ایقاظ کی سعی مشکور

’مجمع‘ سے
”جماعت“ تک!!!
باوجود اس حقیقت کے کہ دین کا مصدر کتاب اللہ ہے اور سنت رسول اللہ ، اور جس میں کہ شک کی ذرہ بھر گنجائش نہیں۔۔۔۔ پھر بھی یہ سوال کچھ کم اہم نہیں کہ اس کا فہم آپ کہاں سے لیتے ہیں؟ اپنے نوجوانوں کو اس سوال کا صحیح جواب ازبر نہ کرانا ہم دیکھ چکے کتنے خطرناک مضمرات کا حامل ہے۔
وہ سب طبقے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کو دین کا مصدر ماننے پر متفق ہیں، جن میں کہ مذاہبِ اربعہ سے منسوب آج کے بیشتر طوائف، جن میں سے ہمارے برصغیر میں ایک بڑی سطح پر البتہ احناف پائے جاتے ہیں اور بہت محدود سطح پر شوافع، اور پھر اہلِ حدیث اور اہلِ ظاہر کے تقریباً سب مکاتب فکر آجاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہم ان سب گروھوں کو اہلسنت شمار کرتے ہیں اوربرصغیر میں انکے وجود کو ایک بڑا سرمایہ خیال کرتے ہیں۔۔۔۔ ہم یہ واضح کر تے ہیں کہ منہجِ سلف کے احیاءکی صورت میں یہ سب طبقے کیونکر ایک ہی شجر سے پیوستہ ہوسکتے ہیں اور ایک بہترین انداز میں اسی ایک شجر کے قدرتی پھیلاؤ کی صورت دیکھے جا سکتے ہیں۔
گو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے یہ طبقے جو تاریخی طور پر اہلسنت شمار ہوتے ہیں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو ہی دین یا دین کا مصدرِ مطلق ماننے والے اصحاب ۔۔۔۔ ہمارے ان طبقوں میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو سمجھنے اور اس پر عمل پیراہونے کے سلسلے میں اس وقت جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ کسی بعد المشرقین سے کم نہیں، اور یہ کہ ہر ایک اپنے ہی طریقے کو معیار حق ماننے میں شدت کے آخری درجے پر جانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں یہ اندازہ ہے کہ اس کتابچہ کی صورت میں بلکہ عمومی طور پر ایقاظ کی اپروچ متعارف کرا کر ہم کتنا ایک نازک اور دشوار موضوع چھیڑنے جا رہے ہیں۔ گو اس معاملہ میں الحمد للہ ہمیں امت کی اعلیٰ سطح کی علمی شخصیات کی راہنمائی پوری طرح حاصل ہے۔
ہمارے برصغیر کے یہ دینی طبقے، جن کو ہم اہلسنت کا ہی تسلسل مانتے ہیں، اور خود کو بھی مجموعی طور پر انہی سے وابستہ جانتے ہیں، ”دین“ کے ایک متعین مصدر پر گو متفق ہیں مگر دین کے فہم کے معاملہ میں ایک بری طرح گتھم گتھا۔ یہاں تک کہ دیکھنے والا یہ محسوس کرتا ہے گویا یہ مختلف ادیان ہیں۔ تاریخ کے اس آشوب ناک ترین دور میں رہتے ہوئے بھی ہمارے یہ دینی طبقے فکری یکسوئی سے بہت دور اور آپس کی ذہنی قربت اور یگانگت سے تقریباً ناواقف ہیں جبکہ فکری اور نظریاتی یکسوئی کے جتنے مواقع قدرتی طور پر ان کو، یعنی اہلسنت سے منسوب مسالک ومکاتب فکر کو، حاصل ہیں کرۂ ارض کی کسی اور جماعت کے ہاں اس کا تصور تک ممکن نہیں۔ بہت سے تاریخی عوامل نے برصغیر کے دینی سیکٹر کو، نشاطِ عمل کے غیر معمولی امکانات رکھنے کے باوجود، اور انتہا درجے کا جذبۂ جہاد پائے جانے کے باوجود، شدید حد تک غیر مؤثر بنا کر رکھ دیا ہے بلکہ تفرقہ اور انتشار کی ایک اندوہناک مثال بھی۔ جہاں اس کے اور کئی اسباب ہوں گے وہاں، آپ اتفاق کریں گے، مصادرِ فہم کا مسئلہ بھی اس کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔
پس مستقبل کی وہ تحریک جو برصغیر کی اس زرخیزی کو عمل اور جہاد کے رخ میں ایک صحیح معنیٰ کے اندر بروئے کار لانے میں کامیاب ہو گی، اور جس کے نتیجے میں باطل کے بڑے بڑے برج یہاں الٹیں گے، اور آخر تو ان شاءاللہ یہ ہونا ہے، ”منہجیتِ فہم“ کا مسئلہ__ ایک باقاعدہ اصولی بنیاد کے ساتھ__ اس کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہوگا۔ پس یہ معاملہ ہرگز بے رغبتی برتنے یا کوئی ’ڈپلومیسی‘ اختیار کر رکھنے کا نہیں۔ ایک اصولی بنیاد اختیار کر رکھتے ہوئے مستقبل کی اس تحریک کو یہاں بے حد دوٹوک ہونا پڑے گا اور بے حد واضح اور صریح۔ یقین کیجئے بہت سے بند راستے یہاں کی تحریکی دنیا میں یہیں سے، یعنی اس مسئلے کو لے کر چلنے سے، کھلیں گے۔
٭٭٭٭٭
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں ایک طرف ہم ان طبقوں کو ’اہلِ سنت‘ کے طور پر لیتے ہیں، جس کی اپنی ایک دلالت ہے۔ اور دوسری طرف ہم ان کو بڑی سطح پر اور متعدد پہلوؤں سے ایک تبدیلی کے عمل سے گزرنے کا ضرورت مند سمجھتے ہیں، جس کی اپنی ایک دلالت ہے۔۔۔۔
ہمارے مقدمے کا یہ حصہ ضروری ہے کہ بہت واضح ہوجائے۔۔۔۔
ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کچھ مانع نہ ہونا چاہیے کہ پچھلی چند صدیاں ہمارے زوال کی صدیاں تھیں۔ یہ خیال درست نہیں کہ یہ زوال ہمارے معاشروں کے ایک عام فرد پر تو آیا مگر دینی طبقے اس سے محفوظ ہی رہے۔ بلکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ یہ زوال پہلے یہاں کے دینی طبقوں اور علمی حلقوں پر اگر نہ آیا ہوتا تو عام فرد اس کی زد میں آتا ہی نہ۔ اس امت کے عروج اور زوال کا اصل پیمانہ تو یہاں کی دینی قیادتیں اور دینی طبقے رہے ہیں۔ اِن پر آنے والا زوال خود بخود معاشرے پر اثرانداز ہوگا اور اگر ان کا رخ بلندی کی جانب ہو جائے تو معاشرہ خودبخود ترقی کرے گا۔
چنانچہ آج یہاں جو دینی طبقے پائے جاتے ہیں اور جن کے وجود کو ہم اس وقت بساغنیمت جانتے ہیں، ان کو اہلسنت کا تاریخی تسلسل ماننے سے ہماری یہ مراد نہیں کہ یہاں اہلسنت کا منہج پوری طرح واضح اور قائم ہے۔ جس طرح کہ آج کے مسلم معاشروںکو اُمتِ اسلام کا تسلسل ماننے سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ آج کے یہ مسلم معاشرے اسلام کی حقیقت پر پوری طرح ___ یا حتی کہ گزارے کی حد تک بھی ___ قائم ہیں۔ ایسا ہوتا تو پھر کسی بات کا رونا ہی کیا تھا! تب ہم بھی اسلامی حکومت کے قیام یا دشمن سے قتال وغیرہ کو ہی اپنی سب سے بڑی ترجیح جانتے۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں حقیقتِ اسلام اس وقت قائم نہیں بلکہ اسلام اپنی حقیقت کے ساتھ معروف تک نہیں۔ لہٰذا ہمارے خیال میں ان مسلم معاشروں میں کسی اور بڑی مہم کی صدا بلند کرنے سے پہلے ان کو حقیقتِ اسلام کی نشان دہی کرکے دینے اور اس پہ ان کو عملاً لے آنے پر ہی کچھ وقت صرف کر دیا جانا چاہیے۔
بعینہ اسی طرح۔۔۔۔ یہاں کے دینی طبقوں کو اہلسنت کا تاریخی تسلسل ماننے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ان طبقوں میں کوئی بہت ہی بنیادی اور جذری تبدیلی لے آنے کی چنداں ضرورت نہیں یا یہ کہ ان میں اصولِ اہلسنت کا فقہ وفہم اجاگر کرنا ازسرنو ضروری نہیں ۔۔۔۔یا یہ کہ ایسا کئے بغیر ہی آناً فاناً ہم ان طبقوں میں اتحاد اور یکجہتی کی کوئی تحریک اٹھانے چلے ہیں۔
البتہ ان طبقوں کو اہلسنت ماننے کی ایک دلالت ہے۔ بعینہ جس طرح آج کے ان معاشروں کو مسلم ماننے کی ایک دلالت ہے ۔۔۔۔
مسلم معاشروں کو اسلام کا پابند ہو جانے پر تیار کرنا اور اسلام کی بنیاد پر ان کا محاکمہ کرنا، بہ نسبت ایک غیر مسلم معاشرے کے، ایک فطری امر ہے اور ایک عقل لگتی بات۔ مسلم معاشروں میں اسلام سے کتنی بھی دوری کیوں نہ پائی جائے پھر بھی یہاں اسلام کی صدا بلند ہونا اور ان کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھنے کی بات کی جانا ہرگز غیر مستحسن یا حیران کن نہ ہوگا، برخلاف ایک غیر مسلم معاشرے کے۔
بعینہ اسی طرح۔۔۔۔ اہلسنت حلقوں میں اصولِ اہلسنت کی صدا بلند کرنا اور اصولِ اہلسنت کی بنیاد پر ان کا جائزہ لیا جانا کہیں زیادہ مستحسن اور غیر حیران کن ہوگا بہ نسبت مثلاً ایک رافضی طبقہ کے، یا کسی باطنی حلقہ کے، یا کسی نیچرسٹ، یا سیکولرسٹ مکتبِ فکر وغیرہ وغیرہ کے۔
چنانچہ ہمارے یہ دینی طبقے جو مجموعی طور پر اہلسنت کا تاریخی تسلسل ہیں اور جن سے ہماری خدا واسطے کی محبت اور وابستگی ہے ۔۔۔۔ ان کو اہلسنت ماننے کے باوجود یہ تسلیم کرنے میں البتہ ہمیں کوئی تامل نہیں کہ وہ زوال جو پچھلی کئی صدیوں پر محیط رہا ہے اس کی زد ہمارے ان دینی طبقوں پر بھی بری طرح پڑی جو یہاں اہلسنت کے علمی اور فکری ورثے کے امین ہیں۔ بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ اس زوال کی زد اصل میں تو پہلے ان طبقوں پر پڑی تو تب ہی پوری اُمت اس بڑی سطح پر اس کی زد میں آئی۔ کیونکہ یہ طبقے ہی اس اُمت کی امامت اور قیادت پر فائز تھے جبکہ کسی قوم کا امام اس کی ڈھال بھی ہوتا ہے (انما ال اِمام جُنة یقاتل من ورائہ، ویتقیٰ بہ – متفق علیہ) ڈھال ہی کارگر نہ رہے تو کوئی فرق تو ہے جس کا کہ آنا پھر ناگزیر تھا!!!
