اھلِ بیت کی دو قِسمیں ھیں !

اھلِ بیت کی دو قِسمیں ھیں !
1- قرآنی اھل بیت
،، قرآن حکیم نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے واقعے میں بیان کیا ھے کہ جب اللہ پاک نے انہیں بڑھاپے میں بیٹے اور پوتے کی بشارت سنائی تو ،،ان کی زوجہ جو خواتین کے روایتی تجسس کی بدولت دروازے کے پیچھے سے گفتگو سن رھی تھیں ، حیران رہ گئیں،، اور بے ساختہ اپنے ماتھے کو ھاتھ مار کر بولیں،” قالت یا ویلتی االد وانا عجوز وهذا بعلی شیخا ان هذا لشیء عجیب ” لو جی اب میں بوڑھی پھونس بانجھ عورت بچہ جنوں گی ! اِنَۜ ھٰذا لشئٓ عجیب،، یقیناً یہ بہت تعجب خیز بات ھے ! اس پر فرشتوں نے ان کی طرف رُخ خطاب بدلا اور کہا،، اتعجبین من امر اللہ، رحمۃ اللہ و برکاتہ علیکم ” اھل البیتِ” ،، کیا اللہ کے کاموں پر تعجب کر رھی ھو ؟ اللہ کی رحمت و برکتیں ھوں تم پر اے گھر والو !( ھود 73 ) پتہ چلا گھر والے یا اھل بیت بیوی ھوتی ھے چاھے اولاد ھو یا نہ ھو،،!
سورہ احزاب میں پورا رکوع اللہ پاک نے نبی ﷺ کی بیویوں سے یا نساء النبی،، اے نبی کی بیویو ! اے نبی کی بیویو کہہ کر پابندیاں لگائیں،، نصحیتیں کیں اور وجہ یہ بیان کی کہ اے اھل بیت اللہ پاک ان پابندیوں کے ذریعے تم سے گندگی کو دور کرنا چاھتا ھے،، انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس ” اھل البیت "و یطہرکم تطہیرا ( الاحزاب 33 ) اس کے بعد بھی خطاب بیویوں سے ھی جاری ھے،،یہ تو تھے قرآنی اھل بیت !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
2- روایتی اھل بیت !
جنہیں روایتوں کے ذریعے اھل بیت بنایا گیا !
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ھے کہ ‘اس آیت تطہیر کی تفسیر میں سید مودودی لکھتے ھیں کہ” یہ آیت جس سیاق و سباق میں نازل ھوئی ھے اس سے صاف ظاھر ھے کہ یہاں اھل بیت سے مراد نبیﷺ کی بیویاں ھیں کیونکہ خطاب کا آغاز ھی ‘ یا نساء النبئ ” سے کیا گیا ھے اور وھی ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر کا مخاطب ھیں،،یہ لفظ اس کے علاوہ قرآن مین مزید دو جگہ آیا ھے اور وھاں بھی ٹھیک گھر والوں کے معنی میں ھی آیا ھے ! نیز اصل خطاب ازواج ھی سے ھے اور اولاد مفہوم مین شامل ھے، اسی بنا پر ابن عباسؓ صحابی ،عروہ تابعی اور عکرمہ تابعی کہتے ھیں کہ اس آیت سے مراد ازواج النبیﷺ ھیں ( تفہیم ج 4 )
مگر مفسر کلبی رافضی اور سبائی ٹولہ مدعی ھے کہ یہ آیات پنج تن پاک کے بارے میں نازل ھوئی ھیں،،چھٹا تن اس میں داخل نہیں ھو سکتا،،لہذا نبیﷺ کی ساری دیگر بیٹیاں اور 9 بیویوں جو اس وقت موجود تھیں سب کو اھل بیت سے نکال باھر کیا !
