل تھا کہ جو انکی شان میں گستاخی کرے اُسے معاف کر دیں، مگر آج کسی کے پاس یہ حق نہیں ، چنانچہ آج ہر صورت میں گستاخ کو قتل کیا جائے گا۔
معترضین حضرات کے نزدیک یہ دعویٰ قابل قبول نہیں کیونکہ:
1. محمدﷺ سے براہ راست کوئی ایسی بات بیان نہیں ہوئی ہے کہ وہ توہین رسالت کرنے والوں کو اس لیے معاف کر رہے ہیں کیونکہ یہ انکا حق ہے۔ بلکہ یہ ایک نیا عذر ہے جو لوگوں کی اپنی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔
2. اہل مکہ فقط محمد ﷺ کی ہی توہین نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اپنے بتوں کے مقابلے میں اللہ کی بھی توہین کرتے تھے، وہ اپنے دین کے مقابلے میں دینِ اسلام کی بھی توہین کیا کرتے تھے، مگر اسکے باوجود محمد ﷺ نے انہیں معاف کیا۔
3. اور جب حضرت ابوہریرہ کی والدہ نے محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو حضرت ابو ہریرہ اس پر شدید رنجیدہ ہوئے، مگر آپ نے انکی اس گستاخی پر عفو و درگذر سے کام لیا، نہ کہ فوراً انکو قتل کر ڈالا۔معاف کرنے کا حق فقط محمد ﷺ کا تھا اور ابو ہریرہ کے پاس یہ حق نہیں تھا تو پھر تو جناب ابو ہریرہ کو فی الفور اپنی والدہ کو توہین کرنے پر قتل کر دینا چاہیے تھا۔ مگر وہ اپنی والدہ کو قتل نہیں کرتے، اور پھر محمد ﷺ کے پاس حاضر ہو کر بھی قتل کی بات نہیں کر رہے، بلکہ محمد ﷺ سے اپنی والدہ کی ہدایت کی دعا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
4. بلکہ موجودہ قانون کے حامی حضرات کی اپنی پیش کردہ نابینا صحابی اور یہودیہ عورت والی روایات کو بھی صحیح مان لیا جائے تب بھی ان سب سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ پہلا قدم عفو و درگذر اور صبر و تحمل اور نیک نصیحت کا ہے، اور یہ عفو و درگذر فقط محمد ﷺ تک محدود نہیں بلکہ وہ نابینا صحابی پہلے قدم میں عفو و درگذر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس روایت میں بہت صاف طور پر موجود ہے کہ وہ کنیز باندی مسلسل اور بار بار محمد ﷺ کی توہین کیا کرتی تھی، مگر وہ صحابی معاف کرنے کا حق نہ ہونے کے باوجود اس کنیز باندی کو قتل نہیں کرتے تھے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ فقط نیک نصیحت کرتے تھے۔
5. محمد ﷺ کے سامنے براہ راست جتنی مرتبہ بھی گستاخی کی گئی (چاہے وہ جناب ابو ہریرہ کی والدہ ہوں، یا عبداللہ ابن ابی، یا پھر یہودی وغیرہ) اس پر آپ (ص) نے اپنے صحابہ کو فقط اور فقط صبر و تحمل، اچھی نصیحت کرنے اور دعائے خیر کا حکم دیا۔ کہیں دور دور تک آپ (ص) نے یہ اشارہ نہیں دیا کہ صحابہ یہ اچھی نصیحت، یہ دعائے فقط محمد ﷺ کی زندگی تک کریں، اور آپ (ص) کی وفات کے بعد اچھی نصیحت اور دعائے خیر کی بجائے ہر ہر صورت لوگوں کو فوراً قتل کرنا شروع کر دیں۔
6. اور محمد (ص) کی یہ روایت اس معاملے میں تمام شبہات کو دور کر رہی ہے۔
” صحیح بخاری، کتاب كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، حدیث 6929:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا انہوں نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہؓ سے انہوں نے کہا یہود میں سے چند لوگوں نے نبی ﷺ کے پاس آنے کی اجازت چاہی (جب آئے تو) کہنے لگے السام علیک میں نے جواب میں یوں کہا علیکم السام واللعنۃ آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ اللہ تعالیٰ نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہےمیں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے ان کا کہنا نہیں سنا آپ نے فرمایا میں نے بھی تو جواب دے دیا وعلیکم۔ “
چنانچہ دلیل یہ ہے کہ محمد (ص) نے جناب عائشہ کو یہ نہیں کہا کہ انہیں معاف کرنا میرا حق تھا اس لیے تم انہیں قتل نہ کرو اور نہ ہی ان پر لعنت کرو۔ نہیں، بلکہ محمد (ص) نے اسکی واضح وجہ یہ فرمائی کہ "اللہ تعالی نرمی کرتا ہے اور ہر کام میں نرمی پسند کرتا ہے”۔ پس توہین رسالت کے معاملے میں جو نرمی ہے وہ محمد ﷺ کے حق کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کی نرمی کی وجہ سے ہے جو کہ محمد ﷺ کی وفات کے بعد ختم نہیں ہو گئی، بلکہ قیامت تک یوں ہی جاری رہنے والی ہے۔