پس یہ انحطاط جو آج امت کو درپیش ہے اصل میں تو ہمارے اِن دینی طبقوں کے زوال کی کہانی ہے۔ اُمت اسلام پر آنے والی یہ پسپائی اصل میں تو ان طبقوں کی پسپائی ہے جو آج اس وقت اہلسنت کے باقیاتِ صالحات شمار ہوتے ہیں۔
اُمتِ اسلام پر زوال آنے کا باعث پس ہمارے نزدیک یہ نہیں کہ یہاں کے ”بے دین“ یا یہاں کے ”بدعتی“ زوال کا شکار ہوئے! اس اِدبار کا سبب یہ نہیں کہ یہاں کے ”باطنی“ یا ”رافضی“ یا یہاں کے ”قبر پرست“ یا یہاں کے ”ملحد اور زندیق“ یہاں معاشرے کے اندر اپنا وہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہوئے جو وہ اس سے پہلے اُمت کے بھلے دور میں کبھی ادا کرتے رہے تھے تو تب ہم پر پسپائی اور کسمپرسی کی یہ آفت پڑی! بے شک اُمت کے دورِ عروج میں بھی یہ منحرف طبقے کم یا زیادہ پائے گئے ہوں اور اس کے وجود کو گھن کی طرح کھانے کیلئے کوشاں بھی رہے ہوں مگر جب تک اہلسنت اُمت کے جسم میں خون کے مرض کش جسیمے بن کر دوڑتے رہے تب تک مرض کے یہ سب جراثیم ایک بڑی سطح پر بے اثر ہی رہے۔ مگر ان صحت افزا جسیموں کا کام نرم پڑتے ہی ایک طبعی امر تھا کہ تباہی کے یہ اندرونی عوامل پوری شدت سے اُمت کے وجود پر حملہ آور ہوتے اور اپنا تباہ کن کردار جو اس سے پہلے ادا کرنے میں یہ ناکام رہے دندنا کر ادا کرنے کا اب پوری طرح موقعہ پاتے۔ تب اس گھن کے کھائے ہوئے وجود کو جو اندر سے بودا ہو چکا تھا تباہی کے ”بیرونی اسباب“ کاسامنا کرنا بھی دشوار ہونے لگا اور تب یہ ہوا کہ پچھلی دو صدیوں میں یہ پچھم سے اُٹھنے والے اِن طوفانی جھکڑوں کی تاب لانے میں بالآخر ناکام رہا۔
چنانچہ اس اندوہناک کہانی کی اصل کڑی نہ تو گھر کے ”منحرف“ ہوئے اور نہ باہر کے ”حملہ آور“، باوجود اس کے کہ دونوں کا کردار تباہ کن تھا اور ابھی تک ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ تباہی کے اندرونی اور بیرونی عوامل تو کم وبیش ہر وقت ہی موجود ہوتے ہیں۔ اصل سوال تو آپ کی ”قوتِ مدافعت“ کا ہے۔ تباہی کے اندرونی یا بیرونی عوامل بظاہر چاہے نظر نہ آئیں مگر بالفعل وہ کسی بھی وقت روپوش نہیں ہوتے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔ خدا نے یہ دُنیا ایسی بنائی ہی نہیں جہاں تعمیر اور تخریب کے عوامل باہم برسرجنگ نہ ہوں۔ ایک صحت مند ترین جسم بھی اس بات کی ضمانت نہیں کہ مرض بردار عوامل اس کے پاس تک نہ پھٹکیں گے۔ صحت مند جسم کی یہ تعریف درست نہیں کہ اس پر بیماری کے جرثومے سرے سے حملہ آور نہ ہوں! بلکہ ”صحت مندی“ کی تعریف ہم یہ کرتے ہیں کہ یہ وہ جسم ہے جس سے ٹکرا کر بیماری کے جرثوے پسپا یا بے اثر ہو جانے پر مجبور ہوں، جس میں مرض کُشی کی صلاحیت زیادہ ہو اور جو قوت کے عوامل کی افزائش زیادہ سے زیادہ کر سکتا ہو۔جبکہ لاغر جسم وہ ہے جس میں بیماری کے عوامل کے خلاف مزاحمت نرم پڑ جائے اور جو غذا کو قوت میں تبدیل کرنے سے قاصر ہونے لگے۔
