تصوف

وحدت الوجود بھگتی مذھب کا سروپ!
بھگت کبیر نے ھندوستان میں تمام مذاھب پر مشتمل ایک ملغوبہ بنایا تھا ،یہ ایک بیوہ ھندو عورت کی ناجائز اولاد تھا جسے اس کی ماں نے سماج کے خوف سے ایک تالاب کے کنارے پھینک دیا تھا،جہاں سے وہ مسلمان جولاھے کے ھاتھ لگا ، اسی نے وہ مذھب تخلیق کیا کہ جسے بڑے بڑے صوفیاء نے گرم کیک کی طرح ھاتھوں ھاتھ لیا ،، نوبت یہانتک پہنچی کہ اکبر دینِ اکبری بنانے پر مجبور ھو گیا ،جو اصل میں بھگتی مذھب تھا ! اس میں اللہ پاک ھی ھر ھر میں ھے ،، کاشی اور مکہ ایک ھی ھیں اور گنگا اور زمزم ایک ھی چشمے کے دو سوتے ھیں ! ھندو اور مسلم کوئی غیر نہیں اور نہ ھی ان میں کوئی برا ھے ،سب اسی کے مرضی کا رول کر رھے ھیں ! مسلمان صوفیاء کی شاعری جو اس زمانے سے تعلق رکھتی ھے، وہ بتاتی ھے کہ بھگتی مذھب یا وحدت الوجود یا ” ھر ھر "مذھب اتنا مقبول تھا کہ صوفیاء نے اس کے اظہار میں کوئی خوف محسوس نہیں کیا کہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف نظرئے پر مسلمانوں میں کوئی رد عمل ھو گا ،، آج دوسروں کو مستحبات و مباحات کے اختلاف پر کافر قرار دینے والے اس زمانے کے صریح کفر کو کس طرح شیر مادر سمجھ کر ھضم کرتے رھے،، تف ھے ان کی غیرت ایمانی پر !
بلہے شاہ اور بھگتی مذھب !
دوئی دور کرو کوئی شور نہیں !
ایہہ تُرک ،ھندو کوئی ھور نہیں !
سب سادھ کہو ،کوئی چور نہیں !
ھر گھٹ وچ آپ سمایا ائے !
ایک جگہ فرماتے ھیں !
کیوں اوئلے بہہ بہہ جھاکی دا ؟
ایہہ پردا کس توں راکھی دا ؟
تسیں آپے آپ ھی سارے ھو !
کیوں کہندے اسی نیارے ھو !
آئے اپنے آپ نظارے ھو !
وچ برزخ رکھیا خاکی دا !
بھگتی مذھب ” ھر ھر ” یا ھمہ اوست ! پر لکھتے ھیں !
اک لازم بات ادب دی اے !
سانوں بات ملومی سب دی اے !
ھر ھر وچ صورت رب دی ائے !
کتے ظاھر تے کتے چَھپدی اے !
اب بایا فرید کا مذھب بھی دیکھ لیں !
سب صورت وچ ذات (اللہ ) سنجانی !
حق باھجوں کوئی غیر نہ جانی !
نہ کوئی آدم نہ کوئی شیطان !
بن گئ سب کوڑ کہانی !
قرآن میں تاکید سے بار بار کے بیان کردہ قصہ آدم و شیطان کو ” کُوڑ ” یعنی جھوٹ کہہ دینا اور پھر نہ صرف مسلمان رھنا بلکہ قطب اور غوث بھی بن جانا یہ صوفیاء کا ھی کمال تھا !
تفسیرِ نعیمی کی جلد ششم ذرا دیکھ لیجئے توحید کے بیان میں کیا گلفشانی کی گئ ھے !
خود بن کے خلیل آپ کو آتش میں گرایا ! اور خود ھی اس گھر کو گلزار بنایا !
یوسف تمہیں یعقوب تمہیں ، تم ھی زلیخا ،، موسی تمہیں ،عیسی تمہیں اور تمہی ھو یحی !
باقی تو خیر جو ھے سو ھے ،، اللہ کے زلیخا ھونے کے بارے میں کیا خیال ھے ؟
اسلام کی سادہ چند سطری توحید کی تعلیم دیکھیں !
کہ تمہارا ایک خالق ھے جو بہترین صفات کا مالک ھے ،اس جیسا کوئی نہیں ، نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کچھ اس نے جنا ھے اور نہ ھی کوئی اس کا ھم جنس ھے ! تم سب اس کے بندے ھو جو امتحان کے لئے بھیجے گئے ھو ،، کامیاب لوگوں کو ایک دن انعام سے نوازا جائے گا اور ناکام عذاب سے دوچار ھوں گے ! اس سادہ تعلیم کو کس طرح فلسفوں کی خراد پہ چڑھایا گیا یہ ایک لمبی داستان ھے !
