تصورِ خدا اور ھمارا آج

سواال نمبر – 1
میرا ذاتی سا عاجزانہ خیال ہے کہ مذہبی تصور خدا ہمارے سماج کے فطری ارتقا میں رکاوٹ ہے۔۔۔۔ جزا سز، خوف و امید، گزرے کل کا اسیر کرنا، آنے والی کل کی لالچ،،، اور وہ تمام فکری مظاہر جو انسان کو آج میں زندہ نہیں رہنے دیتے وہ اسی تصور کی براہ راست یا بالواسطہ دین ہیں،،
سوال نمبر -2
قاری صاحب لیکن یہ طے کرنا کہ نیکی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔۔۔ کار انسان ہے نہ کہ کوئی الہامی حکم۔۔۔۔۔ انسان سماجی حیوان ہونے کے ناطے اذل سے نیکی اور برائی کی تعریفیں متیعن کرتا آرہا ہے اور کرتا رہے گا،،
Safdar Sahar ,,
الجواب ،،،،
میرے قارئین اس بات کے گواہ ھیں کہ میں بھی نیکی اور بدی کو فیس ویلیو پر قبول و رد کرنے کا قائل ھوں ،، مثلا یہ کہ اگر کوئی بھوکا ھے تو اس کو کھانا کھلانا انسانیت کی معراج ھے ،ھم بھوکے کا مذھب نہیں پوچھیں گے ،، اس کی بھوک کو مٹائیں گے ،، بیمار اگر دوا کے پیسے نہیں رکھتا تو اس کو دوا کے پیسے فراھم کریں گے ،، چاھے اس کا مذھب کوئی بھی ھو اس سے ھمارا لینا دینا کوئی نہیں ھم بطور انسان ایک انسان کی مدد کر رھے ھیں ، ھم گاڑی میں ھیں اور کوئی مسافر رستے میں کھڑا ھے تو ھم اس کو لفٹ دے دیں گے چاھے اس کا مذھب ، فرقہ ،مسلک ، مشرب کوئی سا بھی ھو ھمیں اس سے کچھ لینا دینا نہیں ھے ،،
لیکن اگر میں ان تمام نیکیوں کے پیچھے کسی ایسی ھستی کا تصور رکھتا ھوں جو میرے اس رویئے اور Attitude کو پسند کرتی ھے ،، مجھ سے خوش ھوتی ھے ، تو اس سے اس مسافر ، اس مریض اور اس بھوکے کا کیا نقصان ھو گیا جن کی میں نے مدد کی ھے ؟
میرے تصور خدا نے اس کام کی اھمیت کو کم کیونکر کر دیا اور عیب کس منطق کے تحت بنا دیا ؟
میں جھوٹ نہیں بولتا چاھے میرا مخاطب کوئی سکھ ھو یا ھندو یا عیسائی یا مسلمان ،، میں کبھی کم تول کر نہیں دیتا ،، پورا ماپتا ھوں ، ایک دیہاتی دھوتی پوش ان پڑھی اور شاپنگ سے ناواقف آدمی کو بھی وھی قیمت بتاتا ھوں جو ایک جینز زدہ ، تعلیم یافتہ اور چالاک و پھرتیلے شہری بابو کو بتاتا ھوں ، شراب نہیں پیتا کہ یہ بیہودہ چیز ھے ، زنا کے قریب نہیں جاتا کیونکہ مجھے ھر مستورہ اپنی عزیزہ لگتی ھے اور میں جس طرح اپنی محرمات سے دوسروں کو بدکاری کا حق نہیں دیتا ، اسی طرح دوسروں کی محرمات سے بھی بدکاری کو اسی درجے میں ناپسند کرتا ھوں دیگر تمام عورتیں بھی کسی کی مان بہن بیٹی۔ خالہ ،پھوپھی ھوتی ھیں ،،