نبوت کی روشنی پہ قائم وہ حسین واقعہ جس کو اس اُمت کی تاریخ میں ”اہل سنت“ کے نام سے پہچانا گیا یہ دراصل اس اُمت کے جسم کی اسی ”صلاحیت“ کا ہی دوسرا نام ہے جو اس کے ”مرض کشی“ کی اہلیت رکھنے اور ”قوت کے عوامل کی برابرافزائش کرتے رہنے“ سے عبارت ہے۔ یہاں اصل فرق اگر کہیں آیا تو وہ اسی حسین واقعے کا اُمت کی سطح پر سمٹ جانا اور حاشیائی ہو جانا ہے۔ باقی سب واقعات جتنے بھی اہم اور سنگین مانے جائیں، اس کی نسبت اضافی اور ثانوی ہی رہیں گے۔
یہ ان طبقوں پر، جو اہلسنت کے باقیات شمار ہوتے ہیں، اگر کوئی تنقید ہے تو بیک وقت ان کی ایک غیر معمولی تعظیم بھی ہے۔ یہ ایک ناکامی کا ذکر ہے تو ایک ایسے کردار کا تذکرہ بھی ہے جو انہی کے اداکرنے کا ہے اور جس کو ادا کرنا کرۂ ارض کے کسی اور طبقہ کے حصہ میں نہیں آسکتا۔ یہ ایک کوتاہی کا تذکرہ ہے توایک شان کا بیان بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو یہ کوتاہی کوئی چھوٹی کوتاہی ہے اور نہ اس شان کے بیان میں ہی ہرگز کوئی مبالغہ ہے۔ نقد criticism کا عمل دراصل منقود criticised person کے مقام کا تعین بھی ہوتا ہے!
٭٭٭٭٭
چنانچہ یہ تو ایک واقعہ ہے کہ ہمارے برصغیر کے یہ دینی طبقے ___ جو مجموی طور پر اور ایک عمومی معنیٰ میں اہلسنت کا تاریخی تسلسل قرار دیے جا سکتے ہیں ___ آج جس نقطے پر پہنچ چکے ہیں وہ ایک شدید انتشار اور افتراق سے عبارت ہے اور دراصل اس کی پشت پر زوال اور انحطاط کی وہ کئی صدیاں ہیں جس کے دوران یہ ایک بڑی سطح پر اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہے جو ان کے مقام کے شایان تھا اور جس کے دوران یہ اگر مصروف عمل رہے بھی تو کچھ ایسے دائروں میں جو ان کی سعی کا کل میدان نہ ہونا چاہیے تھا اور یا پھر بسا اوقات تو ان دائروں میں جو صرف آپس میں الجھتے تھے اور جو ان کے آپس ہی کے جنگ وجدال سے عبارت تھے، باوجود اس کے کہ ان میں صورتحال کو بہتری کی جانب لے آنے کی مخلصانہ کوششیں بھی وقفے وقفے سے ہوتی ہی رہیں اور آج تک جاری ہیں ۔۔۔۔ البتہ ہم اس کی ایک مجموعی صورتحال پر بات کر رہے ہیں۔
جہاں تک بہتری کی جانب بڑھنے کی بات ہے تو وہ کسی جادوئی چھڑی سے ہو جانے والا کام نہیں۔ یہ کوئی ایسی پیشرفت نہیں جو دنوں کے اندر رونما ہو جائے۔ قوموں کے احوال سدھرنے کے معاملہ میں خدا کی کچھ سنتیں ہیں جن کا تتبع ضروری ہے۔ انہی کو سامنے رکھ کر لائحۂ عمل ترتیب دینا صورتحال کا واحد حل ہے۔ اس کیلئے بنیادی طور پر دو چیزیں مطلوب ہیں:
