القابات

دور نبوی اور خلفائے راشدین کے زمانے میں صحابہ سیدھا ایک دوسرے کا نام لیا کرتے تھے، حتی کہ خلفائے راشدین کے لئے بھی حضرت اور رضی اللہ عنہ نہیں بولا کرتے تھے ، اب تو حالت یہ ہے کہ ہر فرقہ یہ چاہتا ھے کہ اس کے متوفی اکابر کے لئے بھی رضی اللہ عنہ لکھا جائے ہم نے شاہ احمد نورانی اور احمد رضا بریلوی کے لئے بھی رضی اللہ عنہ لکھا ہوا دیکھا ہے ،، طارق جمیل صاحب کے ساتھ مولانا نہ لگاؤ تو زندیق کہا جاتا ھے اور حضرت علی کے ساتھ مولانا لگاؤ تو رافضی بن جاتا ہے ـ
بہرحال پہلے دو ادوار میں کوئی کسی کو رضی اللہ عنہ اور رضی اللہ عنک نہیں کہتا تھا ، ابن عباس، اور ابن عمر ،سیدھا سیدھا عمر ابوبکر عثمان علی بولا کرتے تھے ، اس کے بعد فرقوں کی نسبت سے ترضی یا سلام کا اضافہ کیا گیا ـ یعنی اگر آپ حضرت علی ؓ سمیت صحابہؓ کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگاتے ہیں تو اھلسنت ہیں ، اگر علیؓ کے ساتھ علیہ السلام لگاتے ہیں تو شیعہ ہیں ، اگر بقیہ کے ساتھ ترضی نہیں لکھتے مثلاً عائشہؓ تو آپ رافضی ہیں ،، اگر تمام صحابہؓ کے ساتھ ترضی نہیں لگاتے تو آپ خارجی ہیں وغیرہ وغیرہ ؛؛
اب تو ابن عربی جیسے باطنیت کے امام کے لئے بھی لوگ رضی اللہ عنہ مانگتے ہیں ـ
تو اصول یہ بنا کہ انبیاء کے ساتھ علیہ السلام لگانا ہے جیسا کہ قرآن میں لگایا گیا ہے سلام ، نبئ کریم ﷺ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لگانا ہے ، صحابہؓ کے نام کے ساتھ بلا تفریق رضی اللہ عنہ ، اور تابعین و تبع تابعین کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ ،، اور بعد کے بزرگوں کے ساتھ رحمہ اللہ وغیرہ ؛؛
اس سلسلے میں اسلاف و اخلاف اھلحدیث کا موقف فھد حارث کے تعاون کے ساتھ پیش کیا جاتا ھے ـ

مسلکِ اہلحدیث کے جید علمائے کرام سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لئے امام اور علیہ السلام کے استعمال کو سخت غیر مناسب جانتے ہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اپنی کتاب "رسومات محرم الحرام اور واقعہ کربلا "صفحہ ۵۲ میں لکھتے ہیں:
"محترم !
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ علماء و فقہاء کے لئے "امام” کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسینؓ کے لئے بھی اسے اس معنیٰ میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنیٰ میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسینؓ کو اس معنی میں "امام” نہیں کہا جاتا، اگر ایسا ہوتا تو ابوبکر و عمر و دیگر صحابہ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسینؓ سے زیادہ رمز شناس تھے۔ جب کسی بڑے سے بڑے صحابی کے لئے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ صرف حضرت حسینؓ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے۔ بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے۔ اس لئے اہلسنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیئے”۔
اسی نکتے کی وضاحت میں مفصل ادلہ دینے کے بعد علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ ان نظرئیے کے حامل لوگوں کا رد کرتے ہوئےلکھتے ہیں:
"ایک مغالطہ لوگوں کو یہ دیا جاتا یا لگ جاتا ہے کہ فلاں عالم نے فلاں صحابی کے لئے "علیہ السلام” لکھا اور فلاں غیر صحابی کے لئے رضی اللہ عنہ استعمال کیا ہے۔ ہم عرض کرینگے کہ واقعی بعض علماء نے اس طرح لکھا ہے لیکن اس کی وجہ محض سہل انگاری ہے یا عقیدت میں افراط۔ ان کی نظر شائد صرف لغت ہی پر رہی لیکن جمہور علمائے سلف اور خلف نے ایسا نہیں کیا ہے اور دلائل کے لحاظ سے یہی مسلک صحیح اور برحق ہے” (آثار حنیف بھوجیانیؒ جلد اول صفحہ ۲۳۶)
پھر آگے جاکر علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ ان الفاظ میں اپنا فتویٰ نقل کرتے ہیں:
"اہل سنت کے کسی حلقے کی طرف سے حضرت علیؓ، حسنؓ و حسینؓ کے لئے "علیہ السلام” کا استعمال شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی نقطہ نظر کے فروغ کا باعث ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔” (آثار حنیف بھوجیانی جلد اول صفحہ ۲۳۷)
صرف مسلک اہلحدیث میں ہی نہیں بلکہ مسلک دیوبند میں بھی علماء سیدنا حسینؓ کے لئے ان الفاظ کے استعمال کو درست نہیں جانتے جیسا کہ استاذ دارالعلوم دیوبند مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری جو کہ علمائے احناف میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی معرکۃ الآراء کتاب "حجۃ اللہ البالغۃ” کی شرح میں اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"حضرات حسنین ؓ کے اسمائے گرامی کے ساتھ لفظ "امام” کا استعمال حضرت شاہ صاحبؒ نے خطباتِ جمعہ کے خطبۂ ثانیہ میں بھی فرمایا ہے جبکہ ان کی امامت کا عقیدہ شیعوں کا ہے اور یہ عذر کہ شاید لغوی معنی میں استعمال کیا ہو، اس لئے درست نہیں کہ خلفائے راشدین کے ناموں کے ساتھ یہ لفظ استعمال نہیں فرمایا جبکہ وہ زیادہ حقدار تھے۔ اسی طرح بہت سے مصنفین کے قلم سے ان بزرگوں کے نام کے ساتھ "علیہ السلام” نکل جاتا ہے جو اہل السنہ کے نزدیک کسی طرح درست نہیں کیونکہ بارہ اماموں کی نبوت اور عصمت کا عقیدہ شیعوں کا ہے۔ ریاض سے غیر مقلدین کے اہتمام سے بخاری شریف کا جو نسخہ دارالسلام نے طبع کیا ہے اس میں صفحہ ۷۶۳ پر باب میں حضرت فاطمہؓ کے نام کے ساتھ علیہا السلام لکھ دیا ہے جو قطعاً خطا ہے اور بخاری کے ہندی نسخہ میں یہ اضافہ نہیں ہے۔ اسی طرح ابوداؤد شریف کا جو نسخہ شیخ محیی الدین عبدالحمید کی مراجعت اور ضبط و تعلیق سے شائع ہوا ہے اس میں جلد ۴ صفحہ۳ کتاب الطب کے دوسرے باب میں حدیث شریف میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام طبع ہوا ہے جبکہ ابو داؤد کے ہندی نسخہ میں یہ لفظ نہیں۔ غرض اس قسم کی چیزیں یا تو الحاقی ہوتی ہیں یا شیعی اثرات کا نتیجہ ہوتی ہیں، یا غایت محبت میں بے خبری میں ایسی باتیں قلم سے نکل جاتی ہیں، اس لئے اس معاملہ میں احتیاط ضروری ہے۔” (رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ از مولانا سعید احمد پالن پوری، جلد اول صفحہ ۸۵)