سورۃ المائدہ کی آیات 33 اور 34 پر بحث
موجودہ توہین رسالت قانون کے حامی حضرات کے نزدیک اس قانون کی بنیاد سورۃ المائدہ کی آیات 33 اور 34 ہیں
” جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے، اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا ئے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے۔ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے، مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ “
معترضین حضرات[75] کی طرف سے اسکا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اولاً، اِس لیے کہ آیت میں ‘يُحَارِبُوْنَ’کا لفظ ہے۔ یہ لفظ تقاضا کرتا ہے کہ آیت میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ اُسی صورت میں دی جائیں جب مجرم سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے۔ آدمی الزام سے انکار کرے یا اپنی بات کی وضاحت کر دے اور اُس پر اصرار نہ کرے تو لفظ کے کسی مفہوم میں بھی اِسے محاربہ یا فساد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ثانیاً، اِس لیے کہ اقرار و اصرار کے بعد بھی مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ اور رجوع کر لے تو قرآن کا ارشاد ہے کہ اُس پر حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ توبہ کرلینے والوں کو یہ سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کارروائی سے پہلے اُنھیں توبہ و اصلاح کی دعوت دینی چاہیے اور بار بار توجہ دلانی چاہیے کہ وہ خدا و رسول کے ماننے والے ہیں تو اپنی عاقبت برباد نہ کریں اور اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور ماننے والے نہیں ہیں تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کریں اور اِس جرم شنیع سے باز آجائیں۔ثالثاً، اِس لیے کہ آیت کی رو سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اُنھیں قتل ہی کیا جائے۔ اُس میں یہ گنجایش رکھی گئی ہے کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات تقاضا کرتے ہوں تو عدالت اُسے کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس طرح کے مجرموں کو علاقہ بدر کر دیا جائے۔
اِس وقت جو قانون نافذ ہے، اِن میں سے کوئی بات بھی اُس میں ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ وہ مجردشہادت پر سزا دیتا ہے، اُس میں انکار یا اقرار کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا آیت تقاضا کرتی ہے، سرکشی اور اصرار بھی ضروری نہیں ہے، دعوت و تبلیغ اور اِس کے نتیجے میں توبہ اور اصلاح کی بھی گنجایش نہیں ہے، اُس کی رو سے قتل کے سوا کوئی دوسری سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔
سورۃ التوبہ، آیت 12 سے استدلال
موجودہ توہین رسالت قانون کے حامی حضرات اس قانون کی دلیل میں سورۃ توبہ کی آیت 12 سے بھی استدلال کرتے ہیں۔
[القرآن توبہ، 12وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ [محمودالحسن: توبہ آیت 12] اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔
معترضین حضرات اسکا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ذکر ہے اول "کفر کے ائمہ(سرداروں)” کا، یعنی جن کا کفر انتہائی شدید ہے اور جو عملی طور پر مسلمانوں کی جانوں کے لیے خطرہ ہے۔ اور دوم یہ کہ یہ آیت ہے جب انہوں نے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا۔ سوم، آیت میں لڑنے کا حکم فقط اس وقت تک ہے جبتک کہ وہ باز نہ آ جائیں۔ تفسیر عثمانی میں اسکی تفصیل یہ ہے:
"یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر” (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آجائیں۔”
امام ابو حنیفہ ، امام ثوری اور اہل کوفہ کی رائے اس آیت کے متعلق یہ ہے
أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا” الآية.
یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم محمد ﷺ کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا جس کا فیصلہ حکومتِ وقت کرے)۔ اور انہوں نے حجت پکڑی ہے اللہ تعالی کے اس قول سے "وان نکثوا” والی آیت۔وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ﴿009:012﴾
ترجمہ:
اور اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آئیں۔
تفسیر صلاح الدین (شاہ فہد پرنٹنگ پریس کا شائع کردہ) میں اس آیت کے ذیل میں درج ہے:۔
اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔
صحابہ سے اس آیت کی یہ تفسیر مروی ہے:
حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة: { وَإنْ نَكَثُوا أيمَانَهُمْ مَنْ بَعْد عَهْدِهِمْ… } إلى: { يَنْتَهُونَ } ، فكان من أئمة الكفر: أبو جهل بن هشام، وأمية بن خلف، وعتبة بن ربيعة، وأبو سفيان، وسهيل بن عمرو، وهم الذين هموا بإخراجه. امام عبدالرزاق، ابن جریر طبری، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "ائمۃ الکفر” سے مراد ابو سفیان بن حرب، امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام اور سہیل بن عمرو ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑا اور محمد ﷺ کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا قصد کیا۔(ان ائمہ کفر میں سے سھیل بن عمرو کو بھی فتح مکہ کے موقع پر معاف کر دیا گیا
حضرت عمر ابن الخطاب والی روایت سے دلیل پکڑنا
اس قانون کے حامی حضرات حضرت عمر ابن الخطاب کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں جسکی تفصیل ان حضرات کی زبانی یہ ہے:
اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. محمد صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح محمدﷺ نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا محمد ﷺ! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”
اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65 تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.
یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی محمدﷺ کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے ۔
معترضین حضرات[86] اسکا جواب یہ دیتے ہیں کہ:
1. یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
2. یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
3. یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
4. اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے جو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے محمد ﷺ کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی محمد ﷺ کی وفات کے 117 سال کے بعد)
یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)
امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے
” صحیح بخاری، کتاب التفسیر، حدیث 2363:
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے حضرت زبیرر ضی اللہ عنہ سے حرہ کی ندی کے بارے میں جس سے کھجوروں کے باغ سیراب ہوا کرتے تھے ، جھگڑا کیا ۔ محمدﷺنے فرمایا: اے زبیر ! تم سیراب کرلو پھر اپنے پڑوسی بھائی کےلیے جلد پانی چھوڑ دینا ۔ اس پر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ! یہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں۔ اس پر محمد (ص) کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اے زبیر ! تم سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی کھیت کی مینڈوں تک پہنچ جائے ۔ اس طرح آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق دلوادیا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ قسم اللہ کی ! یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی تھی” ہرگز نہیں ، تیرے رب کی قسم ! اس وقت تک یہ ایمان والے نہیں ہوں گے ۔ جب تک اپنے جملہ اختلافات میں آپ کو تسلیم نہ کریں ۔ "ابن شہاب نے کہا: انصار اور تمام لوگوں نے اس کے بعد نبی ﷺ کے اس ارشاد کی بناء پر کہ ” سیراب کرو اور پھر اس وقت تک رک جاؤ جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے” ایک اندازہ لگالیا ، یعنی پانی ٹخنوں تک بھرجائے۔ “
معترضین حضرات دلیل دیتے ہیں کہ جب اس صحابی نے کہا:”جی ہاں! یہ آپکی پھوپھی کے بیٹے ہیں”، تو یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس پر اس صحابی کو قتل نہیں کیا ۔۔۔ (اور نہ ہی اس چھوٹی بات پر آپ (ص) نے اس صحابی کو مرتد قرار دیا)۔
حضرت ابو بکر صدیق کی روایت: محمد ﷺ کے علاوہ کسی اور کو برا بھلا کہنے پر قتل کرنا جائز نہیں
موجودہ توہین رسالت قانون کے حامی حضرات جناب ابو بکر کی یہ روایت بطور دلیل پیش کرتے ہیں:
” ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟ تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے۔نسائى حديث نمبر ٣٧٩٥ “
معترضین حضرات اسکے جواب میں کہتے ہیں کہ محمد ﷺ سے براہ راست منسوب ساری روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ پہلی مرتبہ میں ہی قتل نہیں کر دیا گیا، بلکہ پہلے مرحلے میں عفو و درگذر اور ہدایت و نصیحت سے کام لیا گیا ہے۔شریعت بنانے والی ذات فقط اللہ کی ہے۔ حتی کہ محمد ﷺ کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ شریعت سازی کریں۔ محمد ﷺ کی بات کو شریعت کا حصہ اس لیے مانی جاتی ہے کیونکہ قرآن میں ہے کہ محمد ﷺ اسکے سوا کچھ نہیں بولتے جو کہ اللہ نے انکی طرف وحی کیا ہے۔ اور جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر صرف اور صرف محمد ﷺ پر نازل ہوتے تھے۔ چنانچہ قرآن اور قول رسول ہی واحد حجت ہے۔ صحابہ کرام اگر قول رسول بیان فرما رہے ہیں تو وہ قابل قبول ہے، مگر اگر کوئی مسئلہ اپنی رائے اور اجتہاد کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں تو اس کو قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام کے آپس میں بہت سے مسائل پر ایک دوسرے کی آراء سے اختلاف کیا۔ اس معاملے میں حضرت ابوبکر کی رائے جناب عائشہ اور جناب ابو ہریرہ وغیرہ کی روایات کے مطابق نہیں جس میں بذات خود محمد ﷺ شریعت واضح کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں حضرت ابو بکر والی روایت کی تطبیق کی جائے گی حضرت ابو بکر بھی پہلے مرحلے میں قتل کی نہیں بلکہ مسلسل اور عادت بنا لیے جانے والے شخص کے قتل کا کہہ رہے ہیں، اور گستاخی کیوجہ سے مرتد ہو جانے کے بعد توبہ نہ کرنے والے کی قتل کی بات کر رہے ہیں۔
قائد اعظم اور توہین رسالت قانون
موجودہ توہین رسالت قانون کے حمایت حضرات کا کہنا ہے کہ قائد اعظم بھی توہین رسالت پر قتل کی سزا کے قائل تھے اور آپ نے اسی لیے ماورائے عدالت قتل کرنے والے علم دین کی وکالت کی تھی۔
معترضین حضرات اسکا جواب یہ دیتے ہیں کہ قائد اعظم کا مقصد اور مؤقف کسی صورت یہ نہیں تھا کہ توہینِ رسالت کے نام پر کسی کو قتل کیا جائے، بلکہ قائد اعظم نے اس مقدمے کی پیروی میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ علم دین نے "قتل عمد” (ارادتی قتل) نہیں کیا ہے بلکہ غم و غصہ کی وجہ سے کیا ہے، چنانچہ اسکی سزا پھانسی نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے کم درجے کی سزا (عمر قید) دی جائے۔ یعنی قائد اعظم کی نظر میں بہرحال علم دین مجرم تھا مگر فرق صرف یہ تھا کہ وہ اسے قتل سے تھوڑے چھوٹے درجے کا مجرم ثابت کر کے اسکی سزا قتل سے کم کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بلکہ قائد اعظم تو "توہین دین” کے نام پر بنائے جانے والے انڈین پینل کوڈ 295A پر بھی تنقید کر رہے تھے کہ جسکے تحت توہینِ دین کرنے پر 3 سال قید کی سزا جاری کی گئی تھی۔ قائد اعظم اس پر تنقید کر رہے تھے کہ اس قانون کے ذریعے مذہب پر اٹھائے جانے والی بحث و علمی تنقید کا گلا گھونٹا جا سکتا ہے۔
گستاخ رسول کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت –
موجودہ توہین رسالت کے حامی حضرات عصماء اور یہودی عورت اور نابینا صحابی والی روایات کے تحت ماورائے عدالت قتل کو مکمل طور پر ممنوع نہیں کرتے بلکہ کسی نہ کسی صورت میں اسکی اجازت برقرار رکھتے ہیں۔ سعودیہ کے مفتی اعظم، ناصر الدین البانی صاحب فرماتے ہیں:
عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے کچھ سوال جواب یوں ہوئے ہیں :
سوال :
کیا اہانتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مرتکب کو کوئی بھی عام مسلمان قتل کر سکتا ہے؟
جواب :
یہ بات صحیح ہے کہ اہانت رسول کرنے والے کی سزا موت ہے لیکن اس کا حق صرف حکمران کو یا اس کے نائب کو ہے ہر کسی کو نہیں
سوال :
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ ایک صحابی نے بغیر حکومت کے بھی خود سے اپنی لونڈی کو قتل کر دیا کہ جب اس نے اہانت رسول کی
جواب :
یہ تو ایک واقعہ ہے کہ جب کوئی جذبات میں مغلوب ہوکر ایسا اقدام کرلے تو قدراللہ وماشاء فعل دلائل سے ثابت ہونے کے بعد اس کا مواخذہ پھر نہیں ہونا چاہیے مگر عمومی قاعدہ یہ نہیں کہ ہر کوئی خود سے قتل کر دے
سوال:
مرنے والے پر اظہار افسوس ؟؟
جواب :
نہیں افسوس تو نہیں ہوسکتا۔
جبکہ معترضین حضرات کسی صورت ماورائے عدالت قتل کی اجازت کے قائل نہیں بلکہ وہ یہ حق فقط عدالت یا حکومت کو دیتے ہیں وہ اس مسئلے میں فیصلہ کرے۔
منقول ـ