ء لیس منکم رجل رشید؟

ء لیس منکم رجل رشید؟
رسول اللہﷺ کا معمول تھا کہ جب آپﷺ قرآن کی قرأت فرماتے تو جہاں عذاب کی وعید آتی وہاں اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے اللہ پاک کی پناہ مانگتے، جہاں کہیں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر آتا وہاں اپنے لئے اور اپنی امت کے لئے جنت اور اس کی نعمتوں کا سوال کرتے ـ
تفسیر کا حق تو یہ ہے کہ جہاں کسی ضعیف روایت میں شانِ رسالت اور امھات المومنین کی توھین کی گئ ہے وہاں دو چار سطریں اس راوی کی مذمت اور شانِ رسالت میں خرچ کی جائیں تا کہ پڑھنے والے کے ایمان بالرسالت میں اضافہ ہو اور جھوٹے راویوں کے خلاف نفرت پیدا ہو، اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر اس گند کو تفسیر میں نقل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ، حالت یہ ھے کہ تفسیر میں قرآن کہیں بہت پیچھے رہ جاتا ھے ،اور کہانیاں ایمان خراب کر دیتی ہیں ،، خاص طور پر تفسیر ابنِ کثیر پڑھنے والا تو ایک ملغوبہ بن کر رہ جاتا ھے ، یہ الحاد کی نرسریاں ہیں ، یہی وہ پگڈنڈیاں تخلیق کرتی ہیں جن کے بارے میں قرآن خبردار کرتا ھے کہ ؎
[وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (153 ۔ الانعام)
اور یہ کہ یہ ہے میری سیدھی راہ پس اس کی پیروی کرو، اور مت پیروی کرو پگڈنڈیوں کی جو تمہیں اس کی راہ سے تتر بتر کر دیں گی ـ
تین مثالیں بیان کرونگا ،،
ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اور قرآن کی آیت کے خلاف ایک توھین آمیز کہانی سے استدلال کرتے ہیں ،، آیت ہے کہ اے نبی ﷺ آپکی ازواج کی طرف سے دنیا کی زینت کو مسترد کر کے آپ کو چن لینے کے بعد نہ تو آپ اس کے بعد ان پر کوئی سوکن لا سکتے ہیں ، نہ ہی ان میں سے کسی کو طلاق دے کر جگہ خالی کر کے کسی دوسری عورت کے ذریعے تعداد کو برابر کر سکتے ہیں ،، یہ ایک کو چھوڑ کر تبادلے میں دوسری لانے کی ممانعت ہے، اتنی صاف اور واضح آیت کے باوجود ابن کثیر اس سے کوئی اور ہی تبادلہ مراد لیتے ہوئے وہ شرمناک کہانی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص عینیہ بن حصن فزاری بغیر اجازت گھر میں گھسا چلا آیا، جس پر رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اندر داخل ہونے کی اجازت کیوں نہیں لی ؟ اس نے جواب دیا کہ میں آج تک بنی مضر یعنی رسول اللہ ﷺ کے قبیلے والوں میں سے کسی کے گھر میں بھی اجازت لے کر نہیں گیا،، [ وہ بندہ رسول اللہ ﷺ کے قبیلے کو حقیر سمجھتے ہوئے ان سے اجازت طلب کرنا اپنی توھین سمجھتا ہے، جس طرح ہمارے یہاں چوہدری کمیوں کے گھروں میں وقت بے وقت اندھا دھند گھسے چلے جاتے ہیں ] اس کے بعد اس شخص نے پوچھا کہ تمہارے پاس وہ سرخ و سفید عورت کون تھی( محدثین کے اصول کے مطابق جس روایت میں حضرت عائشہؓ کے لئے حمیرا کا لقب استعمال ہو وہ موضوع ہو گی) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ میری بیوی ہے، اس نے کہا کہ تبادلہ کیوں نہیں کر لیتے؟ میرے والی زیادہ حسین ہے ،تم اپنی سے میرے حق میں دستبردار ہو جاؤ میں تمہارے لئے اپنی سے دستبردار ہو جاتا ہوں ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ایسا کرنا حرام کر دیا ہے ،، اچھی بھلی آیت جس کی مزید کسی تفسیر کی ضرورت ہی نہیں تھی، اس کو تفسیر کی بھٹی میں ڈالا ، ایک واہیات روایت سے ’’ ولا ان تبدل بھن من ازواج ‘‘ کا مطلب یہ نکالا کہ تم ان بیویوں کا تبادلہ کسی دوسرے سے نہیں کر سکتے، اور اس کہانی کے ذریعے اس برے رواج کو ثابت کیا کہ اس قسم کے تبادلے بھی عربوں میں چلتے تھے، جس کی رسول اللہ ﷺ کو تو ممانعت کر دی گی، واضح رہے کہ ایک بیوی کو طلاق دے کر دوسری سے شادی نہ کرنے کی پابندی صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے تھے، اگر تبادلے کی ممانعت یہ والا تبادلہ تھا تو پھر باقی مسلمانوں پر تو پابندی عائد نہیں ہوتی وہ بےشک تبادلے کرتے پھریں ؟ اتنی گندی روایت بےمحل بیان کر کے اس سے اپنا مزعومہ تبادلہ مراد لے کر جاتے جاتے ایک جملہ کہہ گئے کہ راویوں میں ایک بندہ اسحاق بن عبداللہ لین الحدیث ہے یعنی حدیث میں ڈھیلا ہے، گویا اس روایت کے متن میں ابن کثیر کو کوئی بُو نہیں آئی، صرف سند میں ڈھیلا پن محسوس ہوا ، اگر سند درست ہوتی تو ابن کثیر کو اس متن پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ انہوں نے راوی ڈھیلا ہونے کے باوجود اس حدیث سے تبادلے کا قانون ثابت کر دیا ،،یہ وہ جگہ تھی جہاں ابن کثیر کو یہ لکھنا چاہئے تھا کہ اگر اس روایت کا راوی جبرائیل بھی ہوتا تو بھی اس کا متن منکر ہے، یہ کاشانہ رسالت کی توھین ہے ،، وغیرہ وغیرہ ،، مگر اس کے لئے حمیت درکار ہوتی ہے، جس طرح قسائی بےرحم ہو جاتے ہیں ، سرجن سخت دل ہو جاتے ہیں ، اسی طرح یہ قال قال کھیلنے والے دینی حمیت سے محروم اور عاری ہو چکے ہوتے ہیں ، ان کی دنیا ہی راویوں اور روایتوں سے عبارت ہوتی ہے ،،
دوسری مثال سن لیجئے ،،
سورہ احزاب کی تفسیر کے شروع میں ہی ابن کثیر روایت بیان کرتے ہیں کہ فلاں صحابی نے کہا کہ تم لوگ سورہ احزاب کتنی پاتے ہو؟ سننے والوں نے کہا کہ تہتر آیات،، انہوں نے فرمایا کہ کسی زمانے میں یہ احزاب سورہ بقرہ کے برابر تھی ،، اور اب اتنی ہے جتنی تم پاتے ہو ،، دو سو چھیاسی آیات میں سے تہتر نکالیں تو دو سو تیرہ آیات غائب ہیں اس سورت سے،، جبکہ ایک فرقہ الزام دیتا ھے کہ سورہ احزاب میں سے ڈھائی سو آّیات نکالی گئ ہیں ، ابن کثیر اسی فرقے کے موقف کو تقویت دیتے ہیں ، پھر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ روایت ضعیف ہے،، ضعیف ہے تو اس بارودی سرنگ کو لگانے کی ضرورت کیا تھی ؟ یہ وہ مقام تھا جہاں جناب ابن کثیر کو دینی حمیت کا اظہار کرتے ہوئے قرآن کے مقام اور اللہ پاک کی طرف سے اس میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ کے ناممکن ہونے کی گارنٹی دی گئ ہے ، دو چار سطریں خرچ کر دینے سے امام صاحب کا کچھ نہیں جاتا تھا کیونکہ وہ قرآن کی تفسیر کرنے نکلے تھے تو پھر قرآن کا حق ادا کرتے ،،