ھندوستان کی مٹی آدم خور نہیں مگر مذھب خور ھے،، جس مذھب کے حامل بھی اس پر حملہ آور ھوئے اس نے اپنے دروازے ان کے لئے کھول دیئے گویا وہ کب سے کسی تازہ مذھب کی منتظر تھی،، آنے والا فاتح کہلانے کی خوشی میں ھی پھولا نہ سمایا اور اس کی نظر اس طرف اٹھ کر نہ گئ کہ اس کی روح ،اس کا مذھب آئستہ آئستہ سبز سے ھلکا براؤن ھو رھا،، وہ مر رھا ھے ،سسک رھا ھے اور کوئی اور اژدھا نما بلا اسے آئستہ آئستہ نگلتی جا رھی ھے، نگلنے کے اس عمل کا نقطہء کمال یہ ھوتا ھے کہ ھندوستان کا مذھب ھی فاتح کے مذھب کا روپ دھار کر معصومیت سے اس کی انگلی پکڑ لیتا ھے،اور انسان اسے اپنا بچہ سمجھ کر پالنا اور اور اپنا مذھب سمجھ کر پوجنا شروع کر دیتا ھے ! یہ واردات بدھ مت ،جین مت ،زرتشت کے عقائد ،سکھ ازم اور پھر اسلام کے ساتھ ھوئی،، سارے مذھب نگل جانے کے باوجود اسلام آسمانی کتاب اور اللہ کے حقیقی کلام کی بدولت ابھی تک مزاحمت کر رھا ھے ، اسلام کے نام پر تاریخ میں پہلی دفعہ ھندوستان کی تقسیم ھوئی ،یوں اسلام نے اپنے زندہ ھونے کا ثبوت دیا،، یہ الگ بات ھے کہ کلام اللہ نے اپنا وجود برقرار رکھا،اور ھندوؤن کے اسکرپٹ کا حصہ نہ بنی،مگر مسلمانوں کو ھند کی مٹی نے اپنا لیا،اسکی ایک وجہ تو مسلمانوں کا وراثتی طور پر اس مٹی اور ھندومت سے تعلق تھا، وہ جب اسلام میں داخل ھوئے تو پچھلا ڈیٹا یاعقائد فارمیٹ کر کے نہیں آئے تھے بلکہ وہ فائلیں بھی ساتھ ھی لے آئے تھے، بس ان کے دیوتاؤں کے نام تبدیل ھو گئے تھے اگرچہ شکتیاں پرانے دیوتاؤں والی تھیں،،آج بھی ھندو خواجہ غریب نواز کو اپنا دیوتا ھی سمجھتے ھیں اور ھر امید ان سے بر آنے کی امید لے کر آتے ھیں،، ھر فلم کے مہورت سے پہلے تحفوں کے ٹوکرے لئے امیتابھ بچن اور ایشوریا رائے خواجہ کی درگاہ پر ننگے پاؤں ٹوکرا لیئے حاضر ھوتے ھیں جسے وصول کر کے سبز چادر ان کے کندھوں پر سجا کر سجادہ نشین انہیں تحفے کی قبولیت اور مقصد میں کامیابی کی نوید سناتے ھیں ! کدی خواجہ پیا بن جانا ھیں -کدی گنج شکر بن آنا ایں ! نت نویں توں روپ وٹاناں این – میں پھڑیا جاں جے میں ھوواں ! میں اسی عقیدے کا اظہار کیا گیا ھے ! ھمارے یہاں قطب و غوث کے اختیارات کا ایڈمنسٹریٹیو ٹری مکمل طور پر ھندو مذھب کا چربہ ھے اور یہی ھندو نما مسلمان یا مسلمان نما ھندو پیدا کرتا چلا جا رھا ھے، اسلام اس قسم کے تصرفات اور تقدیروں کی ملکیت کسی اور کو سونپنے کے بالکل خلاف ھے،، قرآن و سنت اس قسم کے عقیدے کو بالکل سپورٹ نہیں کرتے بلکہ پورا قرآن ببانگِ دھل ان عقائد کی نفی کرتا ھے اور اللہ کے قریب ترین اور عزیزی ترین بندوں یعنی انبیاء کی مثالیں دے دے کر عملاً ثابت کرتا ھے کہ وہ قطب و غوث کے اختیارات نہیں رکھتے تھے بلکہ ھمارے بندے تھے اور ھر چیز ھم سے مانگ مانگ کر لیا کرتے تھے اور مانگتے بھی گڑگڑا گڑگڑا کر تھے اور ھر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے اللہ کی ذات سے رجوع کرتے تھے، مثلاً موسی علیہ السلام کی سورہ قصص والی دعا،، رب انی لما انزلت الی من خیر ” فقیر "( القصص 24 ) ان کی بےبسی کی تصویر کشی کرتی ھے،،اے پروردگار،، آج تو تُو جو بھی جتنی بھی خیر بھیج دے میں سخت محتاج ھوں ! یہ دعا کوٹ کرنے کا مقصد ھی ان کی قطبیت و غوثیت کی نفی کرنا تھا ! پھر سورہ الانبیاء میں تمام مشہور نبیوں کے مصائب اور پھر ان کی دعا اور پھر اللہ کی طرف سے ان کی مدد کے واقعات اس بات کو واضح کرنے کے لئے بیان کیئے گئے کہ،،عام آدمی ھو یا رب کا مقرب پیغمبر سب کا حقیقی ہتھیار دعا اور صرف دعا ھے،، کوئی اپنی غوثیت بھی نہیں کر سکتا تو دوسروں کی فریاد کو کیا پہنچے گا ! ھمارے بزرگوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن ان کے ان عقائد میں نہ صرف ان کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ سب سے بڑا مخالف اور سب سے بڑی رکاوٹ اور اڑچن ھے،،تو انہوں نے قرآن کے ظاھر اور باطن کا نظریہ گڑھا،یعنی گویا قرآن کا متن ھمارا ساتھ نہیں دیتا مگر قرآن کا باطن جو اصل چیز ھے وہ ھمارے ساتھ ھے،،محمدﷺ کے اگر اقوال ھمارے خلاف ھیں تو کوئی بات نہیں مگر حقیقتِ محمدی ھمارے ساتھ ھے،، یوں ھر چیز کا ظاھر اور باطن الگ کر کے اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا گیا،،مگر یہ باطنیت بھی ایک تھیوری ھی رھی،ثابت نہ کی جا سکی،،میں ان سے کہتا ھوں کہ قرآن کا ظاھر اور باطن ایک ھے،، محمدﷺ کا ظاھر اور باطن ایک ھے،،کعبے کا ظاھر اور باطن ایک ھے،، کائنات کا ظاھر و باطن ایک ھے،، ھاں آپ کا ظاھر اور باطن جدا جدا ھے ! آپ کا ظاھر مسلمان مگر آپ کا باطن کچھ اور ھے! ھندوستان کا ھر مذھب بے کلچر ھے کیونکہ ان کے پاس کوئی اسوہ نہیں ،،کوئی معلوم ایک ھستی نہیں کوئی زرخیز سنت نہیں جہاں سے وہ راہ پائیں ،یہ کمال اللہ پاک نے اسلام کو دیا ھے کہ اس کی کتاب بھی معلوم،، نبی کی سنت بھی معلوم ،، نبی کی قبر بھی معلوم اور اس کے نبی نے اپنی گیارہ بیویوں چار بیٹیوں اور ڈھیر سارے رشتے داروں کے ساتھ بھرپور معاشرتی زندگی گزاری،جس میں پیدائش ،شادی بیاہ،موت عید میلہ اور خرید فروخت سمیت ھر وہ چیز موجود ھے جسے کلچر کے نام پر متعارف کرا کر دوسرے مذھب میں گھسایا جاتا ھے ،، الحمد للہ اسلام اس لحاظ سے بھی بنیانٓ مرصوص رکھتا ھے،،اسے غیر سے کلچر اڈاپٹ کرنے کی ضرورت ھی نہیں ،، لہذا میرے نزدیک ھندو ازم کو کلچر کے طور پر اختیار کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا !
ھندوؤں کے تین اساسی دیوتا ھیں،، باقی ان ھی دیوتاؤں لطیفے یا صفات ھیں جو متشکل ھو گئ ھیں ! برھما – وشنو اور شیوا ،، برھما عالم یا کائنات کا خالق اور قائم بالذات ھے، یہ تخلیقی صلاحیت کا حامل ھے،جس نے عالم کو عدم سے وجود بخشا ھے،مگر یہ صرف فلسفیانہ ھستی ھے جس نے ایک دفعہ عالم کو حرکت دی اور پھر اس سے بیگانہ اور لاتعلق ھو کر بیٹھ گیا،، یہی وہ تصور ھے جس کی نفی اللہ پاک قرآن میں بار بار کرتا ھے اور بتاتا ھے کہ وہ عالم کے ساتھ مکمل رابطے میں ھے ،،زمین آسمان والے سارے اسی سے سوال کرتے ھیں اور وہ ھر دن مشغول ھوتا ھے،، یسئلہ من فی السمواتِ والارض،کل یوم ھو فی شأن ،، وہ تمہاری آنکھوں کی خیانت سے بھی آگاہ ھے،جہاں تم ھوتے ھو وہ تمہارے ساتھ ھوتا ھے،جو کرتے ھو اسے دیکھتا ھے جو بولتے ھو اسے سنتا ھے، غم اور خوشی ،زندگی اور موت،امیری اور غریبی اسی کے دست قدرت سے مل رھی ھے، وغیرہ وغیرہ،، اللہ کے اس بیان کے پیچھے انسانی فطرت کی کمزوری ھے کہ وہ معزول کی طرف توجہ نہیں کرتا،،جو اللہ کو لاتعلق سمجھتے ھیں وھی نہ صرف غوث اور قطب ایجاد کرتے ھیں تا کہ اللہ کی لاپرواھی کی کمی کو دوسرے کے متحرک ھونے سے پورا کیا جائے،یہی وجہ ھے کہ داتا صاحب کی مسجد میں نماز پڑھنے والا بھی اٹھ کر مانگتا جا کر داتا سے ھے،اصل میں یہ ھندو عقائد کا کیا دھرا ھے،، اسلام کا خدا اس عاجزی سے بری ھے،، وہ نبیوں سمیت تمام مخلوق کی براہ راست سنتا اور مدد کرتا ھے ! یہ پہلے دیوتا سے متعلق عقیدے کا پرتو ھے جو ایک بدعقیدہ مسلمان کی عملی زندگی میں نظر آتا ھے،، جب تک اس تصور کو درست نہ کیا جائے،مجرد مزاروں کی مذمت کوئی اھمیت نہیں رکھتی،،اور اس تصور کو مٹانے کا بہترین نسخہ قرآن حکیم ھے جو اللہ پاک کی اس صفت کو بار بار شد ومد کے ساتھ بیان کرتا ھے کہ وہ کس طرح ھر لمحہ اپنی مخلوق اور خاص طور پر انسانوں کے ساتھ انٹر ایکشن رکھتا ھے ! یہ تذکرے بار بار اور مثالوں کے ساتھ کرتا ھے،، اور یہی قرآن ھے جو ھمارے مدارس اور مساجد سے باھر ھے،،مجر د تحفیظ القرآن کے شعبے اور بدعقیدہ حفاظ تیار کرنے سے توحید کو رواج نہیں دیا جا سکتا !
برھما کے پرتو سے وشنو پیدا ھوا جو اشیاء کی بقا اور حفاظت کا ضامن ھے،اس کی زوجہ لکشمی عیش و عشرت اور دولت کی دیوی ھے ، یہ وشنو اس لئے اھم سمجھا جاتا ھے کہ اسے دعاؤں ،مناجات اور نذروں نذرانوں اور تپسیا اور ریاضت سے حرکت میں لایا جا سکتا ھے ! اور نازک مواقع پر نزول پر مائل کیا جا سکتا ھے،یہ نزول حلول کی صورت میں ھوتا ھے ،،یہ معبود کسی بڑے انسان کی شکل میں نمودار ھوتا ھے،محیر العقول کارنامے سر انجام دیتا ھے،، رام اور کرشن اسی وشنو کے اوتار تھے، یوں اس دیوتا کو انسانوں درمیان کشمکش میں مداخلت پر آمادہ کر لیا جاتا ھے،،یہ وشنو نہ صرف انسانوں بلکہ درختوں اور جانوروں ،مچھلیوں اور کچھوے کی شکل میں بھی ظاھر ھو جاتا ھے،یہیں سے دوسرے مذاھب کو ھندوتا میں کھپانے میں مدد ملتی ھے،، ھندو دوسرے مذاھب کی بڑی شخصیات کو بھی وشنو کا اوتار اور روپ قرار دے کر اپنے مندروں میں سجا لیتے تھے،جس سے ان مذاھب کے پیروکاروں کو اپنے مندروں میں آنے پر مائل کر لیتے یوں آئستہ آئستہ وہ مذھب ھندوازم کے تیزاب میں گل سڑ جاتا ! ھمارے خواجہ غریب نواز بھی ان کے وشنو کا روپ قرار دے کر ھندومت میں گود لے لئے گئے ھیں،، اور ان سے بھی اسی طرح کے محیر العقول واقعات منسوب کر کے ھندو مسلم کو ایک ھی در پر اکٹھا کر لیا گیا،، ان میں سے ایک واقعہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا ؟
سیٹھ اک مارواڑی کا ھے واقعہ !
کئ سال اس کے ھاں نہ لڑکا ھوا !
اس نے منت یہ مانی کہ لڑکا دیا !
تیرے نام اس کو کر دوں گا خواجہ پیا !
الغرض اس کے لڑکا ھوا اگلے سال !
حسبِ وعدہ رکھا نام اجمیـری لعل !
بادشاہ کی سلامی کا دھیان آ گیا !
دولــہا دلـہن کـو اجمیــر بھیجا گیا !
راستے میں انہیں چنـــد ڈاکو ملے !
مارا لڑکا اور دلہن چھین کر لے چلے!
پیچھے مُــڑ کے جو لڑکی نے دیکھا ذرا!
ڈاکــؤوں نے کـہـا دیکھتـی ھے تـو کیا !
آج تیـــری مــدد کـو نہ کـوئی آئے گا !
کون ھے جو تمہیں ھم سے لے جائے گا !
اتنا سننا تھا ،لڑکی کو جوش آ گیا !
کانپی غصے سے اور سرخ چہرہ ھوا !
بولی خـــــــواجــــــــہ بھی کیا میرا داتا نہیں ؟
جس کے گھـر جـــا رھی ھــوں وہ پہنچا نہیں ؟
اتنا سننـا تھــا ،بارہ ســوار آ گـئے !
ڈاکؤوں کو فنا کر کے رخصت ھوئے !
ایک درویــش لــڑکی کو لایا وھــاں !
لاش دولہـــا کی بے سر پڑی تھی جہاں !
بڑھ کے دلہن نے سر گود میں لے لیا !
آنســـوؤں کا ھـــــوا ایک طـــــوفــاں پبا !
سر کو دھـــــڑ سے ملایا تو وہ جی اٹھا !
حصہ چــــــوٹی کا صرف اس میں رہ گیا!
بال چــوٹی کے پیوست جس میں کہ تھے !
جـو ثبـــــــوتِ کرامــــت ھمیشــــہ رھے !
ھندو لڑکی پـکاری کــہ خواجـــــــہ جے !
اس کــــرامت پہ دل اس کا کیـوں نہ کـہے !
کہ میں دیوانی ،،خـــــــواجہ کی دیوانی،
میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی
!
کتنا خوشگوار اینڈ ھے،، اس کے بالمقابل آپ کے کربلا کا دردناک انجام ھے،، اللہ کی لاتعلقی کو دیکھئے اور خواجہ کی خبر گیری کو دیکھئے اور فیصلہ کیجئے کہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر خواجہ سے کیوں نہ مانگیں ؟ مذھب کی اس کھچڑی کو ملا کر ایک نئ ڈش تیار کی گئ ھے جو اتحاد المذاھب کا مظہر ھے،، عبادت گاھوں میں تفرقہ بازی ھے، یہاں سارے ایک ھیں ! مسلم یہی کہتے ھیں کہ مسجد میں آ ! ھنـــدو یہـی کہـتے ھـیں کـہ مندر اچھا ! سکھوں کا یہ دعوی ھے کہ گوردورا اچھا ! عیسائی یہ کہتے ھیں کہ گـــرجا میں آ ! بھئ کعــــبہ کلیسا ، گنــــگا و گـــوردوارا ! مجھے ان سب بکھـیڑوں سے مطلب کیا ! میں تو دیوانـــــی ،خـــواجہ کـی دیوانی ! اب ھمارے زاھد مغل صاحب فوراً فرما دیں گے کہ جناب یہ تو شاعری ھے،، میں ان سے پہلی بات یہ کہتا ھوں کہ کسی قوم کے کلچر کا سب سے پہلا ثبوت اس قوم کی شاعری ھوتی ھے،، آپ قرآن کی لغت کو قبلِ اسلام شاعری سے ثابت کرتے ھیں ،، ابن عباس سے ایک خارجی مناظر نے جو کہ قرآن کی تفسیر میں ان سے مناظرہ کرنے آیا تھا،،پچاس آیتوں کی تفسیر پوچھی ،ایک آیت پڑھتا ،آپؓ اس کی تفسیر بیان کرتے ،،وہ کہتا ” کیا عرب اس مفہوم سے واقف تھے؟ آپ زمانہ جاھلیت کے شاعر کا شعر پڑھتے اور وہ خاموش ھو جاتا،، کبھی اگر وقت ملا تو میں وہ ساری آیات اور ان کو ثابت کرنے والے عربی شعر لکھوں گا،،پڑھنے کی چیز ھے،،اسی میں آیتِ وسیلہ بھی شامل ھے جس کی تفسیر ابن عباسؓ نے ایک عشقیہ شعر سے کی ھے،، حقیقت یہ ھے کہ عقائد کو گراس روٹ پر پھیلانے اور دل و دماغ میں بٹھانے میں جتنا پراثر کردار شاعری ادا کرتی ھے ، اس کا عشرِ عشیر بھی مولوی کی تقریر نہیں کرتی ،، شاعر کی پہنچ ساری آبادی تک ھوتی ھے، ان کے اشعار رات کی مجلسوں میں دوہوں اور ماہیوں کی صورت میں ،، قوالیوں اور نعتوں کی صورت میں مادری زبانوں میں بھرے جاتے ھیں، جو بکریاں چرانے والے سے لے کر پروفیسر اور ڈاکٹرز تک رسائی رکھتے ھیں،، ایک عالم کی تقریر پر سوال کھڑے کیئے جاتے ھیں اور تنازعات جنم لیتے ھیں جس سے اکثر لوگ بدک جاتے ھیں،،مگر قوالیوں کی شکل میں جو بھی عقائد سات سروں میں بیان کیئے جاتے ھیں جو ساتوں لطیفوں میں یوں جا کر رچ بس جاتے ھیں جس طرح پیاسی زمین میں پانی ،، پوری بس میں بھرے سارے مسافر اتفاقِ رائے سے ان عقائد کو قوالی کے فیڈر میں بھرے ماں کے دودھ کی طرح پُچ پُچ کر کے پی جاتے ھیں، کہ یہ وقت گزاری کا ذریعہ ھے !