الف اللہ چنبے دی بُوٹی !!

ویگن اسٹاپ پر آدھی رات کے وقت ایک اک تارے والا گا رھا تھا ”
ایمان سلامت ھر کوئی منگے ، عشق سلامت کوئی ھـُو !
ایمان منــگن شـــرماون عشقوں ، دل نوں غیرت ھوئی ھـُو !
جس منزل نوں عشق پہنچاوے،ایمانوں خبر نہ کوئی ھـُو !
میرا عشـــق سلامت رکھیں ،، ایمانـوں دیا دھــروئی ھـُو !
ایک صاحب نے اکراے والے سے پوچھا بابا عشق کیا ھوتا ھے ؟
اک تارے والے نے انہیں غور سے دیکھا ! اور دھیمے لہجے میں پوچھا !
بابو جی ! بھوک کیا ھوتی ھے ؟
بابو جی لاجواب ھو کر اس کا منہ دیکھنے لگے !!
بابا بولا ، بابو جی جسے کبھی بھوک لگی ھی نہ ھو ،اسے کوئی کیسے سمجھا سکتا ھے کہ بھوک کیا ھے ؟ اور جسے لگتی ھے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ھی نہیں رھتی کہ بھوک کیا ھے ! اس کا تو اندر بھوک بھوک کا ورد کرتا ھے ! اتنا کہہ کر اک تارے والا گہری سوچ میں ڈوب گیا !
پھر آئستہ سے بولا ! بابو جی بھوک نہ ھو تو کھانا بھی بوجھ بن جاتا ھے !
عشق نہ ھو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ھے اور انسان پہلی فرصت میں اس سے جان چھڑا لیتا ھے !
واضح رھے یہ پوچھنے والا سابقہ جج اور فلسفوں کو کنگھال مارنے والا پڑھا لکھا شخص تھا مگر بقول اس کے اس ٹھٹھرتی رات میں اس اکتارے والے کے سامنے اس کے سارے فلسفے ٹھٹھر کر رہ گئے تھے !
اللہ اور اس کے حبیبﷺ سے محبت نہ ھو تو فرائض اور سنتیں ایک بوجھ بن جاتے ھیں ،، جن سے آگ کے ڈر کی وجہ سے ھی انسان عہدہ برآ ھوتا ھے !
وہ مسجد آ کر عزت نہیں پاتا بلکہ بستہ بے کے مجرموں کی طرح حاضری لگوانے آتا ھے ! اور تیرا دل تو ھے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں ” کا مصداق ھوتا ھے !!
نہ تو توکل ،توکل لکھنے سے کوئی متوکل ھو جاتا ھے اور نہ ھی سکون سکون کا ورد کرنے سے کسی کو سکون قلب ملتا ھے،، جب کسی سے محبت ھو تو پھر اس کا نام سن کر جو راحت دل میں پیدا ھوتی ھے اس کا نام سکون قلب ھے،، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کا یہ مطلب ھے ،، اور لوگ اللہ اللہ اللہ کا ورد کر کے اس میں سے سکون نکالنا چاھتے ھیں،، وہ اللہ کہنا عاشق کا اللہ کہنا ھے،، نہ کہ کسی ھائپر ٹینشن کے مریض کا ! کیا مجازی محبت میں محبوب کے تذکرے سے آپ کو سکون نہیں ملتا ؟ وہ کہاں سے آتا ھے ؟ اسی کنوئیں سے اللہ والا سکون بھی ملتا ھے مگر شرط پیار کی ھے ! اور جب پیار ھو جائے اور وہ اصلی والا ھو تو محبوب کے رستے کی تکلیفیں بھی سکون دیتی ھیں ،، گِلے پیدا نہیں کرتیں !
عامر عثمانی کی طویل غزل کا شعر ھے !
عشق کے مراحل میں وہ بھی مقام آتا ھے !
آفـتیں برستــی ھیں، دل سکـــــون پاتا ھے !
مشکلیں اے دل! سخت ھی سہـــی لیـکن !
یہ نصیب کیا کم ھے کہ ” کوئی ” آزماتا ھے !
