میں ھمیشہ اپنے خطبات میں کہتا بھی آیا ھوں اور تحریروں میں لکھتا بھی آیا ھوں کہ ھمارے اہمان کا قبلہ محمد رسول اللہ ﷺ ھیں ،، باقی سب کچھ ھم ان کی اتھارٹی پہ مانتے ھیں ،، جب خود محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ،مقام اور رسالت پہ سوال کھڑے کر دیئے جائیں تو پھر کچھ بھی نہیں بچتا ،، جب پاسپورٹ جعلی ثابت ھو جائے تو اصلی ویزے بھی جعلی قرار پاتے ھیں ،،،
یہ بات ھم سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر اسلام کے دشمن یہ بات بڑی اچھی طرح جانتے ھیں ،، اور وہ ھمیشہ اسی ستون کے ساتھ بارودی سرنگ لگاتے ھیں جاننے والے جانتے ھیں کہ جب ستون ھٹ جائے تو چھت کو خود چھت کا وزن گرا دیتا ھے ،،، ایمان کتنا بھی قوی ھو ،، اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ھوں کہ مصطفی ﷺ ایمان میں سے نکل جائیں تو ایمان کنکریٹ کی چھت سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ زمین بوس ھوتا ھے ،،،،،،،،،،،،،
افسوس یہ ھے کہ اسلام دشمنوں کے ھاتھوں میں یہ بارودی سرنگیں خود ہمارے لٹریچر میں دستیاب ھیں – اگر دیانتداری سے کام لیا جائے تو اس حقیقت کا ادراک و اعتراف کرنا کوئی مشکل نہیں کہ ھماری تاریخ اور ھماری احادیث کی کتابوں میں انتہائی قابلِ اعتراض مواد وافر مقدار میں موجود ھے جو نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بناتا ھے ،، خاص طور پہ نبئ کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ھے ،تعجب کی بات یہ ھے کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی کی شادیاں بھی اس قدر گھٹیا انداز میں بیان نہیں کی گئیں ،، جس قدر خیر البشر ﷺ ایسی ھستی کی بیان کی گئ ھیں کہ جن کی نفاست اور اخلاق کی قسمیں اللہ کھاتا ھے ،، آج تک جس نے بھی گستاخانہ کتاب لکھی یا فلم بنائی اس نے سارا مواد ٹھیک انہیں کتابوں سے حوالے کے ساتھ لیا اور بیان کیا ، یہی کام آج ملحدین کر رھے ھیں ،، ایسی باتیں ھیں کہ جن سے شاید دس لاکھ میں سے کوئی ایک آدمی واقف ھو گا ،، جنہوں نے کتاب لکھی یا فلم بنائی وہ تو کافر ٹھہرے اور قتل کر دیئے گئے ،جنہوں نے یہ واقعات بیان کیئے اور روایت کی کتابوں میں محفوظ کیئے وہ سارے رحمۃ اللہ علیھم اجمعین ٹھہرے ،،
سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جناب نبئ کریم ﷺ کے نکاح کو لیتے ھیں ھم نے جو سنا تھا اور اسلامیات کی کتابوں میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ حضرت خدیجہؓ نبئ کریم ﷺ کی دیانت اور سوجھ بُوجھ سے بہت متاثر تھیں اور انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو درمیان میں ڈالا جس نے نبئ کریم ﷺ سے موافقت حاصل کی اور پھر حضرت خدیجہ کے چچا کی رضامندی کے ساتھ یہ نکاح ھوا ،جناب رسالتمآب ﷺ کی جانب سے بھی چچا ابوطالب شریک ھوئے جنہوں نے خطبہ نکاح پڑھا ،،
