اللہ کی قسم قرآن گواہ ھے


اللہ پاک قرآن کریم میں قسم کھا کر گواھی دیتا ھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی جنون کا شکار نہ کبھی تھے نہ قیامت تک ھوںگے ،،،،،،، نہ کسی جادو کے ذریعے اور نہ ھی کسی بیماری کی وجہ سے ،، قرآن کی گواھی اوپن اور دائمی ھے ،، محدود اور مؤقت نہیں ھے ، جس لمحے آپ ﷺ پر جنون طاری ھوا ، پاگل پن کی کوئی نشانی ظاھر ھوئی اسی لمحے یہ آیت ” معاذ اللہ جھوٹی ثابت ھو جائے گی اور قرآن کی ایک آیت کا جھوٹا ثابت ھونا ،پورے قرآن کو کالعدم یا Null and Void بنا دیتا ھے ،جس طرح آپ کے ویزے یا پاسپورٹ یا کسی بھی سند پر ایک جگہ بھی Tempering ثابت ھو جائے تو آپ کا ڈاکومنٹ جعلی ھو جاتا ھے ، چاھے وہ عمر کے خانے میں ھو یا جائے پیدائش کے معاملے میں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، پہلے قرآن کی گواھی پڑھ لیں !!!!!!!!!!
ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ. مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ،،،،،،،،،،
نون – قسم ھے قلم کی اور جو کچھ کہ لکھتے ھیں اور لکھیں گے ،،، آپ اللہ کی نعمت ( احسان ) سے مجنون نہ تھے ،نہیں ھیں ” اور نہ کبھی ھونگے ،،،،،،،،،
یہ اس اللہ کی گواھی ھے اور وہ اللہ قسم کھا کر گواھی دے رھا ھے جو مستقبل کا اسی طرح واقف ھے جس طرح ماضی کا واقف ھے اس کے لئے آنے والا کل بھی اسی طرح یقینی ھے جس طرح گزرا ھوا کل یقینی ھے ،،
قرآن میں یہ لکھی یہ آیت اس لمحے بھی اسی طرح Valid ھے جس طرح نازل ھونے والی گھڑی میں تھی کہ ” محمدﷺ پرکبھی بھی جنون طاری نہیں ھوا اور نہ ھو گا ،، ھم اس آیت اور اس قسم کو آج بھی جب پڑھتے ھیں اس کا مطلب یہی سمجھتے ھیں کہ یہ نبئ پاک ﷺ پر کسی بھی جنون کی نفی کرتی ھے ،،یوں نہیں سمجھتے کہ یہ آیت منسوخ ھے ،جس وقت نازل ھوئی اس سے پہلے کی گارنٹی دیتی ھے ،، بعد کی گارنٹی نہیں دیتی ،، اور بخاری شریف کی جادو والی حدیث سے یہ منسوخ ھو گئ ھے کیونکہ جادو نے کم سے کم چالیس دن شدید ترین اور چھ ماہ سے ایک سال تک آپ کو نعوذ باللہ اس حد تک مجنون کر دیا تھا کہ آپ بیویوں کے پاس نہیں گئے ھوتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جا چکے ھیں ،، آپ نے کوئی کام نہیں کیا ھوتا تھا اور سمجھتے تھے کہ کر لیا ھے ، یہانتک کہ ظھر کی صرف دو رکعت پڑھ کر سمجھتے کہ چار پڑھ لی ھیں ،، یاد دھانی کروانے والے پر غصہ ھو جاتے ،، ایسا نماز فرض ھونے سے لے کر اس جادو کے دور تک پہلے کبھی نہیں ھوا تھا کہ حضور ﷺ نماز بھول گئے ھوں ،حالانکہ ذاتی طور پر آپ پر اس سے قبل انتہائی ٹینشن بھرے حالات گزر چکے تھے ،، پھر اچانک بالکل اخری دور میں یہ سلسلہ کیسے شروع ھوا ؟
نوبت یہاں تک پہنچی کہ ” کان یدور و یدور ولا یدری ما اصابہ ” آپ ﷺ چکر پر چکر کاٹتے مگر یہ سمجھ نہ پاتے کہ انہیں ھوا کیا ھے ؟
یہ وہ تصویر ھے جو جادو کی بخاری شریف سے مجمل شروع ھونے والی کہانی کو تمام روایتوں سے مفصل طور پہ جمع کیا جائے تو بنتی ھے ،، اور یہ سرا سر جنون کی کیفیت ھے جو قرآن کی تکذیب کرتی ھے ،، ھمارے پاس اسے رد کرنے اور قرآن پہ ایمان کے سوا کوئی چارہ نہیں ،،، دوسرا انتخاب یہ ھے کہ اس جادو کی کہانی کو سچ مان کر معاذ اللہ قرآن کی تکذیب کر دی جائے – دونوں کو بیک وقت اختیار نہیں کیا جا سکتا –