مگر میں ان تمام برائیوں سے اجتناب کے ساتھ ساتھ اگر ایک ایسے خدا کا تصور رکھتا ھوں جو میری برائی سے نفرت کی اس عادت کو پسند کرتا ھے ،، میں جب برائی سے بچتا ھوں تو اس کو ویسی ھی خوشی ھوتی ھے جیسی مجھے اپنے بیٹے کے برائی سے بچنے پر محسوس ھوتی ھے تو اس تصور سے میرا بدی سے بچنا میرا عیب کیسے بن گیا ؟
کیا خدا کا تصور انسان کو آج سے محروم  کرتا ھے ؟
خدا کا تصور انسان کو اس کی آج سے غافل بھلا کیسے کرتا ھے جو خدا اسے کہتا ھے کہ جمعے کی بھی کوئی چھٹی نہیں ،، نماز سے فارغ ھو کر اللہ کے فضل کو ڈھونڈنے نکلو اور اس کام کاج کے دوران بھی اللہ پاک کے بنائے گئے رولز اینڈ ریگولیشنز کو اسی تفصیل کے ساتھ پریکٹس کرنا جیسے مسجد میں مانا ھے ،، جو شمع مسجد سے جلائی ھے اس کو دکان پر کم تول کر اور جھوٹ بول کر بجھا نہ دینا ، جو خدا تیرے وضو کے ٹوٹنے سے باخبر تھا وہ تیرے کم تولنے اور جھوٹی قسم کھانے سے غافل کیونکر ھو سکتا ھے ؟ اپنی ھر سوچ اور ایک ایک سانس پر نظر رکھو ھمیشہ بدی کا وائرس ان دو چیزوں کے مرکب سے بنتا ھے ، تیری کل کی کوئی گارنٹی نہیں ھر کام یوں کرو جیسے آج ھی رب کو راضی کرنا ھے ، ھر نماز آخری سمجھ کر کرو اور ھر عیب سے آج ھی توبہ کرو ، تم صبح اٹھو گے یا نہیں تجھے خود پتہ نہیں لہذا رات کو سونے سے پہلے معاملات کو کلیئر کر کے سو ،، نیکیوں پر اللہ کا شکر کر کے اور گناھوں سے توبہ کر کے سو ،،
اس تمام صورتحال میں کہاں اور کس جگہ تصورِ خدا نے کہا ھے کہ مکان مت بناؤ ،، جاب مت کرو ،، بچوں کے مستقبل کی فکر مت کرو ،، انسان کا آج انہی چیزوں سے موسوم ھے ،، پھر تصورِ خدا پر الزام کیوں ھے ؟
کیا خدا کے منکر روزمرہ زندگی میں ماضی کے اسیر نہیں ھیں ؟
کیا خدا کے منکر کل میں گم نہیں ھیں ؟
کیا خدا کے منکر اپنے آج سے غافل نہیں ھیں ؟
ایک منکر خدا اپنے بچے کے آج کو کسی کے ماضی سے خوفزدہ کر کے اور مستقبل کے ڈراوے دے کر خراب نہیں کر رھا ،، ؟ وہ اپنے بچے کو کسی غریب کے بچے کوبھٹے پر اینٹیں اٹھاتے دکھاتا ھے اور کہتا ھے کہ اگر نہیں پڑھو گے تو حشر اس بچے جیسا ھو گا ،، وہ اس کو اس بچے کا باپ دکھاتا ھے اور کہتا ھے کہ یہ اس بچے کا ماضی ھے اگر اس کا باپ بھی تیرے باپ کی طرح پڑھا لکھا ھوتا تو یہ بچہ بھی تیری طرح آج کروزر میں بیٹھ کر چم چم کرتی یونیفارم پہن کر اسکول جا رھا ھوتا ،، اس بچے کا باپ پڑھا نہیں تو نتیجہ اولاد بھگت رھی ھے ،، تیرا باپ پڑھا ھے تو بینیفٹ تُو لے رھا ھے ، بیٹا تجھے اپنا نہیں آنے والی نسل کا خیال کرنا ھے اور اپنی نیند اور آرام اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے قربان کرنا ھو گا ،، تجھے اپنا آج اپنی کل کے لئے کھپانا ھو گا ،، میں اگر تجھے مارتا ھوں اور سارا سارا دن کھیلنے سے منع کرتا ھوں ، اسکول اور کالج کی پابندیوں ڈال کر تیرے گلی گلی پھرنے کے شوق پر قدغن لگاتا ھوں تو تیری محبت اور تجھ سے شفقت کی وجہ سے یہ سب کرتا ھوں کیونکہ میں مستقبل میں تجھے اس بچے کی طرح اینٹیں اٹھاتے اور چلتی ھوئی گاڑیوں کے پیچھے دوڑ دوڑ کر پھول اور کنگھیاں تولیئے بیچتے ھوئے نہیں دیکھ سکتا ،،
کیا مندرجہ بالا رویہ فطری نہیں ھے کہ انسان اپنی کل کے لئے اپنے آج پر کچھ پابندیاں قبول کرتا ھے ؟ اپنی آج میں سے کچھ چین و آرام ، کچھ شوق اور کچھ Hobbies کو اپنی کل کے لئے قربان نہیں کرتا ؟ کیا والدین بچے کی ناسمجھی پر اس کو اس کی مرضی کے حوالے کر دیتے ھیں تا کہ وہ اپنا گلی گلی گھومنے کا شوق پورا کر لے یا سختی کر کے گھر پہ بھی پھینٹی لگا کر گھسیٹ کر اسکول چھوڑ کر آتے ھیں اور ماسٹر صاحب سے بھی کہتے ھیں کہ اس پر نظر رکھنا اور اگر ٹھیک توجہ سے نہ پڑھے کوئی لحاظ مت کرنا ،،
کسی کے ماضی ، حال ، اور مستقبل کا ڈراوہ دے کر آپ یہ سب ستم اپنے بچے پر کریں تو فطری رویہ ھے ،، اور اگر خدا اپنے کچھ محبوب بندوں کو کہ جو اس زندگی کے بعد اس سے کہیں زیادہ طویل زندگی پر ایمان رکھتے ھیں سابقہ قوموں اور افراد کے انجام سے خبردار کر کے اس کے آج پر کچھ پابندیاں لگا دے اور اسے کل کی تیاری کی ترغیب دے تو آپ کے بقول ماضی کا اسیر اور مستقبل کے سراب دکھانے والا کہلائے ،، یہ کہاں کا انصاف ھے صاحب ؟
کیا آپ نے اپنے بچے کا مستقبل دیکھا ھے ؟ کیا آپ یقین رکھتے ھیں کہ جس اعلی تعلیم اور اعلی عہدوں کے لالچ میں بچے کو ساری ساری رات جگا کر امتحان کی تیاری کراتے ھیں اور اس کو جاگنے کی ترغیب دیتے ھیں واقعی وہ عہدے اس کو مل بھی جائیں گے ؟ وہ تب تک جی بھی لے گا ؟ کسی ایکسیڈنٹ میں مارا نہیں جائے گا ؟ کسی آپریشن تھیئٹر میں جان کی بازی ھار نہیں جائے گا ؟ کسی مرض میں جان نہیں ھار جائے گا ؟ کسی دھماکے میں شھید نہیں ھو جائے گا ، میں آپ کو صرف تین مثالوں سے آپ کے سراب کے پیچھے دوڑنے کو ثابت کر دیتا ھوں ،، ایک ذیشان نام کا بچہ تھا ،میرے پاس قرآن پڑھتا تھا ،، بہت ھی خوبصورت بچہ تھا ،، میں جب میں جنت میں موتی جیسے بچوں کا ذکر پڑھتا تھا وہ وہ بچہ میرے تصور میں آتا تھا ،، جوان ھوا اعلی تعلیم کے لئے کنیڈا گیا ،، اور عین اس دن جب وہ گریجویشن کی تقریب میں جا رھا تھا ،، رستے میں ایکسیڈنٹ ھوا اور وہ سڑک پر ھی جان کی بازی ھار گیا ؟ دوسرا میرے ایک دوست کا بیٹا تھا جو ائیرفورس مین کمیشن پا گیا تھا ،، تربیت کے دوران گر کر ریڑھ کی ھڈی تڑوا بیٹھا اور ساری زندگی کے لئے معذور ھو گیا ،، تیسرا میرا ھی طالبِ علم والدین کا اکلوتا بیٹا امریکہ میں کالوں کے ھاتھوں لوٹ بھی لیا گیا اور بری طرح تشدد کر کے مار بھی دیا گیا وہ بھی وھاں ماسٹر کرنے گیا تھا ،، مشہور اداکار فخری کے بیٹے کا انجام آپ کو معلوم ھے اور ضیاء شاھد کے بیٹے عدنان ضیاء کا بھی ،،،،،،، پھر ؟ کیا آپ بےخدا لوگ بھی سرابوں کی دنیا میں نہیں رہ رھے ؟
جب خدا کا تصور آپ کو کسی بھی ایسی بات سے نہیں روکتا جس سے آپ کی دنیا اور دنیاوی مستقبل خراب ھو ، وہ آپ کو تعلیم کی ترغیب دیتا ھے اور وحی کی ابتدا ” أقرآ ” سے کرتا ھے ، جب وہ اللہ کا فضل ڈھونڈنے ،کمانے ،بچانے کی ترغیب دیتا ھے اور اس کا رسول ﷺ بزنس مین ھے ، تاجر ھے ،، وہ کہتا ھے تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ھے ، تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ھے ،تیرے بالوں کا بھی تجھ پر حق ھے ، تیرے والدین کا بھی تجھ پر حق ھے ، تیری بیوی اور اولاد کا بھی تجھ پر حق ھے ، تیرت رشتے داروں کا بھی تجھ پر حق ھے ،تیرے پڑوسی کا بھی تجھ پر حق ھے ، اور جو بندہ تیرے ساتھ کہیں بیٹھا ھے اس کا بھی تجھ پر حق ھے ،، تو آپ کو کیسے لگتا ھے کہ تصورِ خدا انسان کو آج سے فرار سکھاتا ھے ؟
صرف عبادات کا پرنا چرانے کے لئے خدا کے تصور کا انکار چاہتے ھیں آپ ؟
جب کوئی انسان اللہ پر ایمان کا دعوی پیش کرتا ھے تو فطری طور پر چند اصول طے کئے جاتے ھیں جن کے ٹیسٹ سے ھی کسی کے ایمان کو قبول یا رد کیا جاتا ھے ،، اور یہ سب حشر کی عدالت میں ھی ھو گا ،، جہاں انسان کا قول ،فعل اور پھر سینے کی نیت تینوں چیزیں کاؤنٹر چیک ھونگی اور فیصلہ ھو گا ،، اس ٹیسٹ کا نام عبادات ھے ،، ان سے اللہ کا کوئی فائدہ نہیں ،، مگر یہ ٹیسٹ تو آپ بھی روز دیتے ھیں ،، آپ چند روہوں کی خاطر اپنی آزادی گروی رکھ دیتے ھیں کوئی دوسرا اللہ پر اعتبار کر کے اگر کچھ پابندیاں قبول کر لے تو مجرم کیسے ھو گیا اور آج سے فرار کیسے ھو گیا ؟