اب تیسری مثال سن لیجئے ،،
سورہ النساء میں اللہ پاک نے ایک ایسی آیت نازل فرمائی ہے کہ جس کا انکار کافر بھی نہیں کر سکتے، اور وہ یہ کہ تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں پا لے گی ، اگرچہ تم خوب جڑے ہوئے برج میں جا کر چھپ جاؤ، اس آیت کو تفسیر کی ضرورت نہیں تھی، ہر مذھب والا اور لا مذھب اس بات پر اتفاق کرتا ہے، مگر امام ابن کثیر اس میں ایک عجیب و غریب کہانی گھسا لائے ہیں ، موت کا متفق علیہ موضوع کہیں دور پیچھے رہ جاتا ھے اور تقدیر کا مسئلہ شروع کر دیتے ہیں ، جس میں وہ ثابت کرتے ہیں کہ موت ہیں بلکہ گناہ اور زنا کا کوٹہ بھی دے کر بندے کو پیدا کیا جاتا ھے اور ہر کس و ناکس نے یہ کوٹا مرنے سے پہلے پہلے پورا کرنا ہوتا ھے ،،
ایک گھر میں ایک خاتون کو درِ زہ شروع ہے، کہ اس دوران گھر کا دروازہ کھٹکتا ہے۔ نوکر جا کر دروازہ کھولتا ھے تو ایک نامعلوم شخص کہتا ھے کہ کیا چل رہا ہے بھائی ؟ نوکر بتاتا ہے کہ خاتون خانہ دردِ زہ میں مبتلا ہے، وہ بندہ کہتا ھے کہ اس کو بتا دو کہ لڑکی پیدا ہو گی اور وہ سو زنا کرے گی اور مکڑی کے زہر سے مرے گی،، نوکر اندر جاتا ہے تو لڑکی پیدا ہو چکی ہوتی ہے، نوکری چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ میں گھونپ دیتا ہے اور اپنے حساب میں اس کو قتل کر کے بھاگ جاتا ھے ، مگر وہ بچی سو زنا کیئے بغیر مر نہیں سکتی، لہذا بچ گئ ،، سالوں بعد وہ نوکر جو کہیں جا کر کاروبار میں لگ گیا تھا اور مالدار ہو گیا تھا وہ اس حال میں اپنے گاؤں واپس آیا کہ کوئی اس کو پہچانتا نہیں تھا اور پورا گاؤں اس کی دولت کے دبدبے کا شکار ہو گیا ،، اس نے بستی میں شادی کی بات چلائی اور ایک خوبصورت لڑکی سے محبت کی شادی کر لی،، ایک دن موڈ میں اس نے اس لڑکی کو اپنے ماضی کا وہ واقعہ سنایا ، جس پر لڑکی نے اس کو بتایا کہ وہ لڑکی تو میں ہوں جس کو تم چھری گھونپ گئے تھے اور ثبوت کے طور پر اپنے پیٹ کا زخم بھی دکھایا ،، اس پر اس نوکر نے کہا کہ اگر تم وہی لڑکی ہو تو پھر تم سو زنا بھی کرو گی، اس نے کہا کہ میں نے گنے تو نہیں مگر اندازے سے میں سو زنا کر کے اپنا کوٹا پورا کر چکی ہوں ،، جس پر اس نوکر نے کہا کہ اب تم مکڑی کے زہر سے مرو گی۔۔ کہانی کا یہ حصہ اب موت کے مقدر ہونے کا ذکر کرتا ہے جس کے لئے یہ جھوٹی کہانی تفسیر میں شامل کی گئ، اس نوکر نے ایسا محل بنایا کہ جس میں مکڑی کا داخلہ ناممکن تھا ، مگر ایک دن لڑکی کو مکڑی نظر آئی اور اس نے کہا کہ یہ مکڑی ہے جس کے زہر سے تم مجھے ڈراتے ہو اور اس مکڑی کو پاؤں سے مسل دیا ، مکڑی کا زہر پاؤں کے ذریعے جسم میں داخل ہوا اور لڑکی مر گئ ،، کہانی گئ مُک ، تے کلہ گیا ٹھُک ،،
ثابت یہ کیا گیا ہے کہ ہر بندہ اپنے گناہوں کا کوٹہ دے کر بھیجا گیا ہے جو اس نے پورا کر کے مرنا ہے ،،
قاری حنیف ڈار ـ