بسم اللہ والحمدُ للہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ

اما بعد ! اللہ پاک نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا اس کی امت کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ عبادات میں اپنے نبی کا اتباع کریں،،فأتبعونی و اطیعوا امری،، ان کے عمل کا اتباع اور حکم کی اطاعت،، اس لئے کہ اطاعت حکم کے بغیر ناممکن ھے اور اتباع عمل کے بغیر ناممکن، اللہ پاک کے لئے ھمیشہ طاعت کا صیغہ استعمال کیا گیا ھے، اللہ کا اتباع ممکن نہیں کیونکہ ھم اللہ پاک کو دیکھ نہیں سکتے اور دیکھے بغیر اتباع ممکن نہیں ، یہی بیک گراؤنڈ ھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا کہ صلوا کما رأیتمونی اُصلی – ظاھر ھے یہ حکم صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کو ھی دیا گیا ھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ سکتے تھے، پھر بعد والوں کے لئے بھی نبی کریمﷺ کے اتباع کا ھی حکم ھے مگر یہ اتباع اب صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین کو دیکھ کر ھو گا اور دیکھنے والے تابعین اتباع کی وجہ سے ھی کہلائے،، پھر تبع تابعین ، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر بشارت تھی وھی بشارت صحابہ میں سے سابقون الاولون کے اتباع پر بھی دی گئی ھے، والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسانٍ رضی اللہ عنھم ،ورضوا عنہ و اعد لھم جناتٍ تجری تحتھاالانہارُ خالدین فیہا ابداً ذالک الفوز العظیم (توبہ100) پہلوں میں سے پہلے مہاجرین میں سے اور انصار میں سے اور جنہوں نے اتباع کیا ان کا اچھے طریقے سے ،اللہ راضی ھو گیا ان سے اور وہ راضی ھوئے اس سے اور تیار کی ان کے لئے جنتیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ھیں، وہ ھمیشہ رھیں گے ان میں اور یہ بہت بڑی کامیابی ھے،، یہی ایک فطری طریقہ ھے سنت کی بقا اور دوام کا جس کے لئے نہ کاغذ کی ضرورت ھے نہ سیاھی اور دوات کی،، اسی طریقے سے ھمیشہ نبیوں کی سنت اور عبادات کے مناسک کی حفاظت کی گئی،، امتوں میں کجی ھمیشہ عقائد کے رستے داخل ھوئی اور ان کی توحید کو گھن کی طرح کھا گئی،، اللہ کی کتاب سے دوری نے ان کو رانده درگاہ بنا دیا،، جب انسان اپنی ضرورتوں کے لئے رب کی بجائے کہیں اور رجوع کرتا ھے تو اس کا رابطہ اپنے رب سے ٹوٹ جاتا ھے جس کا پہلا اثر کتاب اللہ سے ان کے تعلق پر پڑتا ھے،کتاب اللہ ان کے لئے اھمیت کھو دیتی ھے اور اپنے عمل کے لئے وہ ریفرنس اور کمانڈ کہیں اور سے لیتے ھیں،، نتیجے کے طور پر علماء اور پیر خدا کی جگہ لے لیتے ھیں،، اور اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ کا مصداق قرار پاتے ھیں،، کتاب اللہ بس ایک لکھی ھوئی رسم کے طور پر رہ جاتی ھے جسے تلاوت کر کے ثواب کی بھٹی چلائی جاتی ھے،، مگر روزمرہ زندگی سے کتاب اللہ کا تعلق دور دور تک نظر نہیں آتا،، لم یبقی من القرآنِ الا رسمہ ولم یبقی من الاسلامِ الا اسمہ،، قرآن کی صورت کے سوا کچھ نہیں بچے گا اور اسلام کے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ھوگا،، اس طرح امتیں اتباع کی وجہ سے