1) ایک یہ کہ وہ لائحۂ عمل خواہ طویل المیعاد ہو مگر درست ہواور جہاں پہنچنا آپ کو مقصود ہو آپ کا وہ لائحہ عمل آپ کو وہیں پہنچا آنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
2) دوسرا یہ کہ اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے اور اس کی روشنی میں اپنے اہداف کا تعاقب کرنے کیلئے جس قدر محنت ضروری ہو اور جس قدر نوعی اور عددی قوت درکار ہو اور جس قدر اس کے لئے صبر واستقلال مطلوب ہو اس کا بہم پہنچانا یقینی بنایا جائے۔
اور توفیق ہر دو معاملہ میں خدا سے طلب کی جائے۔
یہ دو باتیں ویسے دُنیا میں کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہیں اور ہم بھی اس سے مستثنیٰ نہ ہوں گے۔ البتہ ہمارا دین ہمارے لئے اس معاملہ میں اُمیداور یقین کا ایک اور دریچہ بھی کھول دیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ آپ کا ___ تن دہی کے ساتھ ___ کسی حق راستہ میں پایا جانا ضروری ہے نہ کہ واقعتا کسی ہدف تک پہنچ لینا۔ دلجمعی اور اطمینانِ قلب کی یہ نعمت صرف ہمارے ہی دین کا خاصہ ہے۔ سو اس نعمت سے بھرپور حظ اُٹھانے کا شعور پیدا کیا جانا بھی ازحد ضروری ہے۔ ایک درست راہ میں آگے بڑھتے ہوئے آدمی کا نتائج سے بے نیاز ہو جانا دلجمعی اور حوصلہ مندی کی آخری حد تک جا لینا ہے۔ عمل کی ایسی ’جنونی‘ بنیاد بھلا کس نظریہ کو حاصل ہے؟ لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے دین نے ہمارے لئے اس کا بھی بدرجۂ اتم انتظام کر دیا ہے ۔۔۔۔ إِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ !!!
اس بہتری اور ”تبدیلی“ کی جانب بڑھنا اور اس کی صدا دینا ایک وسیع موضوع ہے۔ ہمارے پیش نظر اس کتابچہ میں جس بات پر گفتگو کرنا تھا وہ ”فہم دین کے مصدر کی درستی اور اس امر میں مطلوبہ معیار اور یکسوئی کا پیدا کیا جانا“ ہے، جو کہ بہرحال اس مطلوبہ ’بہتری‘ اور ’تبدیلی‘ کا ایک اہم حصہ اور ایک اہم پہلو ہے۔
پس مصدرِ فہم کا موضوع، اپنے یہاں کے سنجیدہ اور فعال دینی عنصر کو، اسلام کے ”دورِ اول والی بنیاد“ پر لانے کا ایک پہلو ہے۔ گو یہ صرف ایک پہلو ہے اور ”دورِ اول والی بنیاد“ کو اپنی تحریکی دنیا کے اندر از سر نو اٹھایا جانا یقینا اور کئی پہلو رکھتا ہے، لیکن اگر آپ یہ کتابچہ پڑھ آئے ہیں تو شاید اتفاق کریں کہ فہم کے مراجع کو ”دورِ سلف“ تک پیچھے لے جانا اور اپنا ایک تسلسل وہیں سے برآمد کراتے ہوئے، ’گروہی‘ انداز سے بلند ہوکر ”امت“ کی سطح پر آنا اس عمل کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