آپ جب کسی ادارے کے رکن بنتے ھیں تو آپ اپنی پسند کا لباس اتار کی بھالو نما ٖڈانگری پہن کر کام پر جاتے ھیں کیونکہ کمپنی آپ کی تابعداری کو چیک کرنا چاہتی ھے ورنہ رنگوں کے فرق سے کمپنی کا کیا فائدہ ،وہ چاھتی ھے کہ آپ اس کی طے کردہ یونیفارم پہن کر جہاں سے گزریں اپنی کمپنی کا اشتہار نظر آئین ،، وہ آپ کو گھیسٹ کر آپ کے بستر نے نکالتی ھے اور آپ شیو بھی گاڑی چلاتے ھوئے جی تھری سے کرتے ھوئے ، سینڈوچ رستے مین کھاتے ھوئے بھاگم بھاگ دفتر پہنچتے ھیں ،، صاحب روپے کے لئے اتنی ذلالت آپ کو کبھی بھی شرمندہ نہیں کرتی ؟ مگر آپ کہتے ھیں کہ ” نوکر کی تے نخرہ کی ”
اگر کوئی مسلمان اپنے رب کے طے کردہ اصول کے مطابق نماز پڑھنے مخصوص وقت پر جائے ، کچھ دنوں میں کچھ وقت کے لئے کھانا پینا روک لے ،، اپنے رقم میں سے کچھ غریبوں مسکینوں کو دے دے ،، تو اس میں اصولی طور پر اور عملی طور پر کونسا عیب ھے ؟ اور اس سے معاشرے کا کونسا نقصان ھو گیا ھے ؟؟ کلب جانے سے قیامت نہیں ٹوٹتی تو مسجد جانے سے حشر کیوں بپا ھو جاتا ھے ؟
سوال نمبر 2 یہ ھے کہ نیکی اور بدی کا تعین انسان حیوانی اور فطری طور پر خود کرتا آیا ھے لہذا کوئی الہامی حکم اس کو کسی خاص نیکی کا پابند کیوں کرتا ھے ،، ؟
انسان کو حیوان سے ممتاز کر کے انسان بنانے کے لئے کسی ایسی ھستی کا ھونا بہت ضروری ھے کہ جو خود حیوان نہ ھو تا کہ فطری حیوانی کمزوری سے پاک ھو ، کسی علاقے سے تعلق نہ رکھتی ھو تا کہ علاقائی تعصب سے پاک ھو ، ، کسی خاص زبان سے تعلق نہ رکھتی ھو تا کہ لسانی تعصب سے پاک ھو ، کسی خاص قبیلے سے تعلق نہ رکھتی ھو تا کہ قبائلی تعصب سے پاک ھو اور کسی خاص جینڈر سے تعلق نہ رکھتی ھو کہ جنسی تعصب سے پاک ھو ،، سارے اس کے لئے ایک جیسے ھوں اور وہ سب کا ایک جیسا ھو، سب کے لئے عدل و انصاف پر مبنی اصول بنائے ،، اور سب سے یکساں بازپرس کرے ،، میں آپ کو اپنی حالت بتاتا ھوں جو کہ پورے انسانی معاشرے کی عکاسی کرتی ھے ،، میں جب کار میں ھوتا ھوں اور سروس روڈ سے مین روڈ پر آنا چاھتا ھوں تو توقع رکھتا ھوں کہ مین روڈ کا ڈرائیور بریک لگا کر مجھے گاڑی نکالنے دے ، اور جب ایسا نہیں ھوتا تو مجھے بہت غصہ آتا ھے ،، جبکہ میں خود جب مین روڈ پر ھوتا ھوں تو شاید ھی بریک لگا کر کسی کو موقع دیا ھو ،، دیکھا آپ نے وہ جو سروس روڈ پر مجھے کسی کا عیب نظر آرھا تھا ،خود جب اس کی جگہ مین روڈ پر آیا تو وہ عیب نہیں رھا ،، میں جب سگنل پر کھڑا ھوتا ھوں تو چاھتا ھوں کہ دوسری اطراف کے سگنل کم کھلیں اور جھٹ سے میرا کھل جائے ،، اور جب میں دور سے کھلے سگنل کی طرف آرھا ھوتا ھوں تو یہ چاھتا ھوں کہ یہ سگنل جب تک میں نہ گزر جاؤں تب تک