مناسک سے تو جڑی رھیں ،مگر کتاب اللہ سے دوری نے ان میں نظری اور فکری کجی پیدا کر دی جس کی وجہ سے نیا نبی مبعوث ھوتا رھا اور ھر آنے والے رسول نے ان سے توحید کی طرف پلٹنے کا مطالبہ کیا –ان سے نماز روزے کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی،، ان کی عملی اور سماجی برائیوں کو موضوع بنایا، انکی عبادات میں کسی کمی بیشی کا اشارہ تک نہیں کیا،،کیونکہ عبادات اپنے تتبع کی وجہ سے محفوظ و مامون چل رھیں تھیں اور یہی سبب تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھ رھے تھے اور اپنے نبی کو گمراہ جانتے تھے جس کے لئے وہ لفظ صابی استعمال کرتے تھے،اور بڑے یقین سے سمجھتے تھے کہ اللہ ھمارے ساتھ ھے، بنی اسرائیل میں مبعوث ھونے والے آخری نبی عیسی علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی ایک حرف بھی یہود کے مناسک نماز و روزہ کے بارے میں نہیں کہا ،،بلکہ ان کی نمازوں اور زاھدوں جیسی شکل و صورت اور پھر عقائد اور سماجی کاموں میں ان کی حرام خوری کا تقابل کر کے انہیں شرمندہ کیا ، اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کو سورہ حج میں جو سورہ مناسک بھی ھے جس میں حج کے مناسک کی تعلیم دی گئی ھے، دو جگہ ارشاد فرمایا ھے کہ ھم نے جو مناسک ان کے لئے طے کیئے تھے،یہ لوگ ان مناسک کو اسی طرح ادا کر رھے ھیں اور ان پر چل رھے ھیں ، آپ مناسک پر اعتراض مت کیجئے اور ان کو موضوعِ تبلیغ مت بنائیے بلکہ توحید کی طرف دعوت دیجئے جس سے یہ لوگ ھٹ گئے ھیں، لکل امۃٍ جعلنا منسکاً ” ھم ناسکوہ” فلا ینازعنک فی الامر ، وادع الی ربک – انک لعلی ھدیً مستقیم ( الحج67 ) ھر امت کے لئے ھم نے مناسک طے کئے ھیں جن پر وہ چلے جا رھے ھیں،سو اس امر کو آپ موضوع تنازعہ نہ بنائیں اور دعوت دیں اپنے رب کی طرف،آپ یقیناً سیدھی راہِ ھدایت پر ھیں،، گویا 2500 سال گزرنے کے باوجود اتباع کے تسلسل نے بنی اسرائیل میں عبادت کی حد تک کوئی کجی نہیں آئی تھی نیز آج بھی ان کی نمازیں اور دیگر مناسک 4000 سال بعد بھی اسی صواب کے ساتھ جاری و ساری ھیں،، فقہی تفصیلات اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ محفوظ ھیں،، کجی صرف عقائد میں پائی جاتی ھے،، اب یہ تعجب کی بات ھے کہ ابھی 22 سال نہیں گزرے تھے کہ اسلام کی نماز پر اعتراض وارد ھو گیا ، وہ اتباع جو بنی اسرائیل کی عبادت کو 2500 سال سے بچائے ھوئے تھا وہ ھمارے یہاں دو دہائیاں نہ نکال سکا،، تفصیل اس اجمال کی یہ ھے کہ نبی کریمﷺ نے ٹھیک رسولوں کے اسوئے کے مطابق اتباع کی راہ دکھائی اور صلوا کما رأیتمونی اصلی کا حکم دے دیا،، نماز پڑھ کے سکھائی،، اور آپ کو دیکھنے والوں کو دیکھ کر بعد والوں نے سیکھی اور یہ دیکھ کر سیکھنے کا فطری رستہ جو ھر شخص کے گھر اور اس کی اولاد میں سے ھو کر نکلتا تھا،ایک محفوظ و مامون رستہ تھا،جو اسلام میں نئے نئے داخل ھونے والوں کے لئے بھی باعثِ اطمینان تھا مگر بعد میں احادیث کو سنت سمجھنے والوں نے اتباع کو ایک طرف رکھتے ھوئے ،احادیث سے عبادات کو ثابت کرنا شروع کیا،، اور احادیث متضاد اور متفرق ھیں،، نتیجہ یہ ھوا کہ وہ افتراق نہ صرف امت میں باعثِ تفرقہ ثابت ھوا بلکہ نئے مسلمان ھونے والوں کو بھی شش و پنج میں ڈال گیا،، جن کے یہاں ایک دن میں پانچ بار پریکٹس میں آنے والی عبادت ھی محفوظ نہیں رھی ، انہوں نے باقی کیا کچھ محفوظ رکھا ھو گا ؟ یہ وہ خدشہ تھا جس کو مد نظر رکھتے ھوئے نبی کریمﷺ خود بھی خلش کا شکار تھے اور آپ نے سوائے قران کے کسی بات کو لکھنے کی ممناعت ھی نہیں کی بلکہ لکھا ھوا مٹانے کا حکم بھی دیا،اور لکھائی کو قرآن کے لئے مخصوص کرتے ھوئے عبادات کو اتباع کی طرف ریفر کر دیا،، بعد میں آپ نے چند مخصوص لوگوں کو ھی لکھنے کی اجازت دی،، پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک ماہ استخارہ کرنے کے بعد اپنا مرتب کردہ مجموعہ احادیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اگ منگوا کر جلا ڈالا اور یہی وجہ بیان کی کہ میں کل کسی اختلاف کا بوجھ اپنی زات پر لینے کو تیار نہیں ھوں، ( کیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر منکر حدیث ھونے کا فتوی لگایا جا سکتا ھے؟) حدیث کی بنیاد پر مسنون نماز پر پہلا اعتراض عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ھی سامنے آ گیا تھا،، کوئی صحابی عراق گئے اور وھاں نماز کے بارے میں کوئی حدیث بیان کی کہ نبیﷺ یوں نماز پڑھا کرتے تھے،،اس حدیث کی روشنی میں لوگوں نے چیک کیا کہ ان کے گورنر تو خلافِ سنت نماز پڑھتے ھیں، اور یہ اعتراض مدینہ پہنچا دیا گیا،، حضرت عمرؓ نے اپنے گورنر سعد بن اب وقاصؓ کو مدینہ طلب کر لیا،، اور ان کے سامنے نماز پر اعتراض کو پیش کیا،،جس پر جناب سعد بن ابی وقاصؓ نے جو مستجاب الدعا صحابی اور نبی کے رشتے کے ماموں تھے فرمایا ” اسلام میں سب سے پہلا تیر میں نے چلایا اور پہلا خون میرا بہا نبی ﷺ کے ساتھ دن رات رھتے ھوئے اپنی جانوں پر کھیل کر اگر میں نے نماز بھی نہیں سیکھی تو پھر خسر الدنیا والآخرہ،، ھماری دنیا بھی گئی اور آخرت بھی گئی،، اس پر عمر فاروقؓ نے انکی نماز کی تفصیل پوچھی اور فرمایا نماز تو ھم بھی اسی طرح پڑھتے ھیں،، اور انہیں دوبارہ عراق جانے کی تلقین کی مگر سعد بن ابی وقاصؓ نے ان فتنہ پرور لوگوں میں واپس جانے کی بجائے گورنر شپ سے استعفی دے دیا،، احادیث سے اذکار اور ادعیہ سیکھے جا سکتے ھیں،، اعمال کے فضائل اور درجات متعین کیئے جا سکتے ھیں،، نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کے شب و روز سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ھے،جنگوں کے آحوال اور فئے اور غنائم کی تقسیم کے قوانین معلوم کئے جا سکتے ھیں، مگر نماز اور دیگر تعبدی مناسک صرف اتباع ھی کے رستے سے امت کی وحدت کی بنیاد بن سکتے ھیں،کیونکہ ان کے لئے نبیﷺ ایک جماعت چھوڑ کر گئے ھیں،جن کو آپ نماز میں نام لے لے کر بلا کر اپنے پیچھے کھڑا کرتے تھے اور فرماتے تھے،میرے پیچھے دانش مند (اولوالنہی) کھڑے ھوا کریں،، ان میں سے ھی ابوبکرؓ تھے کہ جن کو نبی ﷺ سے نبوت کے سوا نبی کی ھرحیثیت منتقل ھوئی تھی اور سنت کا نبوی ورژن وھی ھے جو ان خلفاء کے ذریعے منتقل ھوا اور اس انتقال میں ایک دن کا خلل بھی واقع نہیں ھوا،، جو رستہ کٹ جائے وہ صراطِ مستقیم نہیں