انسانِ کامل محمدمصطفیﷺ

خاتم نبوت،خاتم شریعت،خاتمِ کتاب !
الحمد للہ و کفی والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء ،محمدٍالمصطفیﷺ و علی آلہ و صحبہ و من والاہ، اما بعد ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا سوال پیدا ھونا ھی ایمان میں کسی قسم کے خلل یا علم میں کسی قسم کے نقص کی نشاندھی کرتا ھے ،، یہ وہ بات ھے جو کامن سینس کی ھے مگر عجیب بات یہ ھے کہ یہ سوال اٹھایا ان خواتین و حضرات کی طرف سے جاتا ھے ،جن کا دعوی یہ ھے کہ وہ اصحاب الرائے اور رؤسائے فھم و فراست ھیں،، جب تک کسی جواب کے ساتھ عقلی دلیل نہ ھو بقول ان کے نہ تو وہ ان کے حلق سے اترتی ھے اور نہ دل و دماغ میں بیٹھتی ھے ،، بات عقلی دلیل سے ھی شروع کرتے ھیں، کہ نبوت اور رسالت ایک ادارہ ھے،جس میں سارے نبی،نبی ھی ھیں اور ایک ھی ھستی کے فرستادہ ھیں،، بحیثیت نبی اللہ اور رسول اللہ ان کی ذمہ داریاں یکساں ھیں،، مثلاٍ بحیثیت شوھر،، سارے شوھر ایک جیسے ھیں اور یہ ادارہ احترام اور تابعداری کا تقاضہ کرتا ھے،، جہاں بھی اور جس جگہ بھی اس کی ذمہ داریاں اور حقوق گنوائے گئے ھیں کسی شوھر کا نام لے کر نہیں گنوائے گئے بلکہ ایک ادارے کے طور پر گنوائے گئے ھیں،، مگر جس خاتون کو اصرار ھے کہ کسی نبی کو کسی دوسرے نبی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ھے ،،میں ان سے پوچھتا ھوں کہ کیا آپ کے شوھر کا نام کہیں کتاب و سنت میں آیا ھے ؟ شوھر تو سارے محترم ھیں،،مگر کیا آپ کے لئے آپ کا شوھر افضل ھے یا نہیں؟ یا سارے شوھروں کے ساتھ آپ کا معاملہ مساوات پر مبنی ھے؟ کیونکہ ذمہ داریاں تو سب شوھروں کی ایک جیسی ھیں ،، اور نکاح رجسٹر بھی ایک جیسے ادارے میں ھوتا ھے؟ مگر اپ افضلیت اپنے شوھر کو دیتی ھیں،، اسی طرح سارے نبی اور ان کی ذمہ داریاں ایک جسی ھیں اور ان کی سندِ رسالت ایک ھی ھستی کی طرف سے جاری ھوتی ھے،،مگر جب وہ نبی میرا نبیﷺ بنتا ھے تو پھر میرے لئے اسکی افضلیت اور فضیلت ایک فطری اور بدیہی چیز ھے اسی بات کا مرد حضرات بیوی پر اطلاق کر لیں،،، بیویاں اور انکی ذمہ داریاں ایک جسی ھوتی ھیں اور حقوق بھی ،، مگر آپکے لئے شرعی ٖفضیلت آپکی بیوی کو حاصل ھوتی ھے؟ یا جو بیوی بھی بازار میں نظر آ جائے؟؟ بڑی موٹی سی بات ھے کہ آپ نبی ﷺ کی بتائی ھوئی عبادات اور ان کے طریقے کو اپنا ھی نہیں سکتے جب تک آپ اس نبی کو فوقیت نہ دیں، منسوخ شدہ کرنسی بھی کبھی پاکستان کی کرنسی تھی اور آج بھی اس نوٹ پر بینک دولت پاکستان ھی لکھا ھے،مگر فوقیت اور فضیلت آج جاری کرنسی کو ھے سابقہ کرنسی کو نہیں،، اگر قرآن کو اپنی بقا اور اللہ کی آخری کتاب ھونے کی نسبت سے تمام سابقہ کتب پر فضیلت حاصل ھے تو آخری رسول ﷺ جس کی شریعت آخری شریعت اور جس کی رسالت رھتی دنیا تک قابل اتباع ھے ،اس رسول کو سابقہ رسولوں پر فوقییت حاصل ھونا کیونکر غیر فطری ھے ؟