کھلا ھی رھے چاھے دوسری جانب کوئی مریض کسی گاڑی میں تڑپ رھا ھو،، میں جب لفٹ میں ھوتا ھوں تو چاھتا ھوں کہ لفٹ 17 ویں منزل سے گراؤنڈ فلور تک کہیں نہ رکے ، اور جب رستے میں رک جائے تو دروازہ کھلتے ھی میں اس بندے کا بوتھا غصے سے دیکھتا ھوں جس نے لفٹ روکنے کی جسارت کی تھی ،، اور جب میں لفٹ کے باھر کھڑا ھوں اور لفٹ بغیر رکے نکل جائے تو مجھے سر سے پاؤں تک آگ لگ جاتی ھے ،،
دیکھا صاحب آپ نے میرا فطری نیکی اور بدی کا معیار ؟ میری پوزیشن بدلتی ھے تو میرا نیکی اور بدی کا معیاربھی بدل جاتا ھے ،، انسان ناشکرا اور تھڑدلا پیدا کیا گیا ھے ، جب اس کو مصیبت پہنچے اور کوئی اس کی مدد نہ کرے تو جزع فزع کرتا اور دوسروں کو کوسنے دیتا ھے ،مگر جب اس کو خیر نصیب ھو جائے اور کوئی مصیبت میں مبتلا ھو تو یہ چھپا چھپا کر رکھتا ھے ،، ” إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً * إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً * وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً *
صاحب آپ پڑھے لکھے لوگ ھیں مگر آپ جس چیز کا دعوی کرتے ھیں خود اس پر یقین نہیں رکھتے ،آپ دھرے معیار اور ڈبل اسٹنڈرڈ کے حامل لوگ ھیں ،، آپ انسان کو اس کے جبلی نیکی اور بدی کے معیار حوالے کیوں نہیں کر دیتے ،، آپ کیوں اس کے لئے ٹریفک سگنلز بناتے ھیں تا کہ عدل و انصاف سے سب اطراف والوں کو یکساں وقت ملے ؟ صاحب آپ مختلف دفاتر میں ٹوکن سسٹم کیوں بنائے بیٹھے ھیں کہ ھر بندہ انصاف کے ساتھ اپنی باری پر جائے نہ کہ دھونس اور دھاندلی سے کسی کا حق مار کر پہلے چلا جائے ؟ آپ خود ان چھوٹی چھوٹی اور روزمرہ کی عملی مثالوں میں انسان کے نیکی اور بدی کے معیار پر اعتبار نہیں کرتے کجا یہ کہ انتہائی اھم ذمہ داریوں میں آپ کی حیوانی جبلت پر اعتبار کر کے آپ کو شترِ بے مہار چھوڑ دیا جائے ،، ،
پھر یہ پولیس ، یہ عدالتیں ،یہ وکیل ، یہ جج یہ سب کیا نوٹنکی ھے ؟ انسان خود ھی انصاف کیوں نہیں کر لیتے ؟ مجھے معلوم ھے کہ حق کس کا ھے اور سچ کیا ھے ،مجھے تو گواھوں کی ضرورت نہیں پھر میں عدالت میں جھوٹا مقدمہ کیئے کیوں بیٹھا ھوں ؟ بے خدا معاشروں میں بھی جھوٹے گواھوں اور عدالتوں اور جھوٹے وکیلوں کی ضرورت کیوں محسوس ھوتی ھے ؟ ثابت ھوا کہ انسان بے انصاف ھے ،متعصب ھے ، اس کے لئے ایک الہامی شریعت کی ضرورت ھے جو تمام رشتوں کے لئے اور تمام حیثٰتوں کے لئے غیر متعصب قانون اور اصول بنائے ،،
وما علینا الا البلاغ المبین ،،