انا اور انسان

 
کائنات میں سب سے پہلا کلمہ بغاوت” انا ” ھی تھا جب ابلیس نے آدم علیہ السلام کے سامنے نہ جھکنے کا سبب بیان کرتے ھوئے کہا تھا کہ ( انا خیر منہ ) میں اس سے بہتر ھوں – لہذا اللہ کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ھماری یہی انا ھے – اور شریعت کی تمام پابندیاں اور اوامر و نواھی( Dos and Don,ts) اس انا کو مارنے کے لئے ھی ھیں ، یہود جوں جوں سرکشی اور بغاوت کا رویہ اختیار کرتے گئے ، اللہ پاک ان پر شریعت کو تنگ کرتا چلا گیا – چنانچہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس کا علاج بتاتے ھیں کہ ،سالک جب تک اپنے آپ کو چمار کے کتے سے بھی بدتر نہ سمجھے رب کی رضا پانے یعنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ھو سکتا – کتا صرف کتا نہیں ھوتا بلکہ کتوں کی بھی قسمیں ھوتی ھیں ، معاشرے میں عزت والے انسان کے کتے بھی عزت والے ھوتے ھیں ، جبکہ غریب کے کتے بھی غریب کی طرح دھکے کھاتے پھرتے ھیں ، امریکی صدر کا کتا ساری دنیا کے کتوں کا صدر ھوتا ھے اور اس کو وھی سیکورٹی فراھم کی جاتی ھے جو خود صدر کو فراھم کی جاتی ھے ، صدر اس کو گود میں اٹھا کر فوٹو بنواتا ھے ، پرویز مشرف کے کتے بھی عوامی کتوں کے چیف تھے ، اس نسبت کو سامنے رکھ کر کہا گیا کہ جب چمار کی ھی عزت نہیں ھوتی تو اس کے کتے کی تو بالکل بھی نہیں ھو گی، انا کی موجودگی میں عبادات اور ریاضتیں اسی طرح الٹا اثر کرتی ھیں جس طرح ھیضے کی حملے کے دوران مقوی اور مرغن غذائیں فائدے کی بجائے الٹا نقصان دیتی ھیں ، ایک انا پرستعابد اور متقی کسی مصیبت کے نازل ھونے پر جس طرح ناک بھوں چڑھاتا اور پاؤں پٹختا ھے ، قسم قسم کے جملے بول کر اپنی ناراضی کا اظہار کرتا ھے وہ اللہ سے اس کے بُعد کا سبب بنتا چلا جاتا ھے – رب کی رضا کے سفر میں ساری نظر اپنی انا پر رکھنی چاھئے کہ یہ کس قسم کا رد عمل دیتی ھے، یہ سارا سفر ھی مصائب و مشکلات بھرا ھے ، تمام صوفیاء نے مصائب پر شکوے کو سالک کے لئے زھر قاتل قرار دیا ھے – میاں محمد بخش نے اسی طرف اشارہ کیا ھے-

جناں دکھاں تے دلبر راضی سُکھ انہاں توں وارے-
دُکھ قبول محمد بخشا راضی رہن پیارے –
فرید فرماتے ھیں –
ایہہ تن میرا جے کنگھی ہووے ، تے میں زلف محبوب دی واہواں
پوش میرے دی بن جائے جُتی، تےمیں یار دے پَیری آواں
جے سوہنڑا میری دکھ وچ راضی ، تے میں سُکھ نوں چولہے ڈانواں
یار فرید کدی مل جائے سوہنڑا ، اونہوں رو رو حال سناواں –
گویا عشق حقیقی انسان کو مصائب میں گرفتار کر دیتا ھے جو اصل میں اس کی انا کا امتحان ھوتا ھے، انا کی موجودگی میں رب کا تقرب تو ناممکن ھے ھی ،خود جنت کو پیدا فرما کر اللہ پاک نے قسم کھائی کہ تجھ میں متکبر کو داخل نہیں ھونے دونگا ، تکبر انا کی موجودگی کا ثبوت ھے ، اور سب سے بدترین تکبر نیکی کا تکبر ھے جس نے ابلیس کی عبادت و ریاضت کو بھی خاکستر کر کے اسے راندہ درگاہ بنا دیا –