پھر یہ کہنا کہ کسی رسول کو افضلیت نہیں دینی چاھئے تو ایک لا یعنی بات ھو کر رہ جاتی ھے،، النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم و ازواجہ امھاتھم ( الاحزاب-6 ) ،، نبیﷺ مومنوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ھیں اور اس کی ازواج ان کی مائیں ھیں،، صرف ایک نبی،، ھمارے نبی اور ھم مومنوں کے بارے میں اللہ پاک نے دعوی کیا ھے،، باقی کسی نبی کی زوجہ کو ھم ام المؤمنین نہیں کہہ سکتے ! ھم اپنے نبی ﷺکو دوسرے انبیاء کے برابر کیسے کر سکتے ھیں،،جبکہ اللہ نے بھی لفظ الانبیاء نہیں بولا،، صرف ھمارے نبیﷺ کا ذکر کیا ھے، اگر برابر رکھنا مقصود تھا تو اللہ پاک فرما دیتے کہ الانبیاء اولی بالمومنین من انفسھم،،و ازواجھم امھاتھم ! سارے نبی مومنوں کو اپنی جان سے پیارے ھیں ؟ گویا جونہی کوئی شخص نبی کریمﷺ کو اپنا رسول مانتا ھے،نبیﷺ اس کو جان سے پیارے ھو جاتے ھیں،،جب کہ سابقہ انبیاء کا احترام اور ان پر ھمارا ایمان ھونے کے باوجود انکی اس درجے کی محبت ھمارے لئے ضروری نہیں ھے،،،شرعی طور پر نبی یا رسول کی دو حیثیتیں ھوتی ھیں،، ایک اللہ کا رسولﷺ اور دوسری ھمارا رسولﷺ ،، اللہ پاک نے نبیوں کو اپنی طرف بھی منسوب کیا ھے،، رسولنا، بھی کہا ھے اور ھماری طرف منسوب کر کے، یا دیگر قوموں کی طرف منسوب کر کے ، رسولکم ،، رُسُلُھُم بھی کہا ھے،، مثلاً سورہ المؤمن میں فرمایا،،اَوَلَم تَکُ تَاتیکُم رُسُلُکُم بالبینات؟-50 پھر سورہ المؤمن مین ھی فرمایا فلما جاءتھم رُسُؒلُھُم بالبینات-83 سورہ ابراھیم مین 4 جگہ مسلسل استعمال ھوا ھے،(9-10-11-13 )،یعنی ایک حیثیت رسول اللہ،، جس مین سارے رسول برابر ھیں،، اور ایک حیثیت رسولنا،، ھمارے رسول جس مین فوقیت اور افضلیت ھمارے رسول کو ھو گی،، ایمان کے لحاظ سے سارے رسولوں پر ایمان برابر ھو گا،،کوئی کمی بیشی یا شک شکوک ممکن نہیں اور ان میں سے کسی کا انکار بھی برابر کا کفر ھے،، مگر اطاعت کے لحاظ سے میرے نبیﷺ کو فوقیت اور افضلیت حاصل ھو گی ! اس کے بارے میں یہ حدیث کفایت کرتی ھے جسے دارمی نے عمر ابن الخطابؓ کے بارے میں جابر ابن عبداللہؓ سے روایت کیا ھے، اور مشکوۃ المصابیح نے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں نقل کیا ھے، کہ عمر ابن الخطابؓ کہیں سے تورات کا ایک نسخہ لے آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ یہ تورات ھے،، اللہ کے رسول خاموش رھے، عمرؓ نے تورات میں سے پڑھنا شروع کیا تو نبی کریمﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ھونا شروع ھو گیا( جو آپ کے غصہ ھونے کی علامت تھی) ابوبکرؓ نے کہا تجھے گم کر دیں گم کرنے والیاں تو اس چیز کو نہیں دیکھ رھا جو رسول اللہﷺ کے چہرے پہ ھے؟ اس پر عمرؓ نے چہرہ اقدس کی طرف نظر اٹھائی اور فوراً کہا ” میں اللہ اور اس کے رسول کے غصے سے اللہ کی پناہ چاھتا ھوں ! مین راضی ھو گیا، اللہ کے رب ھونے پر اور محمدﷺ ک