میں غالباً چار سال کا تھا ! سپارہ پڑھ کر مسجد سے نکلا تو ایک لڑکے نے لڑکی کا رستہ روکا ھوا تھا، دونوں ماموں اور پھوپھی سے کزن تھے ! لڑکی کے ھاتھ میں کپڑے ماپنے والا لوھے کا گز تھا ،جو وہ غالباً کسی کے گھر سے مانگ کر لے جا رھی تھی، اس نے لڑکے کو کہا کہ میرا دل چاھتا ھے کہ میں یہ گز تمہارے سر پہ دے ماروں ! اس پہ اس لڑکے نے اسے قسم دی اگر وہ اس کو نہ مارے ! لڑکی نے مسکراتے ھوئے ٹھاہ کر کے گز اس کے سر پہ دے مارا ! لڑکے نے سر پہ ھاتھ رکھ لیا،جب ھاتھ ھٹایا تو اس کا ھاتھ خون سے لتھڑا ھوا تھا ! اس نے خون کو چوما اور رستہ چھوڑ دیا،، رشتہ ھو گیا دونوں کی شادی ھو گئ ،اولاد ابھی تک نہیں ھوئی اور ظاھر ھے اب ھونے کے امکانات بھی نہیں رھے،، والدین کے اصرار کے باوجود اس لڑکے نے زندگی بھر شادی نہیں کی، مجھے اس سے محبت ھے اولاد سے نہیں،، جو اولاد اسے دکھ دے کر ملے وہ مجھے نہیں چاھئے ،،یہ عشقِ مجازی کی وارداتیں ھیں،، عشقِ حقیقی کی تو عین میں ھی جہان ڈوب جاتا ھے !
جو لوگ صحابہؓ کی دعاؤں پہ عقلی استدلال کرتے ھیں ،وہ بھی ابھی بغدادی قاعدہ پڑھتے ھیں،،میں ان سے درخواست کرتا ھوں کہ وہ عقلی طور پر ثابت کر دیں کہ انسان کی تخیلق ھی عقلاً ضروری تھی ! اللہ کی وہ کونسی ضرورت تھی یا مجبوری تھی جو انسان کی تخلیق کی محرک بنی ھے ! اور اگر انسان نہ ھوتا تو اللہ کی عظمت میں کیا فرق پڑ جانا تھا ؟
انسان عقل کی تخلیق نہیں عشق کی تخلیق ھے ! اللہ کو صاحب عشق مخلوق درکار تھی،، عشق ضرورت نہیں دیکھتا ، اس کے اپنے قواعد ھیں،، جنت والے بھی ھیں اور جہنم والے بھی ھیں،، دائیں والے بھی ھیں اور بائیں والے بھی ھیں ،،مگر آگے نکل جانے والے بھی ھیں،، و کنتم ازواجاً ثلاثہ،، اور تم تین گروھوں میں بٹ جاؤ گے،، اصحاب الیمین ،، و اصحاب الشمال ،،، والسابقون السابقون ،، یہ آگے نکل جانے والے ھی عشق والے ھیں،، جنت والوں کو نبی اپنی معیت میں جنت میں لے جائیں گے،، اور عشق والوں کو اللہ اپنے ساتھ لے کر جائے گا،، اللہ فرمائے گا،،جنہوں نے جنت کے لئے کیئے وہ جنت میں چلے گئے،، جنہوں نے جہنم والے کیئے وہ جہنم میں چلے گئے،، میرے لئے کرنے والو آؤ چلیں ،،یہ رب کی معیت میں چلیں گے،،
یہ وہ مقام ھے جہاں کہنے والے کہتے ھیں کہ جہنم کے ڈر سے کرتی ھوں تو جہنم واجب کر دے ،، جنت کی لالچ میں کرتی ھوں تو جنت حرام کر دے،، ائے اللہ میں تو تجھے اس لئے سجدے کرتی ھوں کہ تو ھے ھی سجدوں کے قابل !
یا "جنت میں جو میرا حصہ ھے اے اللہ وہ اپنے دوستوں کو دے دے،،دنیا میں جو میرا حصہ ھے اے اللہ وہ اپنے دشمنوں کو دے دے،، میرے لئے تو تـُو اور تیری محبت ھے کافی ھے !
بس مجھے سمجھ نہیں لگتی میں اپنا دل کہاں کہاں رکھوں !