مگر اھل سنت کے قربان جائیے کہ یہ ھمیشہ baby sitter کا کام کرتے ھیں،، جو بھی حلال حرام کا بچہ ان کے سپرد کر دو یہ بس اپنے چارجز لے کر اس کو پالتے ھیں،،بچے کی اصلیت سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں ھے،، ان کو تقریر و تحریر کا مواد چاھئے،،
حق بیان کرنے کے بعد خود مودودی صاحب اب بیک ڈور سے اھل بیت کی نئی کھیپ گھساتے ھوئے لکھتے ھیں کہ ابن ابی حاتم کی روایت ھے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے بارے مین پوچھا گیا تو فرمایا ” اس شخص کے بارے میں پوچھتے ھو جو نبیﷺ کے محبوب ترین لوگوں میں شامل تھا( اور جس سے میں لڑنے گئ تھی ) جس کی بیوی نبیﷺ کی محبوب ترین بیٹی تھی،، پھر حضرت عائشہؓ نے روایت بیان کی کہ ” حضورﷺ نے حضرت علیؓ،فاطمہؓ حسن ؓ حسینؓ کو بلایا اور ان پر کپڑا ڈال دیا اور دعا کی کہ ائے اللہ یہ میرے اھلِ بیت ھیں ان سے گندگی دور کر اور انہیں پاک کر،،حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں بھی تو آپ کے اھلِ بیت میں سے ھوں یعنی مجھے بھی کپڑے میں داخل فرما کر دعا کیجئے،حضورﷺنے فرمایا تم الگ رھو تم تو خیر ھو ھی،،
اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت روایات،مسلم،ترمذی، احمد ،ابن جریر،حاکم،بہیقی وغیرہ محدثین نے، حضرت عائشہؓ،انسؓ،ام سلمیؓ،حضرت واثلہؓ اور بعض دوسرے صحابہ سے نقل کی ھیں،جن کے مطابق نبیﷺ نے علیؓ ۔فاطمہؓ اور حسنینؓ کو اھل بیت میں شامل کیا،لہذا جو لوگ ان کو خارج کرتےھیں ان کا خیال درست نہیں ھے،( تفہیم ج4 )
یہ مودودی صاحب پر ھی بس نہیں بلکہ تقریباً سارے ھی اھل سنت مصنفین اللہ پاک کو عربی پڑھانے کی کوشش کرتے ھیں کہ آپ خواہ مخواہ ھر جگہ بیویوں کو اھل بیت قرار دے دیتے ھیں اور عیال کو اس مین شامل نہیں کرتے،، ھم بھی یہ تسلیم کرتے ھیں کہ بچے جب والدین کے گھر ھوتے ھیں تو وہ اھل بیت کے خطاب میں شامل ھوتے ھیں،،مگر جب بچی بیاھی جاتی ھے تو اللہ تو اللہ ھے،، فتح خان نائی بھی شادی شدہ بچی کے بارے میں کہتا ھے کہ جی وہ تو اپنے گھر کی ھو گئی ھے،!
اگر اس خطاب میں نبیﷺ کی دیگر شادی شدہ بچیوں ،رقیہ،کلثوم اور زینب کو بھی شامل کر لیا جاتا تو ھم سید مودودی صاحب سمیت تمام اھل سنت مصنفین کے ھاتھ دھو کر پیتے،،مگر وہ بیٹی جو اجڑ کر نبی ﷺ کے گھر بیٹھی ھوئی تھی،یعنی حضرت زینبؓ،،وہ تو اس خطاب مین شامل نہیں کی گئی،،
ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ھوتا ھے ،تھوڑی دیر بعد اس کا بیٹا آتا ھے وہ اسے چوم کر اپنی گود مین بٹھا لیتا ھے،، پھر اس کی بیٹی آتی ھے، اور وہ اسے چوم کر زمین پر اپنے ساتھ لگا کر بٹھا دیتا ھے اور اللہ کا نبیﷺ تڑپ اٹھتا ھے،، فرمایا تو نے عدل نہیں کیا، تو نے عدل نہیں کیا،، یا تو اسے بھی نیچے بٹھا یا پھر بیٹی کو بھی دوسری ران پر بٹھا،، یہ ھے عدلِ نبوی،،وھی نبی ﷺ اپنی اولاد میں اس طرح کی بے انصافی کیسے کر سکتا ھے،، رافضی تو صرف حضرت فاطمہؓ کو نبیﷺ کی بیٹی مانتے ھیں باقی بیٹیوں کو حضرت خدیجہ کے سابقہ شوھر کی مانتے ھیں،،مگر تم ائے اھل سنت اپنے نبیﷺ سے اس بے انصافی کی توقع کیسے رکھتے ھو ؟
گویا نبیﷺ باقی دنیا کے لئے رحمۃ اللعالمین ھوں تو ھوں،،اپنی اولاد کے ساتھ بے انصاف تھے،،زینب گھر میں تھی،بیمار تھی، اجڑ کر آئی تھی،،اس کی بچی کو اٹھا کر نبیﷺ قیام کرتے جب سجدہ کرتے تو زمین پر رکھ دیتے،جب دوبارہ اٹھتے تو پھر اٹھا لیتے،اسی امامہ کی والدہ کے لئے چادر میں جگہ نہیں تھی،کیونکہ آیت 5 ھ میں نازل ھوئی ھے اور حضرت زینب ؓ بنت محمد ﷺ 2 ھ سے لے کر 7 ھجری تک اپنے والد کے گھر رھی ھیں،،