مگر یہاں کہانی کچھ اور لکھی گئ ھے ،،،،،،،،،، یہ مسندِ احمد کی روایت ھے ،، اس میں عبداللہ بن عباس راوی ھیں جو ٹھیک اس سال پیدا ھوئے جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ھوا ،، یعنی ھجرت سے تین سال پہلے – درایت نام کا ایک اصول بیان تو کیا جاتا ھے مگر شاید یہ پاکستانی آئین کی دفعہ 6 کی طرح بس لکھ کر ھی رکھ لیا گیا کسی نے اس کو استعمال کرنے کی کوشش ھی نہیں کی ،، ،،راوی اپنی پیدائش سے 25 سال پہلے کے واقعات بیان کر رھا ھے اور یہ بتاتا بھی نہیں کہ اس کو یہ بات کس نے بتائی ھے ؟
روایت میں کہا یہ گیا ھے کہ حضرت خدیجہؓ کے والد اس شادی پہ راضی نہیں تھے،، لہذا حضرت خدیجہ نے ان کو کھانے کے ساتھ شراب پلا دی اور جب وہ نشے میں تھے تو ان سے رضامندی لے لی اور ان پر شادی کی رسم کا حلہ ڈال دیا ،،جب خویلد کو ھوش آیا تو اس نے پوچھا کہ یہ میرے اوپر حلہ کس بات کا ڈالا گیا ھے ؟ خدیجہؓ نے کہا کہ آپ نے میری شادی محمدﷺ کے ساتھ طے کر دی ھے ،، اس پہ خویلد نے کہا کہ میں اور ابوطالب کے یتیم کو بیٹی دے دوں یہ تو ھو ھی نہیں سکتا ، اس پہ خدیجہؓ نے اسے ڈرایا کہ اگر تم نے کہا کہ تم نے نشے میں یہ رضامندی دی تھی تو قوم میں تمہاری ناک کٹ جائے گی کہ خویلد نشہ کرتا ھے ،،،، جس پر وہ خاموش ھو گئے ،،،
2846 حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِى عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا يَحْسَبُ حَمَّادٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ خَدِيجَةَ وَكَانَ أَبُوهَا يَرْغَبُ أَنْ يُزَوِّجَهُ فَصَنَعَتْ طَعَامًا وَشَرَابًا فَدَعَتْ أَبَاهَا وَزُمَرًا مِنْ قُرَيْشٍ فَطَعِمُوا وَشَرِبُوا حَتَّى ثَمِلُوا فَقَالَتْ خَدِيجَةُ لِأَبِيهَا إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَخْطُبُنِي فَزَوِّجْنِي إِيَّاهُ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ فَخَلَعَتْهُ وَأَلْبَسَتْهُ حُلَّةً وَكَذَلِكَ كَانُوا يَفْعَلُونَ بِالْآبَاءِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ سُكْرُهُ نَظَرَ فَإِذَا هُوَ مُخَلَّقٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ فَقَالَ مَا شَأْنِي مَا هَذَا قَالَتْ زَوَّجْتَنِي مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَنَا أُزَوِّجُ يَتِيمَ أَبِي طَالِبٍ لَا لَعَمْرِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ أَمَا تَسْتَحِي تُرِيدُ أَنْ تُسَفِّهَ نَفْسَكَ عِنْدَ قُرَيْشٍ تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّكَ كُنْتَ سَكْرَانَ فَلَمْ تَزَلْ بِهِ حَتَّى رَضِيَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا يَحْسَبُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ خَدِيجَةَ بِنْتَ خُوَيْلِدٍ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ”