ے رسول ھونے پر اور اسلام کے دین ھونے پر( یہ ایسا فوری اور عجیب ایمان بھرا جملہ تھا کہ نبی کریم ﷺ نے بعد میں اس کو توبہ کرنے والوں کو بشارت کے طور پر بتانا شروع کر دیا اور توبہ کی قبولیت میں اکسیر کا اثر رکھتا ھے،،رضیتُ باللہ رباً و بمحمدٍ نبیاً و رسولاً و بالاسلام دیناً) نبی کریمﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺکی جان ھے اگر آج موسی بذاتِ خود بھی ظاھر ھو جائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرو تو گمراہ ھو جاؤ،،اگر موسی زندہ ھوتے اور میری نبوت پا لیتے تو یقیناً وہ بھی میری پیروی کرتے ! یہ میرے ان دوست اور غامدی صاحب کی دعوتی ٹیم کے اھم رکن کے لئے بھی پیغام ھے جو ھر دوسرے دن لوگوں کو تورات کی تلاوت کی ترغیب دیتے ھیں،، اب آئیے ان حضرات کے استدلال کی طرف ،، قرآنِ حکیم سے ان کا استدلال یہ ھے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 285 میں اللہ نے ایمان والوں کی طرف سے بیان کیا ھے کہ” لا نفرق بین احدٍ من رُسُلہ” اور اس کا ترجمہ کرتے ھیں کہ۔۔ لا نفضل بین احدٍ من رسلہ،، ھم کسی ایک رسول کو دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے،، گویا تفریق کا مطلب تفضیل ھے،، اب اس تقریق کا اصل ترجمہ تو یہ ھی ھے کہ ھم ایمان لانے میں رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں برتتے کہ ایک کو مانیں اور دوسرے کو کسی تعصب کی بنیاد پر نہ مانیں ! بلکہ ھم سارے رسولوں کو من جانب اللہ اور کتابوں کی اللہ ھی کی کتابیں مانتے ھیں،،( ، یہ اصلاً بنی اسرئیل پر طنز ھے جو نبی کریمﷺ کو اس تعصب کی وجہ سے نہیں مان رھے تھے کہ وہ بنی اسماعیل مین سے ھیں،، انہیں شرم دلائی جا رھی ھے کہ ادھر میرے نبیﷺ اور اھل ایمان کی روش دیکھو کہ تمہاری اتنی دشمنی اور سازشوں کے باوجود تمہارے رسولوں اور کتابوں کو بلاتعصب مانتے ھیں) نہ کہ یہاں فضیلت کا تعین ھو رھا ھے ! القرآنُ یفسرُ بعضہ بعضاً،، ایک اصول ھے کہ قرآن اپنی ایک بات کی تفسیر خود دوسری جگہ کر دیتا ھے،،لہٰذا قرآن کو سب سے پہلے قرآن کے ذریعے ھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئے اور یہ کوشش 99۔99 ٪ کامیاب ھوتی ھے،اس اصول کو اپنے غامدی صاحب المکرم المعظم بھی جانتے اور مانتے ھیں! پھر بھی میں ان سے کہتا ھوں کہ اب اپنے ترجمے اور تفسیر پر قائم رھنا کہ تفریق کا ترجمہ تفضیل ھے، سورہ النساء آیت نمبر 150 چھٹے پارے کا پہلا صفحہ دیکھ لیجئے ! یہاں سورہ البقرہ کی تفریق کی تفسیر کی گئی ھے، کہ کافر اللہ اور رسول کے درمیان تفریق کرتے ھیں، کہ ھم اللہ کو تو مانتے ھیں،مگر فلاں رسول کو نہین مانتے،، اور پھر رسولوں اور رسولوں کے درمیان تفریق کرتے ھیں کہ ھم فلاں رسول کو تو مانیں گے مگر فلاں کو نہیں مانیں گے،،یوں وہ کچھ رسولوں کو مان کر رسالت پر ایمان کا دعوی بھی ثابت کرتے ھیں ،، رسولوں کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لا کر ایمان باللہ بھی ثابت کرتے ھیں،،جبکہ مومنوں کے بارے میں وھی بات جو سورہ بقرہ میں کہی گئی ھے وھی بات یہاں بھی کہی گئی ھے کہ وہ سب رسولوں پر ایمان رکھتے ھیں اور اللہ پر بھی ایمان رکھتے ھیں اور کہیں بھی ایمان میں تفریق نہیں کرتے،،، اس وضاحت کے بعد اب غامدی صاحب والا ترجمہ،تفریق بمعنی تفضیل دیکھ لیجئے ! بے شک جو لوگ کفر کرتے ھیں اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ،اور چاھتے ھیں کہ فضیلت قائم کریں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان( یعنی کہیں کہ اللہ افضل ھے رسولوں سے) اور کہیں کہ ھم بعض رسولوں پر تو ایمان لاتے ھیں اور بعض کا انکار کرتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اس کے درمیان کی راہ اختیار کریں،150،یہی ھیں وہ حقیقی (22 کیرٹ) کے کافر ،،اور کافروں کے لئے ھم نے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ھے 151( یہاں وہ اللہ کو رسولوں سے افضل کہہ کر کافر ھو گئے) ! اور جو ایمان لائے اللہ پر اس کے رسولوں پر اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی ‘ایمان’ میں تفریق نہیں کرتے یہ وہ لوگ ھیں جن کو ان کی اجرتیں دی جائیں گی اور اللہ بڑا غفور اور رحیم ھے ! ان آیات میں ان لوگوں کا بھی رد ھو گیا جو سورہ البقرہ کی ایت 62 کوٹ کر کے کہتے ھیں کہ اللہ اور آخرت پر ایمان اور عمل صالح ھی کافی ھے نجات کے لئے! ایمان بالرسالت کی کیا ضرورت ھے ،کیونکہ ایمان بالرسالت تعصب پیدا کرتا ھے ،، ایمان بالرسالت یا اس میں تفریق و تبعیض بذات خود کفر ھے اور کفر بھی حقیقی کفر نہ کہ کسی مفتی کا مستنبط کردہ کفر ! رسول تو رسول ھوتا ھے چاھے ایک بستی کا ھو یا پوری دنیا کا مگر نبی کریمﷺ کے سوا سارے رسول ایک خاص قوم اور قبیلے کی طرف مبعوث کیئے گئے،، یہاں تک بائبل ھی کے مطابق جب عیسی علیہ السلام کے پاس صیدوں جو آج کل لبنان کی بندرگاہ ھے،، سے چند لوگ ھدایت کی درخواست لے کر آئے تو آپ نے ان کو بہت ھتک آمیز جواب دے کر لوٹا دیا کہ بھلا اپنے بچوں کی روٹی کوئی کتوں کے آگے تھوڑا ھی ڈالتا ھے؟ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ھوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا ھوں،، دوسری طرف وہ ھستی ھے جو نہ صرف تمام انسانوں کے لئے بلکہ قیامت تک آنے والے تمام جہانوں اور زمانوں کے لئے مبعوث فرمائے گئے ” وما ارسلناک الا کآفۃً للناس بشیراً و نذیراً ولٰکنَۜ اکثر الناسِ لا یعلمون ( سبا-28 )اور نہیں بھیجا ھم نے آپ کو مگر ساری انسانیت کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر مگر لوگوں کی اکثریت اس(فضیلت ) کو نہیں سمجھتی،، مگر یار لوگوں کو عملی فضیلت ھی نظر نہیں آتی،، اور پھر اپنے آپ کو اصحاب الرائے اور اینٹیلی جینسیا، اور اینٹی لیکچوئل اور پتہ نہیں کیا کیا کہتے ھیں،،مگر حالت یہ ھے کہ آزاد کشمیر کے صدر اور امریکہ کے صدر کو برابر جانتے ھیں کیونکہ دونوں صدر ھیں ! جو فضیلت اس غیر مسلم کو نظر آ گئی ھے جس نے 100 صاحب الرائے اور صاحب عقل و خرد ان
