ابلیس

کوئی کہانی یا فلم بغیر ولن کے نہ لکھی جا سکتی ھے نہ ہی فلم یا ڈرامہ بنایا جا سکتا ہے،یہانتک کہ مذھب میں بھی ھیرو کے ساتھ ولن بھی ہے،اور ولن جتنا طاقتور ہو گا ، فلم یا کہانی ویسی ہی ہٹ ہو گی ـ انسان کی اہمیت ابلیس کی وجہ سے ہے ،جس کو غیر معمولی صلاحتیں دے کر اللہ پاک نے اس کو اہم بنا دیا ہے۔یہی حقیقت اقبال نے ابلیس اور جبریل کے مکالمے میں بیان کی ہے ـ
جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کوشش کی کہ ابلیس آدم علیہ السلام کی طرح توبہ کر لے تو ابلیس نے اس کو سمجھایا کہ یہ جہانِ رنگ و بو اس کی قربانی کے بل پر کھڑا ہے، میرے بغیر اس انسان کی کوئی ویلیو نہیں تھی، ولن نے ہیرو کو ہیرو بنایا ہے، کتابیں مجھ سے خبردار کرنے کے لئے نازل ہوئیں ، رسولوں پر رسول میرے تعارف اور میرے مکر و فریب سے بچانے کے لئے بھیجے گئے ،
جبریل۔
ہمدمِ دیرینہ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بو؟
ابلیس۔
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو !
جبریل.
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو.
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟
ابلیس
آہ اے جبریل! تو واقف نہیں اس راز سے,
کر گیا سر مست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو.
اب یہاں میرا گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں,
کس قدر خاموش ہے یہ عالمِ بے کاخ و کو.
جس کی نا میدی سے ہو سوزِ درونِ کائنات،
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لا تقنطو؟
جبریل.
کھو دیے انکار سے تو نے مقاماتِ بلند.
چشمِ یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو؟
ابلیس.
ہے مری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو؟
میرے فتنے جامہِ عقل و خرد کا تار و پو؟
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، میں کہ تو؟
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا.
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو !
ُُگر کبھی فرصت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے !
قصہِ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو؟
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح؟
تو فقط الله ھو، الله ھو، الله ھو۔
یہی کہانی ہر گھر کی ہے، ہر گھر میں ایک ظالم اور ایک مظلوم ہوتا ہے، جہاں ساس ہاتھ ہلکا رکھتی ہے وہاں بہو ظالم ھوتی جاتی ہے، جہاں بہو گم سُم ہوتی ھے وہاں ساس پھولن دیوی بن جاتی ہے ـ رہ گیا شوھر تو اس کا کردار ، اس پولیس پارٹی کی طرح ہے جو فلم کے آخری دو چار منٹ میں ھیرو اور ولن کی لڑائی میں گرفتاری کرنے پہنچتی ہے اور دی اینڈ کا اعلان ڈسپلے ہو جاتا ہے ـ