ایسا نہیں ھوتا کہ بندہ گاجریں کھائے اور رنگا رنگ کی کھائے اور بے تحاشہ کھائے اور اس کے پیٹ میں درد نہ ھو ! ھندو ازم رنگ برنگے مذھب تو نگلتا رھا مگر خود اس کا حال بھی برا ھوتا جا رھا تھا،، صاف ستھرے عقائد یونانی اور ایرانی فلسفوں کی ملاوٹ سے چوں چوں کا مربہ بن گئے تھے،، جس کے خلاف اس کے اندر سے بغاوتیں جنم لیتی رھیں ،،ان باغیوں کو راضی کرنے کے لئے عقائد کو زگ زیگ کیا جاتا رھا،، اور آخر کار تنگ آ کر تمام عقائد اور دنیاوی طور پر اٹھائے جانے والے سوالات سے بچنے کے لئے جو آخری حل سوچا گیا وہ حل بنا بنایا ،پکی پکائی تازہ روٹی کی مانند ھمیں پکڑا دیا گیا،جس پر ھم نے سبز رنگ چڑھایا اور اسے اسلام کی روح قرار دے کر اپنا لیا ! برھمنوں نے ھندو مذھب کی تشکیل جدید میں نجات ” مُکتی ” کو جوھر کے طور پر اپنایا،،اس مُکتی کا دارو مدار اس بات پر رکھا کہ انسان ذاتِ الہی کا مکمل عرفان حاصل کرے ،اس عرفان کے حصول کا طریقہ یہ ھے کہ انسان خارجی اور محسوس اشیاء سے توجہ ھٹا کر فکر اور مراقبے کی زندگی گزارنے پر تیار ھو جائے، اس ریاضت اور عبادت کے نتیجے میں انسان اپنے شہوانی اور جسمانی تقاضے مار دیتا ھے ، نیز اپنی سماجی ذمہ داریوں سے بھی کنارہ کش ھو جاتا ھے،جس کے نتیجے میں اس مذھبی ایلیٹ کلاس کا جنم ھوتا ھے، جو رب کے فرنچائزڈ مراکز ھوتے ھیں جہاں سے لوگوں کی داد رسی کی جاتی ھے ،، مشکلیں آسان کی جاتی ھیں،، روحانی آپریشن ھوتے ھیں،، ھندو معاشرے میں یہ فرنچائزڈ مراکز سادھو کہلاتے ھیں ،ھمارے یہاں یہ پیر ھوتے ھیں،،جو زندہ ھوں تو لاکھ کے مگر مرنے کے بعد سوا لاکھ کے ھو جاتے ھیں،، سات لطیفے ھندو یوگ میں ھیں یہی ساتھ لطیفے ٹھیک اسی جگہ ھمارے یہاں بھی ھیں،، یہانتک کہ انڈین کارٹونوں میں شیر ،ھرنی وغیرہ میں بھی یہ سات لطیفے پاور پوائنٹ کے طور پر دکھائے گئے ھیں ! گیتا میں یہ بھی بتایا گیا ھے کہ خدا ( روح ) کی دو فطرتیں ھیں ،،ایک اعلی اور ایک ادنی ،، پہلی صورت اعلی ترین اور قائم بالذات ھے، ایک طاقتور روحانی قوت ھے جس کی قوت سے کائنات قائم ھے،، دوسری فطرت مادیت سے ملوث ھے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کا آدھا وجود مادی ھے،بلکہ اس کامطلب یہ ھے کہ مادہ خود کوئی چیز نہیں ھے،بلکہ خدا خود مادے میں رواں دواں اور حرکت پذیر ھے ،، اس کے لئے ھمارے یہاں حدیثِ قدسی کوٹ کی جاتی ھے کہ ابن آدم جب زمانے ” دھر ” کو گالی دیتا ھے تو درحقیقت مجھے گالی دیتا ھے کیونکہ میں ھی تو زمانہ ھوں،،انا الدھر ! گیتا کے بقول جب کبھی زمانے میں خیر اور شر کا تناسب پگڑتا ھے اور شر غالب آنے لگتا ھے تو خدا ” کی روح اسفل ” ایک نئ شکل میں ظہور پذیر ھوتی ھے اور کوشش کر کے نیکی کو غالب کرتی ھے،، ھمارے یہاں نبی کریمﷺ کو صوفیاء کے یہاں یہی مقام دیا جاتا ھے،، ان کے نزدیک نبیﷺ کریم رب کے نور کا ظہور ھیں، یعنی وھی مادے سے تعلق رکھنے والا نورِ خدا ،،وہ عام لوگوں کے لئے پردہ پوش ھیں ،مگر جو لوگ اپنے قلب کو مصفی کر لیتے ھیں حقیقتِ محمدی ان کے قلب پر منعکس و منکشف ھوتی ھے وہ اب بھی ان سے رابطے میں ھیں،، حضورﷺ سے ملاقاتیں ھوتی ھیں،، دعوتیں ھوتی ھیں،، مدارس اور منہاج کا افتتاح کروایا جاتا ھے، ایک ھے نبی کریمﷺ کی ظاھر ھستی جو محمد بن عبداللہ کہلاتی ھے،،مگر دوسری ان کی حقیقت ھے کہ رب کی روح نے مادے سے رابطے کے لئے ان کی شکل میں ظہور فرمایا ھے ،،اس سے عام لوگ جس میں صحابہ بھی شامل ھیں واقف نہیں ھیں،سوائے دو کے، ابوبکر،ؓ اور علیؓ کے ! مادہ اور روح دونوں لافانی ھیں البتہ مادہ تغیر کو قبول کرتا ھے،یعنی زخمی اور بوڑھا ھوتا ھے،، جبکہ روح بلا تغیر رھتی ھے ! مادے پر جو بھی تغیرات اور کیفیات وراد ھوں روح ان سے بالکل غیر متأثر رھتی ھے ! یہ سارے عقائد اصلاً گیتا کے ھیں جو مختلف اصطلحات کے ذریعے اسلامائز کیئے گئے ھیں ! ان ساری باتوں کی ایک سالک کو سالوں تک خبر بھی نہیں ھونے دی جاتی،، اور جو سوال نہ کرے اسے ساری زندگی اس حقیقت کا پتہ نہیں چلنے دیا جاتا کہ وہ کس کے عقائد کو لئے چل رھا ھے،، البتہ جب علماء آپس میں پیر اور مرید بنتے ھیں تو مختلف آیات اور احادیث کو موڑ توڑ کر اس میں سے اسلام کشید کرتے ھیں ،، جس کی ایک مثال میں نے حدیثِ قدسی سے دے دی ھے ! یہ باتیں باھر عام لوگوں سے کرنا تصوف کی دنیا میں ھائی ٹریژن یا غداری جیسا جرم ھے،، جس کی سزا اس بندے کو اسی دنیا میں مل جاتی ھے !
ترکِ دنیا اور رھبانیت ! اسلام سے پہلے جو تمدن کش رجحانات پائے جاتے تھے ان میں سب سے نمایاں یہ تھا کہ یہ دنیاوی زندگی ایک لعنت ھے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا انسانی نجات کے لئے ضروری ھے،بدھ مت نے ھندوستان میں اس رجحان کو زیادہ تقویت بخشی،اس نے مذھب کا دارومدار ھی ترک خواھشات پر رکھا اور نروان یا فنائے کامل کو مقصودِ حیات قرار دیا ! اس نے ایک نہایت وسیع منظم نظام خانقاھی تخلیق کیا ،،نتیجہ یہ ھوا کہ ھزاروں لاکھوں انسان جو اعلی درجے کی ذھنی صلاحیتیں رکھتے تھے اور انسانی سماج کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے تھے دنیا اور اس کے علائق سے الگ ھو کر جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں نفس کشی کی مشقوں میں اس زندگی کے جوھر کو ضائع کرنے میں لگ گئے ! ان کے لئے انسان ذکر و فکر اور مراقبوں کے لئے پیدا ھوا تھا،اسے اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ انسانیت کے تمدن کے وسائل کو ترقی دی جائے اور اسے اس کی مادی پستی سے بلند کر کے انسانی تعلقات کو ایک بہتر نظام اور اصول پر قائم کیا جائے بلکہ روح کی نجات اور تسکین کا ذریعہ صرف یہ قرار دیا کہ آدمی کسی گوشے میں بیٹھا زبان،کان ،آنکھ اور دل و دماغ کے دریچے بند کیئے صرف مراقبے اور فکر میں زندگی گزار دے ! آج میڈیکل نے یہ ثابت کیا ھے کہ جب کوئی انسان کسی ایسی جگہ ڈیرہ جما لے جہاں کوئی آواز رسائی نہ رکھتی ھو تو انسانی دماغ خود آوازیں تخلیق کر کے سنتا ھے،، اور آنکھوں کو سراب تخلیق کر کے دکھاتا ھے ! دوسری جانب عیسائیت نے بھی رھبانیت اور گوشہ نشینی کو اختیار کر لیا تھا،یوں نیک لوگ معاشرے سے الگ تھلگ ھو کر بیٹھ رھے اور بدکاروں کو کھل کھیلنے کا موقع فراھم کر دیا،، انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ انسانیت اس وقت کس عذاب سے دوچار ھے بلکہ انہیں صرف اپنی نجات کی فکر تھی، شادی بیاہ کو ترک کردیا گیا بلکہ نیک ھی اسی کو سمجھا جاتا جو شادی سے پرھیز کرتا ،،یوں رومن سلطنت بدکاری کے سیلاب میں گِر کر رہ گئ، اور بادشاہ کو شادی پر آمادہ کرنے کے لئے انعامات کا اعلان کرنا پڑا اور ٹیکس میں چھوٹ دینی پڑی،، بادشاہ خود شادی کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار تھا، تا نجوانوں کو شادی کی طرف مائل کیا جائے ! اس رجحان اور اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو نبی اکرمﷺ کے عملی طور پر اتنی شادیاں کرنے اور شادی کو اپنی سنت قرار دے کر اس سے پرھیز کرنے والے کو اپنی امت سے خارج کر دینے کی دھمکی کو سمجھنا آسان ھو جاتا ھے ! الغرض ھندومت ،بدھ مت اور عیسائیت میں راھبانہ سوچ کے غلبے نے مل کر نوفلوطینی فکر کو جنم دیا ،یہ تمدن کش راھبانہ فلسفہ حقیقت کے نام پر حقیقت کا منکر تھا اور مراقبہ اور کشف کو ادراکِ حقیقت کا اصل ذریعہ قرار دیتا تھا ،وجدان کو حواس پر اور کشف و الہام کو عقل پر ترجیح دیتا تھا ، اس نے خدا کے ساتھ اتصال اور فنا فی اللہ کا ایک مہمل نظریہ دیا پیش کیا ،جس نے بڑے بڑے عقلاء، علماء اور اعلی ذھنی صلاحیتوں کے حامل آدمیوں کو زندگی کی کشمکش اور تمدن کی خدمت سے ھٹا کر تزکیہ نفس کی مشقوں پر لگا دیا ! یونانی فلسفے میں تصوف کی آمیزش پہلے پہل فرقہ فلاطونیہ جدیدہ کی بنیاد پڑنے سے ھوئی، اس فرقہ کا بانی ایک مرتد عیسائی امونیس سیکاس تھا ،یہ اسکندریہ میں تیسری صدی عیسوی میں پیدا ھوا – اس نے اپنے فلسفے کی بنیاد اس مسئلے پر رکھی کہ علم مطلق انسان کو اسی وقت حاصل ھو سکتا ھے جب وہ تزکیہ باطن کے زریعے بیرونی اثرات سے یہانتک مستغنی ھو جائے کہ عالم و معلوم متحد ھو جائیں ( یہ ھے ھمارے تصوف کا اصل ماخذ نہ کہ ابوبکرؓ و علیؓ اور نہ ھی قرآن و سنت ) اس کا خیال تھا کہ عالم میں تین قوتیں ھیں،جوھر، عقلِ فعال ، اور قوتِ مطلق ! انسان کی سعادت یہ ھے کہ مکاشفہ کے ذریعہ اپنے باطن کا تزکیہ کرے کہ عقلِ فعال سے اس کا اتصال ھو جائے، امونیس سیکاس کے بعد اس کا شاگرد پلاٹینس جو 203 عیسوی میں پیدا ھوا اپنے استاد کی مسند پر بیٹھا،یہ اکثر روزہ دار رھتا اور عزلت کی زندگی گزارتا،اس کا خیال تھا کہ اس کو اپنی زندگی میں متعدد بار رؤیتِ باری تعالی نصیب ھوئی ھے، اور چھ مرتبہ اس کا جسم ،جسمِ خداوندی سے مماس ھوا ھے، اس کے نزدیک دنیا محض خواب و خیال ھے،خدا سے اتصال کامل انسان کی اصل سعادت ھے یہ اتصال اتنا کامل ھو کہ انسان اپنی ذات کو ذاتِ باری میں فنا کر دے،،لیکن یہ محض کشف و مراقبے سے حاصل نہیں ھوتا بلکہ اس سعادت کا حصول اسی وقت ممکن ھے جب انسان خودی کو فنا کر کے بے خود ھو جاتا ھے اور اپنی شخصیت کو فنا کر کے فنا فی الکل کے رتبے پر پہنچ جاتا ھے، اس بے خودی اور فنا فی اللہی کی حالت میں اصلی حقیقت کے راز اس پر کھل جاتے ھیں اور انسان اس چیز سے متحد ھو جاتا ھے جس میں میں وہ اپنے کو فنا کر رھا تھا ،اور اس ھستی سے متصل ھو کر دائمی بقا پا جاتا ھے،، اس فنا سے بقا تک اور شخصیت سے کلیت تک اس کو صعود ھو جاتا ھے،یہی اس کی حیاتِ جاودانی اور حقیقی سعادت ھے ! آپ حضرات دیکھ سکتے ھیں کہ فنا اور بقا سمیت یہ سب اصطلاحات اصلاً مرتدین کی تعلیم ھے ،نہ کہ نبی کریمﷺ یا ابوبکرؓ و علیؓ اور یا دیگر صحابہؓ کی ،، اسلام اپنے مزاج اور پیغام دونوں میں اس قسم کے نظریات و تعلیمات سے مختلف ھے،، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام نے جس شدت سے ان نظریات کی نفی کی،، اور نبی کریمﷺ نے عملی طور پر اپنی سنت سے جس شد و مد کے ساتھ ان نظریات کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی ،،ھمارے تصوف کے ادارے نے اتنی ھی سختی کے ساتھ مرتدینِ عیسائیت کی ان اصطلحات اور نظریات کو دانتوں سے پکڑا ،، مگر سب سے بڑا ستم یہ کیا کہ ان اسلام دشمن ،دین دشمن نظریات کو اسلام کی روح اور اصل دین کہہ کر متعارف کرایا ،ان کی عظیم شخصیتوں کو دیکھتے ھوئے کسی کو شک بھی نہیں ھو سکتا تھا کہ وہ دین کے ساتھ کیا واردات کر رھے ھیں،یوں پولیس کی وردی میں ڈاکا ڈالے جانے کی یہ رسم جاری و ساری ھے ! قرآن جتنا اختیارات کو اللہ کی ھستی میں مرتکز کرتا ھے، یہ اسی قوت کے ساتھ اسے مختلف ھستیوں میں بانٹتے چلے جاتے ھیں اور لطف کی بات یہ ھے کہ جو کھانستے بھی قرآن و حدیث کے حوالوں سے ھیں،، تصوف کی دنیا میں اللہ کے اختیارات پر ان بڑے بڑے ڈاکوں کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے پیش نہیں کرتے ،اور لوگ ان کی شخصیتوں کے رعب میں مبتلا ھو کر دلیل مانگتے بھی نہیں،، آخر قرآن کیسے اس بات کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ھے کہ ” ھر بستی میں ایک قطب ھوتا ھے جو اس بستی کے لوگوں کا دافع بلیات ھوتا ھے اور ان کے ارزاق کا بندوبست کرتا ھے،، یہانتک کہ اگر کوئی بستی تمام تر غیر مسلموں پر مشتمل ھو تو اس بستی کا کوئی غیر مسلم قطب ھوتا ھے جو یہی ذمہ داری ادا کرتا ھے،، اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ ایسے غیر مسلم قطب کی پہچان کیا ھے،، تو اس کے لیئے اھل نظر کو جس غیر مسلم کا ادب کرتے دیکھے تو بھی اس کا ادب کر "” یہ عبارت ایک بہت بڑے مفسرِ قرآن اور دسیوں فقہی کتابیں لکھنے والے صاحب کی تصوف پر لکھی گئ کتاب سے لی گئ ھے،،، افسوس یہ ھے کہ اتنے بڑے جھوٹ اور توحید کے عقیدے پر کاری وار کی دلیل کوئی نہیں دی گئ،، یہ ان صوفیاء کا اپنی ذات پر اندھا اعتماد ھے کہ کوئی شاگرد ان سے پلٹ کر دلیل نہیں مانگے گا،،کیونکہ دلیل کا دروازہ بیعت کرتے وقت ھی بند کر دیا جاتا ھے ! شریعت اور طریقت کے جو جھگڑے پیدا ھوئے ان کی بنیاد شریعت میں نہیں بلکہ انہی ما قبل الاسلام نظریات و فلسفوں میں ھیں ،، شریعت اپنی تعلیم اور مطالبوں میں بہت واضح ھے، اور قرآن کی موجودگی میں قیامت تک ان میں کسی مغالطے کی گنجائش نہین ھے،،کیونکہ اس قسم کی گمراھی نئے نبی کا تقاضہ کرتی ھے جب کہ نبوت کا دروازہ بند کر کے اللہ پاک نے قیامت تک قرآن کی حفاظت کا ذمہ لے کر اس امت کا تصلیحہ یا مینٹینینس اس قرآن کے سپرد کر دیا ھے جس کی عملی تعبیر محمد مصطفیﷺ کی سنت کی صورت میں قیامت تک موجود رھے گی،، مگر افسوس کا مقام یہ ھے کہ جب ڈاکٹر ھی ھیروئین بیچنا شروع کر دیں،، تو لوگ اعتماد کس پر کریں ؟ جب باڑ کھیت کی حفاظت کرنے کی بجائے کھیت کو کھانا شروع کر دے تو اس کھیت کو بچائے گا کون؟ جب پولیس والا ڈاکوؤں سے عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے خود ڈاکے ڈالنے شروع کر دے تو عوام کا جان ومال محفوظ کیسے رہ سکتا ھے !ماسٹرز آر مانسٹرز یعنی بڑے آدمی ھی بڑے دیو بنتے ھیں کے مصداق جتنے لمبے لمبے القاب والا اعلی حضرت ھے ایک سادہ لوح مسلمان کے لئے وہ اتنا ھی بڑا سفاک ڈاکو ھے جو اس کے ایمان کو لوٹ لیتا ھے،، اس صورت میں کسی کا توحید پر جمے رھنا ھی وہ کمال ھے کہ نناوے اعمال نامے جو مشرق سے مغرب تک لمبے ھونگے اور سب گناھوں سے بھرے ھوں گے، کے مقابلے میں ایک شخص کی صرف لا الہ الا اللہ پر اللہ تعالی اسے بخش دیں گے ، اسے حدیث بطاقہ یعنی پرچی والی حدیث کے نام سے روایت کیا جاتا ھے !