پہلی بات یہ کہ خویلد تاریخی طور پہ اس شادی سے پہلے فوت ھو چکے تھے ،لہذا ان سے منسوب یہ سارا واقعہ جھوٹ کا پلندہ ھے ، اور کتاب میں شامل کرنے سے پہلے صاحبِ مسند کو اس کی تحقیق کر لینی چاھیئے تھی کیونکہ بات نبی ﷺ کے نکاح اور ان کی آنے والی نسل کی ھے ، اور اگر اتنا وقت نہیں تھا تو کس نے منت کی تھی کہ مسند لکھنے بیٹھ جایئے ،، مسند احمد کی روایات اس قسم کی اور بھی بہت ساری متنازع کہانیون سے بھری پڑی ھے ،،
دوسری بات یہ کہ عرب شراب شوق سے پیتے تھے اور اس کو ایک اچھی اور قابلِ فخر بات جانتے تھے لہذا شرم دلانے والی اس میں کیا بات تھی ؟ عربوں کو سب سے زیادہ تعجب شراب کی پابندی پر تھا کہ یہ بھی قابلِ ممانعت چیز ھے ،، یسئلونک عن الخمر ،،،
اب آگے چلیئے ،،،
ھم یہ بات جانتے ھیں کہ نبئ کریم ﷺ کی صرف پہلی شادی ھی ضرورت کی شادی تھی ،، اور آپ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات تک کوئی دوسری شادی نہیں کی اگرچہ وہ عین شباب کا دور تھا ،، باقی ساری شادیاں مجبوری کی شادیاں تھیں ،حضرت سودہؓ سے شادی بچیوں کی پرورش کی مجبوری کی وجہ سے تھی ،، اس دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مطعم ابن عدی کو چونکہ جواب دے دیا تھا لہذا حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپ کی شادی اخلاقی مجبوری تھی کیونکہ آپ کی نیت سے ھی مطعم کے بیٹے جبیر ابن مطعم سے رشتے توڑا گیا تھا ،، اس کے بعد عورتوں کی مجبوریوں کی ایک داستان ھے کہ کس طرح وہ اسلام کی خاطر سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ھوئیں مگر کسی کا شوھر اسے چھوڑ کر بے دین ھو گیا تو کسی کا شھید ھو گیا ،، ان تمام واقعات مین انسان کا اپنا ضمیر یہ تقاضا کرتا ھے کہ اس جگہ اللہ کے رسول ﷺ کو آگے بڑھ کر ان کو سہارا دینا چاھیئے ،، اور نبئ کریم ﷺ نے بالکل ویسا ھی قدم اٹھایا ،، حضرت صفیہؓ جس طرح لُٹ پٹ کر آئی تھیں یہ ضروری تھا کہ شاھی اور نبوی خاندان کی عورت کو ویسا ھی مقام دیا جائے جس کی وہ مستحق ھیں ،،،، ان 9 شادیوں میں سے ھر ایک کا ایک معقول سبب موجود ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مگر اپنے وصال سے دو ماہ پہلے جبکہ نبئ کریم ازدواجی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ھونے میں دقت محسوس فرما رھے تھے اور اسی عذر کی وجہ سے آپ ﷺ ام المومنین سودہ بنت زمعہؓ کو طلاق دے دی تھی کہ میں تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتا ،،، اور ان کی طرف سے حقوق معاف کر دیئے جانے پر رجوع کر لیا تھا ،، آپ پر دو ایسی مضحکہ خیز شادیوں کا الزام دھر دیا گیا کہ جس کی کوئی جسٹیفیکیشن کوئی ذی شعور پیش نہیں کر سکتا ،، اگر حضور ﷺ نے حضرت سودہؓ سے سچ بولا تھا اور یقیناً سچ بولا تھا کہ آپﷺ اب حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں دشواری محسوس کر رھے تھے تو پھر ان ایمرجنیسی پلس شادیوں کی تُک نہیں بنتی ،،، اور نہ وہ طریقہ ایک حاکم اور نبی کے شایانِ شان ھے کہ جس طرح کھیتون کھلیانوں میں شادیاں کی گئیں ،،