کہلاتا ،،اور ھم ھر نماز میں اس صراطِ مستقیم کی دعا کرتے ھیں جو ان انعام یافتہ ھستیوں کے ذریعے ھم تک پہنچا،، اللہ نے ان کے اتباع کا حکم سورہ توبہ کی آیت میں نمبر 100 میں دیا تو نبیﷺ نے اپنی سنت کو ان کی سنت کے ساتھ ملا کر پکڑنے کا حکم دیا،علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء الراشدین المھدیین من بعدی، عضوا علیہا النواجذ، اور اسے داڑھوں سے پکڑنے کا حکم دیا،، جس طرح جمہوریت کا المیہ یہ ھے کہ اس میں دودھ بیچنے والے گوالے اور چیف جسٹس کا ووٹ برابر ھے،اسی طرح علم الحدیث کے اصول کے مطابق صحابی سارے برابر ھیں چاھے کسی نے نبیﷺ کے ساتھ 23 سال شب و روز نمازیں پڑھی ھوں یا صرف دو بار نماز پڑھی ھو،، روایت کی دنیا میں روایت کو دیکھا جاتا ھے،، عقل و فہم کی کی کوئی مارکیٹ نہیں،، حالانکہ ھر معاشرے کی طرح اس وقت بھی لوگوں کی مختلف ذھنی اور فکری صلاحیتیں تھیں،، اور ھر بندہ اپنے شعور کی سطح کے مطابق الفاظ کا انتخاب کرتا تھا،، اور یہی الفاظ اگے چل کر دیواریں بنے،، فقہ کی دنیا مین راوی تولا جاتا ھے اور روایت کی قیمت راوی کے شعوری اور عقلی مقام کے مطابق طے کی جاتی ھے،، فقیہہ ڈاکٹر ھوتا ھے جب کہ محدث فارماسسٹ ھوتا ھے، بقول امام الاعمش، یا معشر فقہاء انتم الاطباءُ و نحن الصیادلہ،،اے فقہیوں کے گروہ تم لوگ طبیب ھو جو دوا تجویز کرتے ھو اور ھم فارماسسٹ ھیں جو دوا فراھم کرتے ھیں۔۔، مگر فساد تب بپا ھوا جب فارماسسٹ کو ھی لوگ ڈاکٹر بنا بیٹھے اور ڈاکٹروں کی مذمت کتابیں تصنیف کی جانے لگیں،، نتیجہ آپس کی نفرت اور عداوت کے سوا کچھ نہ نکلا اور مساجد تک تقسیم ھو کر رجسرڈ ھو گئیں،، انا للہ و انا الیہ راجعون،، بنگلہ دیش الگ ھوا تھا تو ھزاروں فسانے بنے تھے اور لوگ خون کے آنسو روئے تھے،مگر جب اللہ کے گھر تقسیم ھوئے تو ھمارے علماء نے سکھ کا سانس لیا کہ ھماری مسجد بچ گئی،، اسی طرح جس طرح ملٹری ایکشن پر بھٹو صاحب نے ائیر پورٹ پر بیان دیا تھا،،” اللہ کا شکر ھے پاکستان بچ گیا ”
حدیث کی دنیا میں ایک اصطلاح مرفوعِ حکمی کی بھی ھے جسے عام لوگ نہیں جانتے، کہ صحابیؓ اگرچہ اپنے عمل کا ریفرنس نہ دے،نبیﷺ کا حوالہ نہ دے مگر اس کے فعل کو نبیﷺ کا عمل ھی سمجھا جائے گا جسے اس نے اپنے عمل سے نبی کی طرف مرفوع کیا ھے، گویا خلفاء کے اعمال و افعال مرفوع حدیث کا درجہ رکھتے ھیں، میں اسی جماعت کے ساتھ رھنا ،مرنا ،دوبارہ اٹھنا اور ان ھی کے ساتھ اپنا حشر چاھتا ھوں جن پر رب راضی ھوا، نبیﷺ نے ان کی سنت کو اپنی سنت میں ضم کر کے بیان کیا ،اس عقیدے کو کوئی اور کچھ بھی نام دے سکتا ھے مگر میں اسے اھل السنت والجماعت کا نام دیتا ھوں، علیکم بالجماعۃِ والسمعِ والطاعۃِ والہجرۃ، والجہادِ فی سبیل اللہ ! احادیث میں دلوں کو نرم کر دینے والی ،اور رقت سے بھر دینے والی نبی کی دعائیں بھی ھیں اور عقائد کی تفصیلات بھی ھیں،، اللہ سے جوڑ دینے والے دانش بھرے خطاب بھی ھیں اور سابقہ امم کے سبق آموز واقعات بھی ھیں، ھم ان سب کو مانتے اور تسلیم کرتے ھیں،، مگر سنت جس کا نام ھے وہ وھی ھے جو کرتے دیکھ کر کرتے کرتے پہنچا ھے،اور کرتے کرتے پہنچانے کا حکم ھے،،