غیر مسلم تک یہ گواھی دیتے ھیں کہ اسلام کے عقائد ،سادہ ،مختصر اور قابل فہم و قابلِ عمل ھیں ! 1- ماسٹر تارا چند کی گواھی ! ھندوستان کے معروف اسکالر ڈاکٹر تارا چند کے لکھے چند جملے پڑھیئے اور سر دھنیئے کہ جس بات کو غیر مسلم محسوس کرتا ھے اس سے ھم اور ھمارے علماء کیونکر غافل ھیں ،وہ کیوں ان Man made عقائد کو نہ صرف دین کی روح قرار دیتے ھیں بلکہ ان کی بنیاد پر نیک و بد ،، اور غوث و قطب کا تعین کرتے ھیں ! تارا چند لکھتے ھیں ” پیغمبرِ اسلام نے جس دین کی تعلیم دی وہ انتہائی سادہ تھا – اس کے فرائض کم از کم تھے ۔ توحید اس دین کا مرکزی عقیدہ تھا،معاشرے میں اس کی اھم خصوصیات ” اخوت و مساوات ” تھیں – یہی وجہ ھے کہ اسلام میں پروھتوں کا کوئی طبقہ نہیں ! ( حالانکہ جتنے ھندؤں میں سادھو ،گیانی اور اچاریہ ھیں اس سے زیادہ مسلمانوں میں پیروں کی کھیپ تیار ھو چکی ھے ) عقیدہ توحید کی بدولت بتوں اور دیوی ،دیوتاؤں کی پرستش حرام قرار دے دی گئ ھے ! لیکن بعد میں اس سیدھے سادے دین کو فلسفوں اور منطق کی خراد پر چڑھا دیا گیا جس کے نتیجے میں عقائد میں پیجیدگی پیدا ھو گئ اور اس میں مختلف فرقے پیدا ھوگئے !( The influence of Islam on Indian Culture) 2- ایم ڈی سورت کی گواھی ! محمد ﷺ کے دیئے گئے دین نے اپنی سادگی اور عام فہم تعلیمات و عقائد کی بنیاد پر بدھ مت اور عیسائیت کو شکست دی ،،کیونکہ وہ سماج کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیتوں سے لیس ھے (The History Of Religions ) 3- مشہور انگریز مؤرخ ڈریپر کی گواھی ! محمد ( ﷺ ) نے فلسفہ و کلام کی بحثوں میں پڑنے کی بجائے نوع انسانیت کی عملی خدمت کی اور اپنے آپ کو نوع انسان کی دینی و دنیاوی بہتری کے لئے وقف کر دیا ،،یہی وجہ ھے کہ ان کی سادہ تعلیمات گورکھ دھندوں میں الجھانے کی بجائے نجات کا رستہ دکھاتی ھیں ! ( The History Of Intellectual Development Of Islam ) 4- انگریز مؤرخ فلپ ھٹی لکھتا ھے ! اسلام نے اھلیت اور تعداد کے لحاظ سے اس قدر عظیم ھیروز پیدا کیئے کہ انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ھے ! وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ اس کی سادہ تعلیمات و عقائد میں اتنی کشش تھی کہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑے ! ( The History Of Arabs ) ( جبکہ آج صورتحال یہ ھے کہ ھندو اس کے تصوف کو دیکھتا تو ھندو ازم اور اسلام میں کوئی خاص فرق نہ پا کر خواہ مخواہ اپنا دین چھوڑنا ضروری نہیں سمجھتا ،، جب اس کو وھی دودھ گھر پہ میسر ھے تو اسے مسلمانوں کی دکان سے لینے کی کیا ضرورت ھے ) 5- ڈاکٹر ایچ جی ویلز لکھتا ھے ! اسلام سادہ اور قابلِ فہم مذھب ھے – اس نے بنی نوع انسان کے لئے اتنا عمدہ نظریہ پیش کیا ھے جس کی مثال نہیں ملتی ! یہی وجہ ھے کہ اسلام آج بھی زندہ ھے ! (History Of The World ) مگر آج وہ سادہ اسلام اور سادہ مسلمان ھیں کہاں ؟ تو اس کا جواب بھی ایک غیر مسلم سے ھی سن لیجئے ! دانشور ” گبن ” ایک طویل مقالے کے آخر میں لکھتا ھے ! Islam is in The Books and Muslims Are In The Graves