ترغیب و ترہیب کی روایات۔۔ تبصرہ قاری محمد حنیف دار

ترغیب و ترہیب کی روایات

ترغیب و ترہیب والی روایات صرف ترغیب و ترہیب تک محدود ہوتی ہیں. انہیں فقہی دائرے میں لا کر حکم شرعی بیان کرنا درست نہیں ہوتا.
مثلاً بخاری کی حدیث ہے
من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر
جب اس حدیث کو ترک صلاۃ کی شناعت کے طور پر بیان کیا جائے گا تو کسی تاویل کے بغیر بیان کیا جائے گا
لیکن اگر کسی تارک صلاۃ کے بارے میں حکم شرعی بیان کرنا ہو کہ کیا اس کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا درست ہے اور اس کا ترکہ بحیثیت مسلمان تقسیم کیا جا سکے گا تو اس وقت اس روایت کے بجائے اسلام کے کلیات کو پیش نظر رکھا جائے گا
نیز ترغیب میں یہ کہنا درست ہے کہ مسجد حرام کی ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب کوئی نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی یا ایک سال زکوۃ ادا کر کےسات سو سال کی زکوۃ ادا ہو گئ.
ترغیب و ترہیب کی نصوص احکام شرعیہ نہیں ہوتے.
طفیل ہاشمی

تبصرہ

قاری محمد حنیف ڈار

تو کیا یہ حدیث [من ترک الصلاۃ متعمدا فقد کفر] حکمِ شرعی میں ریفرینس کے طور پر نہیں لائی جائے گی ؟ یا لانے والے کو آپ کس دلیل سے روکیں گے ،ترغیب و ترھیب کی اصطلاح رسول اللہﷺ کے بعد مارکیٹ میں آئی ہے ـ وہ حدیث بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے جس میں کہا گیا کہ مؤذن سے کہوں کہ اقامت کہے اور پھر جو لوگ جماعت میں شریک نہ ہوں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں ،،مگر عورتوں اور بچوں کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا ـ پھر وہ حدیث بھی ہے کہ جس میں مسلمان ہونے والا کہہ رہا ہے کہ میں فلاں فلاں نماز تو نہیں پڑھ سکتا ،اور اس کو مہلت دے دی جاتی ہے کہ وہ جتنی پڑھ سکتا ہے پڑھ لے ،یا جب وقت ملے تو جمع کر لے جیسے ظھر عصر کے ساتھ اور مغرب عشاء کے ساتھ ،،، ان روایات میں الفاظ راوی کے ہیں ، اور راوی کے الفاظ میں اس کی نفسیات ریفلیکٹ کرتی ہیں ، اپنے مفہوم کو متشدد الفاظ میں بیان کرنا ،، اور اپنے مفہوم کو آسان الفاظ میں بیان کرنا ـ انہی روایات نے لوگوں کو تکفیری بنا دیا ہے، فاٹا کا وار لارڈ ان کو سر کاٹنے کے لئے بطور ریفرنس پیش کرتا ہے ، اور آپ اس کو مجرد اس تاویل سے نہیں روک سکتے کہ یہ ترھیب ہے ،، رسول اللہ ﷺ کا مقصد واقعی قتل کرنا نہیں تھا ، مگر آپ اس کو ثابت کیسے کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس کو واقعی قتل کرنا نہیں تھا ؟؟ کیا یہ بات رسول اللہ ﷺ نے کسی کو بتائی کہ میری فلاں موقعے کی حدیث کو بس ترھیب سمجھو عمل مت کر بیٹھنا ؟ اسی قسم کی روایات میں بےنمازی کے بےایمان ہونے اور نکاح فاسد ہونے کا فتوی بھی ہے ،، من ترکھا فقد کفر کو بنیاد بنا کر ۹۰ دن کی مہلت کے اندر توبہ کر کے نماز پابندی سے پڑھنے اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح نہ ہوا تو بیوی الگ ہو گئ ، سعودیہ میں باقاعدہ اس عمل کیا گیا ،، ہمارے یہاں بھی دو چار تکفیریوں کی طرف سے یہی کہا جاتا ھے کہ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا نکاح کر کے بھی زنا کر رہے ہوتے ہیں اور مثال میں یہی من ترکھا فقد کفر پیش کر کے کہا جاتا ھے کہ اگر بیویاں شوھر کے تارکِ صلاۃ ہونے کی اطلاع کسی اتھارٹی کو نہیں دیتیں جو اس کے شوہر کی کنپٹی پہ کلاشنکوف یا گلے پہ چھری رکھ کر دوبارہ تجدید ایمان اور تجدید نکاح کرائے تو وہ جوڑے نکاح میں ہو کر بھی زنا کر رہے ہوتے ہیں ،، استاذی جب تک آپ قرآن لا کر ان روایات کو ڈی کمپوز نہیں کریں گے یہ سانپ کی طرح ڈستی رہیں گی ، ان کا علاج ترغیب و ترھیب کے امرت دھارے میں نہیں ، قرآن کے اصولوں میں ہے ـ جو اقرار کر کے مسلمان ہوا ہے اپنے انکار سے ہی اسلام سے باھر ہو گا ،، کوئی دوسرا کسی بھی روایت کے زور پر یا عمل میں کسی کمی کوتاہی کی بنیاد پر کافر قرار نہیں دے سکتا، وہ شخص بھی ہے کہ جس کے بارے میں عمر فاروقؓ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ شخص ایسا ہے ویسا ہے یہ اس لائق نہیں کہ آپ ﷺ اس کا جنازہ پڑھائیں ،جس پر رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ کی طرف سے رخ پھیر کر مجمعے سے پوچھا کہ تم میں سے کسی نے اس میت کو کوئی مسلمانوں والا کام کرتے دیکھا ہے ؟ جس پر ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس شخص نے ہمارے ساتھ ایک غزوے میں رات کا پہرہ دیا تھا ، جس پر رسول اللہ ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھایا اور پھر قبر میں اتارنے سے پہلے اس کے بالوں کو سیدھا کیا یا مٹی جھاڑی اور فرمایا کہ تیرے ساتھی تجھے جھنمی سمجھتے ہیں جبکہ میں گواہی دیتا ھوں کہ تُو جنتی ھے ، اس کے بعد عمر فاروقؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ عمر تجھ سے لوگوں کے ایمان یا عمل کے بارے میں سوال نہیں ہو گا ـ

سورس