1- آپ نے سنا بھی ھو گا اور پڑھا بھی ھو گا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ھے کہ عورت کے ساتھ شادی تین وجوھات کی وجہ سے کی جاتی ھے ،اس کے جمال کی وجہ سے یا مال کی وجہ سے یا دین کی وجہ سے ،، تم دین کو ترجیح دو ،،، مگر ان دونوں عیجب و غریب شادیوں میں دین دور دور تک نظر نہیں آتا ،بس حسن و جمال ھی کا دورہ دورہ ھے ،،،، پہلی عورت کو تو یہ ھی پتہ نہیں کہ اس کی شادی جس سے کی گئ ھے وہ اللہ کے رسول ھیں اور نہ اسے یہ پتہ ھے کہ اللہ کا رسول کون ھوتا ھے اور اس کا کیا مقام ھے ،، وہ آپ کو عام آدمی یعنی گرا پڑا سمجھتی ھے اگر سوقہ کا ترجمہ بازاری مرد نہ بھی کیا جائے تب بھی ،، حضور ﷺ کھیتوں کھلیانوں اور درختوں مین سے رستہ بناتے ھوئے کسی دوسرے کے گھر میں وظیفہ زوجیت ادا کرنے جاتے ھیں ( اور ایسا پہلی نو شادیوں میں اس طرح نہیں ھوا کہ نبی ﷺ نے چھپ کر کسی غیر کے گھر بیوی سے ملاقات کی ھو ) آپ نے جاتے ھی نہ سلام نہ کلام سیدھا عورت سے کہا کہ اپنا آپ میرے سپرد کر دے ،،، اس نے کہا کہ بھلا کوئی ملکہ اپنا آپ کسی گرے پڑے کو سونپتی ھے ،، آپ ﷺ نے تب بھی اس کو نہیں بولا کہ مین تیرا شوھر ھوں ،میں رسول اللہ ھوں ،اور تو نکاح کر کے مجھے اپنا آپ سونپنے کا معائدہ کر چکی ھے ،، اور یہ بات کہتے بھی کیسے کیونکہ نکاح تو ثابت ھی نہیں ،،کون اس کا ولی تھا ،کس نے نکاح کا خطبہ پڑھا تھا ،نبئ کریم ﷺ کی طرف سے کس وھاں قبول کیا تھا ،، حدیث شروع ھی یہاں سے ھوتی ھے کہ نبی ﷺ کے دربار میں عرب کی ایک عورت کے حسن و جمال کا چرچا کیا گیا تو آپ نے ابا اسید الساعدیؓ سے فرمایا کہ اس کی طرف بندہ بھیج کر بلوا لو ،،،،،،،،،،،،،، کیا نکاح اس طرح ھوتے ھیں ؟ جس کی بیٹی کی خوبصورتی کا قصہ سنا کہا اٹھا لے آؤ ؟ اور چرچا حسن کا ھوا ھے ،اس کی نماز ،روزے اور تقوے کا نہیں ،، آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ وہ تو رسولﷺ سے واقف تک نہیں تھا اور حضور ﷺ زبردستی شوھر بن رھے تھے جس کو اس نے مسترد کر دیا ،، جو ڈائیلاگ اس پہ ھوئے وہ آگے بیان کرتا ھوں مگر پہلے اس پر بھی غور فرما لیجئے کہ یہ ڈائیلاگ باھر کیسے نکلے ؟ کوئی شخص اپنی بیوی سے اتنی اونچی آواز میں جنسی گفتگو نہین کرتا کہ پورا محلہ سنے ،، باھر باغ میں کھیتوں مین چھپے بندے بھی سن رھے ھیں ،، بلکہ آنکھوں دیکھا حال بھی بیان کر رھے ھیں کہ اس کے سخت جملہ کہہ دینے اور حضور ﷺ کو ” سوقہ ” کہہ دینے کے باوجود آپ نے اپنا ھاتھ اس پر رکھ کر اسے مائل کرنے کی کوشش کی جس پر اس نے گھبرا کر آپ ﷺ سے اللہ کی پناہ مانگ لی ،، اللہ کی اس پناہ سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان بھی رکھتی تھی کیونکہ عرب سارے اللہ کو مانتے تھے ،، پھر ستم بالائے ستم یہ کہ کہہ دیا گیا کہ جناب وہ تو اس بیچاری سیدھی سادی عورت کو حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے جھوٹی پٹی پڑھائی تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ کو اعوذ باللہ منک ” بہت پسند ھے لہذا جب وہ تیرے قریب آئیں تو تُو جھٹ سے اعوذ باللہ منک کہہ دینا ،، تضاد کا نمونہ دیکھیئے کہ جب وہ حضور ﷺ کو سوقہ یا گھٹیا یا بازاری یا گرا پڑا آدمی کہہ رھی ھے تب فوراً کہہ دیا جاتا ھے کہ بےچاری کو پتہ نہیں تھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ھیں ،اور پھر ساتھ یہ جھوٹ بھی بولتے ھیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ اس کو پٹی پڑھا آئی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ کلمہ بہت پسند ھے ،گویا وہ عورت عرب نہیں تھی اور تعوذ کے معنی بھی اسے نہیں آتے تھے کہ کسی ناپسندیدہ چیز سے ھی اللہ کی پناہ مانگی جاتی ھے ،، :
( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي . قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك
حضور ﷺ اس کو کپڑوں کا جوڑا دے کر فارغ ھوئے تو رستے میں ایک اور صاحب مورچہ لگائے بیٹھے تھے گویا وہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ کتنے حسن پرست واقع ھوئے ھیں ، وہ جھٹ آگے بڑھے اور بولے آپ دل چھوٹا نہ کریں ،، میں آپ کو اس سے زیادہ حسین و جمیل اور جاہ و حشم والی عورت بتاتا ھوِں ،، ( یہاں بھی مجال ھے جو دینداری کا ذکر ھوا ھو ) آپ ﷺ نے پوچھا وہ کون ھے ؟ اس نے کہا کہ میری بہن ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا ” میں نے اس سے نکاح کیا ” یعنی نہ سوچا نہ سمجھا ، نہ دیکھا نہ بھالا ،، کہنے والی تو اپنی بیٹی کو خوبصورت کہتے ھی ھیں ، آپ ﷺ نے تو حکم دیا تھا کہ لڑکی دیکھ لیا کرو ،، وہ مشورہ کدھر گیا ؟ خیر اس شادی کا انجام پہلی سے بھی بُرا ھوا ،، وہ بھائی صاحب یمن اپنی بہن لینے گئے اور جب وھاں سے بہن لے کر چلے تو رستے میں ان کو خبر ملی کہ نبئ کریمﷺ کا تو وصال ھو گیا ھے ،، اور وہ دونوں بہن بھائی مرتد ھو گئے ،، ( گویا ام المومنین بھی مرتد ھو گئیں ؟ )
ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا
آگے لکہتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے،،
ھمیں اس عورت قتیلہ کے ام المومنین ھونے یا نہ ھونے کی بحث سے کچھ لینا دینا نہیں ،، بس یہ طریقہ نکاح جو روایت ھوا ھے کہ ایک خیمے سے عزت کرا کر نکلے ھیں تو گلی میں کھڑے کھڑے دوسرا نکاح کر لیا اور وہ بھی اس عورت سے کہ جو اتنے ایمان والی تھی کہ وفات کا سن کر ھی مرتد ھو گئ ،،، انا للہ و انا الیہ راجعون ،،،
سبحانک ھذا بہتانۤ عظیم ،،،،،،،،،،،،
سورہ النور میں اللہ پاک کی طرف سے نبئ کریم ﷺ اور آپ کے اھلِ بیت کے بارے میں اللہ کا طے کردہ یہ اصول انسانوں کے طے کردہ کروڑوں اصولوں پر فوقیت رکھتا ھے کہ جب بات نبی ﷺ اور ان کے گھر والوں کی ھو تو راوی مت دیکھیو گا ،، فُٹے اور فیتے لے کر راویوں کے قد ماپنے مت چل دیجئو گا ،، سنتے ھی سبحانک ھذا بہتانۤ عظیم کہہ کر اللہ کی پناہ میں آ جائیو گا اور اس واقعے کو اپنے نفس ،اپنی ذات اور اپنے ضمیر پر پیش کیجئو گا ،، جب تیری ذات ،تیرا ضمیر اور تیرا نفس اسے اپنی ذات کے لئے بھی قبول نہ کرے تو اسے کاشانہءِ نبوی