ہوسکتا ہے کہ ہماری ان گزارشات پر کوئی صاحب معترض ہوں کہ ہم نے اپنے مقدمہ کی تائید میں متاخرین اہلحدیث علماء کا ذکر کیا ہے، سو ان کے اس پیش آمدہ اعتراض کے جواب میں ہم یہاں علمائے سلف کے بھی کچھ اقوال نقل کردیتے ہیں تاکہ اس بابت ایسے اصحاحب کی مکمل تشفی ہوجائے اور وہ آئندہ سے کسی محقق یا عالم کو "بخیل” کہتے ہوئے سوچیں۔
علامہ ابن کثیر دمشقی اس بابت رقم طراز ہیں:
"بہت سے ناقلین کتب سیدنا علیؓ کے ساتھ خصوصی طور پر (علی) علیہ السلام یا کرم اللہ وجہہ لکھتے ہیں جبکہ دیگر تمام صحابہ کے لئے ایسا نہیں لکھتے ہیں۔ معنی کے لحاظ سے یہ درست ہی سہی تاہم تمام صحابہ ؓ کی تکریم و تعظیم کے لئے ایک جیسے ہی الفاظ استعمال کرنے چاہیئں۔ اگر امتیازی الفاظ کی اجازت دی جائے تو سب سے زیادہ اس کے مستحق سیدنا ابو بکر صدیقؓ ، عمر فاروقؓ اور عثمان غنیؓ ہیں۔”(تفسیر ابن کثیر جلد ۳ صفحہ ۵۱۷)
اسی طرح حافظ نور الدین صابونی الحنفی (متوفیٰ ۵۸۰ ہجری) لکھتے ہیں:
"اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اہل بیت میں سے کسی کے لئے "الصلاۃ” یا "السلام” کا استعمال جائز نہیں ہے حتیٰ کہ سیدنا علی یا الحسن یا الحسین یا عباس علیہ الصلاۃ، علیہ السلام یا صلوات اللہ علیہ بھی نہیں کہا جائے گا، اسی طرح جملہ اہل بیت کا معاملہ ہے بلکہ ہم "اہل بیت رضوان اللہ اجمعین” کہیں گے۔ صرف اہل بیت کے لئے "الصلاۃ و السلام” کا استعمال رافضیوں اور اہل بدعت کا شعار ہے۔ وہ الصلوٰۃ و السلام کے ذریعے سے دوسرے تمام صحابہ کے درمیان انہیں ممتاز کرتے ہیں۔” (المنتقیٰ من عصمۃ الانبیاء صفحہ ۲۸۳)
اگر ان تمام توضیحات کے بعد بھی اس بابت کسی کی تسلی نہ ہوئی ہو تو ہم ان کو مشورہ دینگے کہ علامہ بکر بن عبداللہ ابوزید کی کتاب معجم المناھی اللفظیۃ ویلیہ فوائد فی الالفاظ کا مطالعہ کریں، ان شاءاللہ "امام و علیہ السلام” کے اس مبحث سے متعلق تشفی و اطمینان پائینگے۔ اس کے علاوہ چاہیں تو شیخ البانی، شیخ ابن باز، مولانا عطاء اللہ حنیف اور دوسرے کبار علماء کی تحقیقات و اقوال کی طرف بھی مراجعت کرسکتے ہیں جہاں ان کبار و "راسخ "العلم علماء و مشائخ نے اس بابت بھی مدلل مبحث قائم کیا ہے ـ

قاری حنیف ڈار

فیس بک پوسٹ