اللہ اور انسان

اللہ کی ذاتِ اقدس کی صفات سے بے بہرہ آدمی کفر کے لئے ایک عام ملحد سے زیادہ آسان شکار ھوتا ھے ! ایک ملحد سوال اٹھاتا ھے جس سے اس کے الحاد کا پتہ چلتا ھے، مرض معلوم ھو تو علاج معلوم ھو جاتا ھے ! ایک براہ راست ملحد کے پلٹنے کے امکانات زیادہ ھوتے ھیں جو کسی سوال کا جواب نہ ملنے کی وجہ سے الحاد کا شکار ھوتا ھے وہ جواب مل جانے پر پلٹ کر بھی آ جاتا ھے ،اور اس کے اندر اک خلش پائی جاتی ھے جو اسے بار بار سوال کرنے پر اکساتی ھے کہ شاید اب کوئی اسے ایسا جواب دے دے کہ جس سے وہ مطمئن ھو کر واپس پلٹ آئے، اپنے جدی پشتی عقائد سے فرار اتنا آسان کام نہیں جتنا لوگوں نے سمجھ رکھا ھے،، البتہ ایک agnostic جو کہ اللہ کی ھستی پر ایمان رکھتا ھے مگر وہ اسے کائنات سے بے بہرہ سمجھتا ھے،، اتنا عظیم خدا جسے دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں ،، کائنات سے کوئی مطلب نہیں ،، وہ خدا اپنی ذات میں اتنا گم ھے مست ھے کہ اسے کسی اور کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی فرصت نہیں ! اور وہ دیکھے بھی کیوں ؟ اسے کسی کی ضرورت ھی نہیں،کسی سے کوئی کام ھی نہیں ،،بس اس نے یوں بے نیازی سے ایک تخلیق کر دی ھے،، ریت پہ بیٹھے انسان کی طرح ریت پہ نقش بنا دیا،، سوچوں میں گم پانی پہ ایک لکیر کھینچ دی ھے جس سے اس کا کوئی مقصد ،کوئی مطلب نہیں تھا،،اس نے کبھی پلٹ کر بھی اس نقش پہ نگاہ نہیں ڈالی ،، وغیرہ وغیرہ

جب کوئی ایسا بے صفات ،، اپنی ذات صمدیت میں مگن خدا مان لیتا ھے تو پھر مطمئن ھو جاتا ھے ،، وہ کبھی کسی سے سوال نہیں کرتا ،کیونکہ اسے کوئی خلش نہیں،، خدا کو ماننا تھا سو وہ مان رھا ھے،اب بھلا یہ بھی کوئی ضروری ھے کہ وہ یہ بھی جانے کہ وہ خدا کس طرح ایکٹ کرتا ھے ! وہ اپنے کو سب سے اچھا مسلمان سمجھتا ھے ،،

مگر ایسے مطمئن شخص سے ایسا خدا چھین لینا کہ جس کا اس بندے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، وہ اس کا خالق ھوتے ھوئے بھی اس کی ذات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ،، وہ اس سے دو طرفہ انٹر ایکشن کبھی پیدا کر ھی نہیں سکا،، وہ عظیم ، عظیم تر ، عظیم ترین خدا ھو گا ،،مگر میرے ساتھ اس کا کوئی لینا دینا نہیں،، نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ اس شخص کو پتہ بھی نہیں چلتا اور خدا اس کے ھاتھ سے لے کر کہیں پھینک دیا جاتا ھے ! اور وہ شخص اس خدا کے لئے کبھی جھگڑتا نہیں،، کبھی اسے ادھر ادھر تلاش نہیں کرتا ،،اسے احساس ھی نہیں ھوتا کہ اس کا کچھ گواچ گیا ھے کیونکہ جو گواچا ھے وہ کبھی اس کے پاس تھا ھی نہیں تو پھر تلاش کس کی کرے ،، اور تلاش کیوں کرے ؟؟

اس قسم کے لوگ ھر نبی کے دور میں بھی رھے ھیں جو اللہ کی قسم کھا کر اللہ کے نبی کو شہید کرنے کے پیمان کیا کرتے تھے،، قالوا تقاسموا باللہ لنبیتنہ و اھلہ ثم لنقولن لولیہ ما شھدنا مہلک اھلہ وانا لصادقون !