کی طرف منسوب مت کیجئو گا کہ وہ تجھ جیسے کروڑوں اور اربوں نیک انسانوں سے بھی زیادہ نفیس اور نیک ، متقی اور خدا ترس لوگ تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ جن کو پاک کرنے اور پاک رکھنے کا عہد اللہ نے آخری کتاب میں لیا ھے ،،، اور یہ اصول جس واقعے پر طے کیا تھا ،ان سے زیادہ قوی راوی کوئی نہیں تھا ،،، حضرت حسان بن ثابت الانصاریؓ شاعرِ رسول ﷺ اور حضرت مسطح ابن اثاثہؓ مھاجر بدری صحابی اور حمنہ بنت جحشؓ نبی ﷺ کی پھوپھی زاد بہن اور سالی لگتی تھی ،، تینوں کی ثقاھت نہیں دیکھی گئ بلکہ 80،80 کوڑے مارے گئے ،،، اور قیامت تک اصول طے کر دیا گیا ،،،،
لولا إذ سمعتموه ظن المؤمنون والمؤمنات بأنفسهم خيرا وقالوا هذا إفك مبين ( النور -12)
جب تم نے اس خبر کو سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا ؟ اور سنتے ھی کہہ کیوں نہیں دیا کہ یہ واضح طور پر تراشا ھوا جھوٹ ھے ،، اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے یہی کہا تھا کہ اے ام ایوب اگر تم عائشہؓ کی جگہ ھوتیں تو کیا اس فعل کا ارتکاب کر لیتی؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی پناہ میں کبھی ایسا نہ کرتی تو انہوں نے فرمایا پھر عائشہؓ جو تم سے بہتر ھے وہ یہ فعلِ بد کیسے کر سکتی ھے اور صفوان مجھ سے بہتر اور بدری صحابی ھے وہ بھلا اس کا ارتکاب کیسے کر سکتا ھے ،،،؟؟
وَ ﻟَوْ ﻻ إِذْ ﺳَﻣِﻌْﺗُﻣُوهُ ﻗُﻟْﺗُمْ ﻣﺎ ﯾَﮐُونُ ﻟَﻧﺎ أَنْ ﻧَﺗَﮐَﻟﱠمَ ﺑِﮭذا ﺳُﺑْﺣﺎﻧَكَ ھذا ﺑُﮭْﺗﺎنٌ ﻋَظِﯾمٌ. ( النور-16)
اور جب تم نے اس خبر کو سنا اسی وقت یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ھم تو اس کو ماننا تو دور کی بات اس پر گفتگو تک کرنے کے روادار نہیں ، اے اللہ تو پاک ھے ( اس کمزوری سے کہ نبی کے حرم کی حفاظت نہ کر سکے ) یہ تو عظیم بھتان ھے ،،
یہ قصے دین کی بنیادی ضرورتوں سے متعلق نہیں ھیں کہ جن کے انکار سے ھمارے دین میں کوئی کمی ھو جاتی ھے یا ھماری عبادات کے طور طریقوں میں کوئی رکاوٹ پیدا ھوتی ھے ،، بلکہ ان کی حقیقت کہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں ،، چھُری سونے کی بھی ھو تو پیٹ میں نہیں گھونپی کا جا سکتی روایت قوی بھی ھو مگر میرا ایمان کھا جائے تو میں نے اس کی قوت کی تعریف نہیں کرنی کہ سبحان اللہ دس سیکنڈ میں میرے ساٹھ سال کے ایمان کو کھا گئ ھے بلکہ سانپ سمجھ کر ” ارمِ بہ ” کی طرح اٹھا کر پھینک دینی ھے ،جب میرا ایمان بالرسالت ھی متزلزل ھو گیا تو میں نے ان قوی اور قوی تر کہانیوں کو اوڑھنا ھے یا بچھونا بنانا ھے ؟ ھمیں اپنے ایمان بالرسالت کو بچانا ھے اور اسے لے کر اللہ کے حضور حاضر ھونا ھے ،، راوی اپنے اپنے ایمان کا حساب دیں گے ھم سے ھمارے ایمان کا حساب ھو گا ،، لہذا ایسی ھر روایت کو کہ جس سے نبی کریم ﷺ کی ذات و مقام ،یا آپ کے گھر والوں کو عیب لگتا ھو ،، نبی ﷺ پر ایمان کی قوت کے ذریعے رد کر دیں گے ، یہ نبی ﷺ کو چھوڑنے سے کم نقصان دہ ھے ،،،