توضیحات

میں نے جو کچھ آج تک پڑھا ھے اور سمجھا ھے اس کے لحاظ سے میں یہ نبی کریم ﷺ کی سفارش اور وسیلے کے معاملے میں ایک بڑا معتدل مگر ٹھوس عقیدہ رکھتا ھوں !
1- نبی کریم ﷺ کی ذات کی حد تک میں وسیلے کا قائل ھوں ، اس سے نیچے ابوبکر صدیقؓ کو اگرچہ نبیوں کے بعد سب سے بہترین انسان ” خیر البشرِ بعد الانبیاء "سمجھتا ھوں ” مگر ان کے وسیلے کا قائل نہیں ، باقی کے لئے تو ظاھر ھے کوئی گنجائش نہیں بچتی !
2- بحیثیت امتی نبئ کریم ﷺ پر تمام امتیوں کا حق برابر ھے ،جس طرح والدین پہ تمام اولاد کا حق برابر ھوتا ھے ،اگرچہ ان میں لائق و نالائق بھی ھوتے ھیں !
3- نبی کریمﷺ کے بغیر نہ میرا کلمہ مکمل ھے ، نہ میری اذان مکمل ھے ، نہ اقامت مکمل ھے اور نہ میری نماز مکمل ھے ، نہ ھی میری دعا مکمل ھے ،، اسی لئے نماز میں درود پہلے اور دعا بعد میں رکھی گئ ھے !
4- تبرک صرف نبئ کریمﷺ کا تبرک ھے ،جس کے لئے صحابہؓ آپس میں چھینا چھپٹی کرتے تھے، اور جن کے بچائے گئے پانی کو امھات المومنین حجرے سے آواز دے کر مانگا کرتی تھیں ،، جن کے وضو کےپانی کو بھی نیچے نہیں گرنے دیا جاتا تھا ۔۔
اس سے نیچے ابوبکر صدیقؓ کے پانی کو بھی تبرک نہیں سمجھتا کیونکہ صحابہؓ کا ایک دوسرے کے پانی کو تبرک سمجھنا ثابت نہیں ، پیروں کے جھوٹے کو ظاھر ھے پھر میں کیونکر تبرک سمجھ سکتا ھوں !!
نبی کریم ﷺ اپنی رحلت کے بعد بھی اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ ھمارے نبی ھیں ،، ان کی رحلت کا ان کے اختیارات پہ کوئی اثر نہیں ،، وہ آج بھی اسی طرح مطاع ھیں جس طرح دنیاوی حیات میں مطاع تھے ، ان کی قبر کے پاس چلا کر بولنا آج بھی اسی طرح گستاخی ھے جس طرح دنیاوی حیات میں آپ کے حجرے کے باھر چلا کر بولنا گستاخی تھی !
جس طرح نبی ﷺ کے حکم کو سن لینے کے بعد ابوبکر صدیق ؓ سمیت صحابہ میں سے کسی کا حکم واجب الاطاعت نہیں تھا ، اسی طرح آج بھی نبئ کریم ﷺ کا حکم صحیح ثابت ھو جائے تو کسی اور کا قیاس و استنباط کوئی حیثیت نہیں رکھتا ،،
اللہ پر ایمان کے بعد نبی پر ایمان سب سے بڑی نیکی ھے ، اس کی قبولیت پر ھی بقیہ عبادات کی قبولیت کا دارو مدار ھے ،، ورنہ عبداللہ ابن ابئ نبیﷺ کی اقتداء میں پہلی صف میں پڑھی گئ نمازوں کے کنٹینر بھر کر کارگو کرائے بیٹھا ھے،،
اور اپنی نیکی کے وسیلے سے دعا مانگنا متفق علیہ حدیث سے ثابت ھے ، لہٰذا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے وسیلے سے دعا مانگتے ھوئے مجھے بالکل کبھی شرم محسوس نہیں ھوئی !!
ھذا ما عندی والعلمُ عنداللہ