سانوں میں پہلا نمبر محمد مصطفیﷺ کو دیا ھے وہ مسلمانوں کو نظر کیوں نہیں آتی ؟ قران اس فضیلت کا نقشہ سورہ الاعراف کی آیات 157 میں کھینچتا ھے،، موسی علیہ السلام ابھی ابھی تجلی کا جھٹکا کھا کر فارغ ھوئے ھیں ،،اللہ کی رحمت پوری طرح متوجہ ھے کہ موسی علیہ السلام نے رحمتِ خاصہ کا سوال کر دیا ! فوراً جواب دیا گیا کہ موسی یہ کسی اور کا حصہ ھے،، الذین یتبعون النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التورۃ والانجیل،،،،،،،، اے موسی یہ تو ان کا حصہ ھے جو ایمان لائیں گے اس نبی اُمۜی پر جس کو وہ لکھا پاتے ھیں تورات اور انجیل میں،وہ حکم دے گا ان کو بھلائی کا اور روکے گا برائی سے ،،طیب چیزیں ان پر حلال کرے گا اور خبیث چیزیں حرام کرے گا،اور ان سے وہ طوق اور بیڑیاں ھٹا دے گا جو ان پر ڈال دی گئی تھیں،، تو جو ایمان لائیں گے اس پر اور عزت و توقیر کریں گے ان کی اور مددگار بنیں گے ان کے اور پیروی کریں گے اس نور کی جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہ لوگ ( اس رحمت کے حصول میں) کامیاب ھوں گے( الاعراف 157 ) اگلی ایت میں اپ سے کہا گیا ھے کہ اپ اعلان فرما دیں کہ اے نوعِ انسانیت میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ھوں،الاعراف 158 !!
اگر دین کا اتمام مصطفیﷺ پر ھونا ،آخری کتاب کا نزول آپ پر ھونا،، آخری اور مستقل شریعت مصطفوی ھونا،، نبوت کی تکمیل آپﷺ پر ھونا،، 2500 سال تک ساری کتابوں کا اس نبیﷺ کی بشارت دینا کہ جس پر دین کی تکمیل اس طرح ھو گی کہ اسی کا حلال کردہ آخری اور فائنل حلال ھو گا اور اس کا حرام کردہ آخری اور فائنل حرام ھو گا اور رھتی دنیا تک آپ کی سنت کا اللہ کے نزدیک معیارِ زندگی قرار پانا، عیسی علیہ السلام کا و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمدﷺ کا اعلان ،، عیسی جیسا انوکھی پیدائش والا جس کی آمد کا نقیب ھو،اللہ جس پر خود درود پڑھے اور مومنوں کو پڑھنے کا حکم دے،،یہ درود صرف نبی کریمﷺ کی خصوصیت اور فضیلت ھے! عیسی علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھ سکتے،،کیونکہ اللہ نے قران میں ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی میں صرف ایک نبی کی بات کی ھے، ابراھیم علیہ السلام کے نام کے ساتھ بھی تب ھی لگایا جا سکتا ھے جب ساتھ میں ھمارے نبی ﷺ کا نام بھی ھو ! اگر تمام اھلِ کتاب سے یہ مطالبہ کہ اگر اللہ سے محبت کا دعوی کرتے ھو تو اپنے رسولوں کو چھوڑ کر میرا اتباع کرو تب اللہ تم سے محبت کرے گا (آلعمران )اگر یہ سب فضیلت نہیں ھے تو پھر شاید دنیا میں فضیلت نام کی کوئی چیز پائی ھی نہیں جاتی،، شاید یہ کسی خاتون کا نام ھو گا !
اب رہ گئیں وہ احادیث جن میں نبی کریمﷺ سے تفاضل کی ممانعت ھے، اس سے مراد یہ نہیں ھے کہ مومن آپس میں نبی ﷺ کی عظمت کے چرچے نہ کریں،، بلکہ اس کا اپنا ایک بیک گراؤنڈ ھے، کسی مسلمان نے جو کہ یہودیوں کے مدرسے میں تھا وھاں اس نے جب موسی علیہ السلام کے فضائل سنے تو بدلے میں نبی کریمﷺ کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیئے،، بات بڑھ گئی اور مسلمان نے یہودی کو تھپڑ دے مارا ،، شکایت جب دربارِ نبی میں پہنچی تو آپ نے اس طرح کی فضیلت جو کسی دوسرے کی تنقیص کر کے کی جائے منع فرما دی،، ورنہ حضرت حسۜان بن ثابت نے اپ کے سر پر کھڑے ھو کر وہ قصیدہ پڑھا تھا ،جس میں کہا تھا ،کہ اپ جیسا خوبصورت کسی آنکھ نہیں دیکھا اور آپ جیسا خوب سیرت کبھی کسی عورت نے نہیں جنا،،مگر نبیﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا تھا،، !
میں اللہ کے سارے رسولوں پر ایمان رکھتا ھوں ! اور بحیثیت اللہ کے رسول ان میں سے کسی کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتا ! مگر وہ اللہ کے رسول تھے،،جو کسی اور قوم کی طرف بھیجے گئے تھے،، اور قرآن جہاں ان کا تذکرہ کرتا ھے،، رسولاً الی بنی اسرآئیل کے طور پر کرتا ھے،، وہ عیسی علیہ السلام کو،،و جعلناہ مثلاً لبنی اسرائیل بیان کرتا ھے ! میرے نبی محمد مصطفیﷺ ھیں جن کو میری طرف بھیجا گیا ھے جو نبیوں میں میرا حصہ ھیں اور میں امتوں میں ان کا حصہ ھوں ! میری نجات ان کی پیروی میں ھے،، سارے نبیوں کا احترام کرنے کے باوجود میں ان کا اتباع نہیں کر سکتا کیونکہ مجھے کسی اور ﷺکے اتباع کا حکم دیا گیا ھے، میں اس ھستی کو فضیلت دیتا ھوں جس ﷺسے میری نجات جڑی ھے،میرے لئے وہ افضل ھیں جو مجھے بچانے کے لئے بھیجے گئے ھیں،، !! میں تورات ،زبور ، انجیل کو اللہ کی کتابیں سمجھتا ھوں جو بنی اسرائیل کی طرف بنی اسرائیل کے لئے بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئیں ،چاھے وہ دستیاب ھوں یا نہ ھوں ،، مگر میں قرآن کو اللہ کی وہ کتاب سمجھتا ھوں جو میرے لئے بھیجی گئی ھے،، جو تمام انسانیت کے لئے ایمان و ھدایت کا منبع ھے ،،جس پر عمل کا میں نے اللہ سے عہد کیا ھے اور حتی الامکان اس عہد کی پاسداری کی کوشش کرتا ھوں،، کتابیں چاروں اللہ کی ھیں،، مگر میں قرآن کو افضلیت اور فوقیت دیتا ھوں،، ایمان سب پر رکھتا ھوں مگر عمل صرف ایک کتاب پر کرتا ھوں،،جسے میں افضل سمجھتا ھوں ! جو "اُنزِلَ الینا ” ھے،، جو ھماری طرف،ھمارے لئے نازل کی گئی ھے !! میرے اس عقیدے میں اگر کوئی خرابی ھے تو اھلِ علم میری موت سے پہلے میری سوچ ،، میرے عقیدے ،، میرے ایمان کی تصحیح فرما دیں ! اللہ پاک انہیں جزائے خیر عطا فرمائے