رھتی کسر خود کشی والی حدیث نے پوری کر دی ،، جس میں بتایا گیا ھے کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اپنے آپ کو پہاڑ سے گرانے جاتے تھے،جبرائیل سامنے آ جاتے اور حضور ﷺ کو باتوں میں الجھا لیتے یوں آپﷺ کا دھیان وقتی طور پر خود کشی سے ھٹ جاتا ،،
یہ Bipolar Disorder کا سیدھا سیدھا الزام ھے ،، اگر کوئی شخص بائ پولر ڈس آرڈر کا مریض ثابت ھو جاتا ھے تو وہ کسی صورت نبی یا رسول نہیں مانا جا سکتا کیونکہ اس کیفیت میں دوسری شخصیت کا نظر آنا اور اس کا باتیں کرنا بائی پولر ڈس آرڈر بیماری کی نارمل نشانیوں میں سے ھے ،، یوں جبرائیل ایک وھمی اور خیالی شخصیت یا ایک بیمار شخصیت کا تخیل قرار پاتے ھیں ،،
یہ ھے وہ مخمصہ جس میں سوال اٹھانے والوں نے ھمارے نوجوانوں کو گھیر رکھا ھے ، اور اور ھمارے نوجوان واقعتاً ایک ایمانی کرائسس کا سامنا کر رھے ھیں ،، یہ وہ انگارہ ھے جو ان کے دل و دماغ پہ رکھا ھوا ھے ،، جسے راویوں کا قد ناپ کر قطعاً ھضم نہیں کیا جا سکتا ،، اس ساری صورتحال کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ کر کے حنفی امام ابوبکر الجصاص نے اپنے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا سا دلیرانہ فیصلہ دیا ھے کہ ” یہ حدیث زندیقوں نے گڑھی ھے جس کا مقصد مقامِ نبوت پہ حملہ آور ھونا ھے ،، اس حدیث کو ایمان بالرسالت سے ھاتھ دھوئے بغیر قبول نہیں کیا جا سکتا ” واضح رھے کہ ھشام ابن عروہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے شیخ ھیں ،مگر دونوں نے ان سے جادو والی حدیث نہیں لی ھے ،، یہ اس حدیث پر دونوں اماموں کا واضح عدم اعتماد ھے ،، یہ عراق سے آنے والی خبروں میں سے ایک خبر ھے جسے مدینے والوں نے عراقیوں سے سنا ھے ،، اور ھشام ابن عروہ کے اپنے قول پر ھی عمل کر لیا جائے کہ ” عراقی تم سے 1000 حدیث بیان کریں تو 999 اسی وقت پھینک دو اور باقی ایک میں بھی شک کرو ” تو اس قسم کی حدیثوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں بنتی ، یہ دین سے متعلق کوئی خبر نہیں ،، نہ مانو تو دین کا کوئی نقصان نہیں ،، کسی عمل میں کوئی کمی نہیں ،،اور اگر مان لو ،، تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا ،،،،،
جس زمانے میں ھمارے مشرق مغرب تین براعظموں میں ھم ھی ھم تھے اور کسی میں کوئی سوال اٹھانے کی ھمت نہیں تھی ،، اس زمانے میں یہ مواد چل جاتا تھا ،مگر آج جب قدم قدم پر سوال اٹھائے جا رھے ھیں اور اس کے لئے کسی سینگاگ یا چرچ ،نیویارک یا ٹرانٹو جانے کی ضرورت نہیں ،، گھر کے کمرے میں اپنے بیڈ پہ لیٹے ھی سوال سامنے آ جاتے ھیں ،، اسی کمرے میں جہاں آیت الکرسی دیوار پہ آویزاں ھوتی ھے ، دروازے پہ بسم اللہ ولجت و بسم اللہ خرجت ،، لکھا ھوتا ھے ،اندر ایمان کا سفینہ ڈوب رھا ھوتا ھے ،،
آسودہ ساحل تو ھے تُو لیکن ،شاید یہ تجھے معلوم نہیں !
ساحل پہ بھی موجیں اٹھتی ھیں ،خاموش بھی طوفاں ھوتے ھیں !!
ڈوبنے والا جس کیفیت سے گزر رھا ھوتا ھے ،،،،، کاش کنارے پہ کھڑا شخص بھی اس کیفیت کو محسوس کر لے،، کاش ،،،،،،،،،،،،،،،،