اس کا علاج یہ ھے کہ اللہ کو لوگوں کے قریب لایا جائے ، اسے گھر کا فرد بنایا جائے ،، اس سے مسائل ڈسکس کیئے جائیں ،، اس سے دکھ سکھ کی باتیں کی جائیں،، نمک بھی مانگو تو رب سے مانگو ،، جوتے کا تسمہ بھی مانگو تو رب سے مانگو،،نبویﷺ فرمان اسی بات کی عکاسی کرتے ھیں ! اور قرآن میں اللہ پاک کا انسان کو بار بار کہنا کہ میں تیری شہ رگ سے بھی تیرے قریب ھوں تو تین ھوتے ھو تو چوتھا میں ھوتا ھوں،،تم پانچ ھوتے ھو تو چھٹا میں ھوتا ھوں،جو تم کرتے ھو میں دیکھتا ھوں، جو کہتے ھو وہ سنتا ھوں ، میں تمہارے کیئے سارے کاموں سے باخبر ھوں ،، میں کسی بیج کے اندر نمی سے بھی واقف ھوں،، درختوں کا پتہ بھی ھمیں اطلاع ھوئے بغیر نہیں گرتا،،کوئی حمل ھمارے علم کے بغیر نہیں ٹھہرتا اور کوئی رحم ھمارے حکم کے بغیر نہ سکڑتی ھے نہ پھیلتی ھے، کوئی جان ھمارے اذن کے بغیر نہیں نکلتی ،کسی جان کی ھمت نہیں کہ مر جائے مگر ھمارے اذن کے ساتھ – کوئی مصیبت نہ تم پر آتی ھے اور نہ تمہاری کھیتیوں پر یا مال پر مگر وہ ایک کتاب سے جاری کی جاتی ھے ! کوئی فرشتہ اپنی جگہ تبدیل نہیں کر سکتا نہ اپنی جگہ سے ھل سکتا ھے جب تک ھم اذن نہ دیں !
اللہ پاک کا سب سے زیادہ تعلق اپنے خلیفہ یا وائسرائے کے ساتھ ھے،، اور اللہ کا سب سے زیادہ واقف انسان ھے ،،نہ فرشتے اسے اس طرح جان سکتے ھیں اور نہ جن جیسا کہ وہ ھے ! اس تک سب سے زیادہ آسان رسائی انسان کی ھے ،ایک دن میں پانچ دفعہ لازمی میٹنگ اللہ کی طرف سے کال کی جاتی ھے ،جبکہ انسان جب چاھے جہاں چاھے میٹنگ کال کرے،ایجنڈا طے کرے اور وقت طے کرے کتنی طویل میٹنگ رکھنی ھے،، لا یمل حتی تُمِل ،، وہ تب تک نہیں تھکتا جب تک تــُـو نہ تھکے جب بھی میٹنگ ڈس مس کر گا تو ھی کرے گا،، اللہ کا تیرے سوا کوئی اپنا نہیں اور تیرے سوا اس کو کسی اور سے دلچسپی نہیں ! تیرے اور تیرے رب کے درمیان کوئی بیوروکریسی نہیں ،، کوئی فارمیلٹی نہیں ،، وہ کہیں بھی Busy نہیں ! دو رکعت کی نیت کر ،جہاں چاھے کر فٹ پاتھ پہ یا ریلوے اسٹیشن پہ یا ائیرپورٹ پہ یا گھر کی کوٹھڑی میں ،تو اللہ اکبر کے ساتھ سدرۃ المنتہی سے آگے رب کے سامنے کھڑا ھے،، الصلوۃ معراج المومنین ھے ! فرمایا کہ وہ تب تک تیرے سامنے رھتا ھے جب تک تو اس کی طرف متوجہ رھتا ھے،جونہی تو آگے پیچھے کی سوچتا ھے تو اللہ پردہ کھینچ دیتا ھے کہ میرے بندے کو دوسرا کام پڑ گیا ھے ! ایسے بندے سے خدا چھیننا بہت مشکل ھے جو دن میں کئ بار چیک کرتا رھتا ھے کہ خدا اس کے پاس ھے یا گم ھو گیا ھے،،وہ اس معصوم بچے کی طرح جو سوتے میں بھی ھاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر دیکھتا رھتا ھے کہ ماں پاس ھے یا کہ نہیں،، وہ دل ٹٹول کر دیکھتا رھتا ھے کہ رب ھے کہ کہیں گنوا بیٹھا ھوں -ماں تو ساتھ تکیہ لٹا کر دھوکا دے کر کھسک جاتی ھے ،، رب کبھی دھوکا نہیں دیتا کہیں نہیں جاتا ” ھو معکم اینما کنتم ” وہ وھیں تو ھوتا ھے جہاں تو ھوتا ھے !