( یہ تمہاری امت ایک ھی امت ھے اور میں تمہارا رب ھوں پس میری ھی عبادت کرو(القران

ابوظہبی میں کم و بیش 40 سال گزار کر طبیعت کچھ ایسی بن گئ ھے کہ علمی،نسلی،لسانی اور طبقاتی کسی قسم کا تعصب بھی پاس سے نہیں گزرا ،، حق جہاں ھوتا ھے لیتے ھوئے ذرا جھجھک نہیں ھوتی اور سچ جو بھی کہتا ھے اس کی تصدیق میں ذرا دیر نہیں لگتی ،، تمام فقہوں کے دلائل کو دیکھو تو اندازہ ھو جاتا ھے کہ کون کس جگہ کیا بات کس پسِ منظر میں کہہ رھا ھے ،، صرف ماحول تبدیل کر دیا جائے تو جو اس بات کی مخالفت کر رھا ھے وہ خود وھی بات کہنا شروع کر دے ،، جب ھم کسی عالم سے محبت کرتے ھیں تو حدیث ” حبک لشئٍ یعمی و یصم ” کسی کی محبت اندھا بہرہ کر دیتی ھے کے مطابق انسان یہ سمجھتا ھے کہ میرا محبوب تو غلطی کر ھی نہیں سکتا ،، اگرچہ وہ مجھے غلط نظر آ بھی رھا ھو تو بھی میری سمجھ کی غلطی ھے ! یہ بات بڑے بڑوں سے صادر ھوئی ھے ،، اگرچہ حق ھمارے ممدوح کے مخالف کے ساتھ ھے مگر ھمیں تو اپنے محبوب کی ھی پیروی کرنی ھے ! مگر بعض دفعہ صورتحال غلط ھوتے ھوئے بھی ٹھیک اور ٹھیک ھوتے ھوئے بھی غلط نظر آتی ھے !!
میرا بھانجا اور میرا بیٹا دونوں آپس میں خوب جھگڑ رھے تھے ، ایک بھی اپنی امی کو مدد کے لئے پکار رھا تھا تو دوسرا بھی اپنی امی کو آواز دے رھا تھا ، وجہ نزاع میری قراقلی ٹوپی تھی دونوں اسے پکڑے ھوئے تھے اور دونوں میں سے کوئی بھی اس سے دستبردار ھونے کو تیار نہیں تھا جبکہ لال بھبھوکا چہروں پر صداقت کی چمک صاف دیکھی جا سکتی تھی ،، ایک کا دعوی تھا کہ ٹوپی میرے ابو کی ھے جبکہ دوسرا قسمیں کھا کھا کر کہہ رھا تھا ٹوپی میرے ماموں کی ھے ،، میں شور سن کر جاگا اور اندر سے ھی ڈانٹنا شروع کیا کہ تم لوگوں نے سونا حرام کر رکھا ھے ،، جب بات لمبی ھو گئ اور بیٹے نے ساتھ رونا بھی شروع کر دیا تو باھر نکل کر دیکھنا پڑا !
جونہی میں باھر نکلا تو میرے بیٹے نے ٹوپی پکڑے پکڑے فریادی انداز میں سوال کیا ،، ابو یہ ٹوپی آپ کی ھے ناں ؟ ادھر بھانجے نے بھی ٹوپی سے ھاتھ ھٹائے بغیر کہا ” ماموں یہ ٹوپی آپ کی ھے ناں ؟ میں نے ان کو گھور کر دیکھا کہ جب دونوں کہہ رھے ھو کہ ٹوپی میری ھے ،، تو پھر تم میں جھگڑا کس بات پہ ھے ؟ دونوں آنسوؤں سے تر آنکھوں سمیت ھنس پڑے ،، جب تک میں سامنے نہیں آیا تھا ،،ماموں اور ابو الگ الگ ھستیاں تھیں اور اگر اجنبی آ جاتا تو وہ واقعی کنفیوز ھو جاتا کہ دونوں میں سے سچا کون ھے اور جھوٹا کون ھے ،،مگر میرے آنے نے دونوں کو اپنی حماقت کا احساس دلا دیا ،، بخدا حشر میں میرے رب کے سامنے آتے ھی بہت سارے کنفیوژن تو خود بخود ھی نمٹ جائیں گے ، رفع یدین والا بھی میری نماز پڑھ رھا تھا اور نہ کرنے والا بھی تو تم میں عداوت کیوں تھی ؟ نماز میری تھی تو دشمنی تمہاری کیوں تھی ؟اپنے اپنے اکابر کو ایک دوسرے کا مخالف سمجھ کر تعصب سے کام لینے والے جب ان سب کو اللہ کے قریب دیکھیں گے تو اپنی لڑائیوں پہ خود ھی پچھتائیں گے !
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا !!