پاکستان اور ھم مہاجر ،،

وہ ھندو جو پاکستانی ٹیم کے میچ جیتنے پر کشمیریوں کی خوشی برداشت نہیں کر سکتا اوراس جرم میں ان کو یونیورسٹیوں سے نکال دیا جاتا ھے ، وہ خود پاکستان کا بننا کیسے ہضم کر لیتا ،، کشمیر میں ھندو ڈوگروں نے ظلم کا بازار گرم کر دیا ،ھمارے دادا اور نانا دونوں کو مقبوضہ جموں سے پاکستان کی طرف ھجرت کرنی پڑی ،، رستے میں ڈوگروں نے میری نانی کے بھائی اور والد کو پکڑ لیا ،، وہ باپ سے پوچھتے کہ پہلے کس کو ماروں تو باپ کہتا کہ مجھے پہلے مارو میں بیٹے کی موت نہیں دیکھ سکتا ، اور بیٹا منتیں کرتا کہ پہلے مجھے مارو ، میں ابو کی موت نہیں دیکھ سکتا ،، ڈوگروں نے باپ کو اس طرح کاٹا جس طرح بکرے کی چھوٹی بوٹیاں بنائی جاتی ھیں پھر ان کو دریا میں ڈال دیا پھر بیٹے کی باری آئی ، اتنی دیر میں مسلمانوں کا کوئی قافلہ نمودار ھوا تو یہ قتل صرف دو افراد تک محدود رھا ،، آگے آ کر ایک اور بیٹا بھی مارا گیا ، یوں نانی کے خاندان کا صفایا ھو گیا ، تین بہنیں بچ گئیں جن کو دادا نے اپنے تین بیٹوں کے لئے گھر میں پالا اور بیاہ دیا ،، دادا جب تک زندہ رھے کشمیر کو یاد کرتے رھے اور مرتے وقت وصیت کر گئے کہ اگر کشمیر آزاد ھوا تو میری لاش کو واپس میرے گاؤں لے جا کر دفن کرنا ،، ھم پہلے میرپور کے کیمپ میں پھر واہ کیمپ میں رلتے رھے ، بھیک مانگ کر کھانے کا دور بھی گزرا 48 کے در بدر ھوئے 1952 میں تحصیل گوجرخان میں ھمیں زمین الاٹ ھوئی ،وہ الگ داستاں ھے کہ گاؤں میں ھمارے ساتھ کیا ھوا ،
ھمارے آباء و اجداد کو اپنے گاؤں اور گلیوں سے محبت تھی اور وہ مرتے دم تک ان کو یاد کرتے رھے ، وہ پاکستان کی محبت میں پاکستان شفٹ نہیں ھو رھے تھے جان بچانے آئے تھے اور یہی حال سب مہاجروں کا ھے ، کوئی بھی پاکستان کی محبت میں نہیں آیا ،بھگایا ھوا پناہ لینے آیا ھے ،، ھم جن کی پیدائش پاکستان میں ھوئی ھے ھمیں اپنے باپ دادا کے گاؤں اور گلیوں سے ذرا بھی محبت نہیں نہ ھی کشمیر کی آزادی کے بعد وھاں جانے کا ارادہ ھے اور نہ ھی کوئی ھمیں وھاں قبول کرے گا ،، ھماری ساری محبتیں اس پاکستان کے ساتھ ھیں جس کی مٹی سے ھم بنائے گئے ھیں اور جہاں ھم نے اپنی قبروں کے نشان لگا رکھے ھیں دفن ھونے کے لئے ،، جو محبت کرتے ھیں جن سے محبت کرتے ھیں ان کو مارنے اور توڑنے کی باتیں نہیں کرتے ،،
اس لئے جو پاکستان آیا ھے وہ اپنے مطلب کے لئے آیا ھے اور اسے پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاھئے اور احسان ماننا چاھئے نہ کہ احسان جتانا چاھئے ،، ایم کیوایم اردو بولنے والوں کے سمندر میں ایک جزیرے کا نام ھے ، سب اردو بولنے والے ایم کیو ایم نہیں ھیں ،، یہ احتیاط ملحوظِ خاطر رھنی چاھئے ،، ایم کیوایم اور پیر الطاف کے مرید یہ بات گرہ سے باندھ لیں کہ پاکستان مردہ باد کے نعروں کی گونج میں وہ ھم سے محبتوں کے رد عمل کی توقع بالکل بھی نہ کریں ،،
====================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر