موسی علیہ السلام اور فرعون ،، نبئ کریم ﷺ اور قیصر عظیم الروم
موسی اور ھارون علیھما السلام نے جاتے ھی فرعون کو بولا تھا ” والسلام علی من اتبع الھدی ” ؟ اگر ایسا ھے تو پھر تو یہ واقعی غیر مسلم کو سلام ھوا ،، لیکن اگر آدھا گھنٹہ تقریر کر کے ، دعوت پیش کر کے ، اپنا مدعا بیان کر کے یہ جملہ بولا تھا تو یہ سلام نہیں ھے بلکہ سلامتی کی دعوت ھے کہ اگر آپ نے ھماری دعوت کو قبول کر لیا تو اور اس میں موجود ھدایت کا اتباع کر لیا تو آپ کی موجیں ھی موجیں ھیں ، بادشاھی پہلے ھی آپ کے پاس ھے ، آخرت کے بادشاہ بھی بن جاؤ گے ،،
نبئ کریم ﷺ نے جو خط قیصر کو لکھا تھا اس میں پہلے اس کو ھرقل عظیم کہہ کر مخاطب فرمایا ، محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ھرقل عظیم کی طرف ،، دونوں عظیم ھستیاں ھیں مگر سلامتی اس کو حاصل ھے جس نے ھدایت کی پیروی کی ،، اور اس سلامتی کی طرف دعوت دی اور اس کی تفصیل بیان کی کہ اَسلم تُسلم ،، اسلام لے آؤ تا کہ تمہیں حقیقی سلامتی ( دونوں جہانوں والی ) ملے ،،، پھر دعوتِ توحید دی گئ ھے اور فرمایا گیا ھے کہ تم قبول کرو گے تو تم کو دیکھ کر جتنے لوگ مسلمان ھونگے ان سب کا اجر تم کو ملے گا ، تم کافر رھو گے تو اپنی مملکت کے سارے کافروں کے کفر کا گناہ تمہارے سر رھے گا ،، بسم الله الرحمن الرحیم من محمّد رسول الله إلی هِرقَل عظیم الروم،
سلام علی من اتبع الهدی ، امّا بعد فإنی أدعوک بدعایة الإسلام، أسلم تسلم یؤتک الله أجرک مرتّین فإن علیک إثم الأریسیّین ،
« و یا اهل الکتاب تعالوا إلی کلمة سواء بیننا و بینکم أن لا نعبد إلا الله و لانشرک به شیئاً و لایتخذ بعضنا بعضاً أرباباً من دون الله، فإن تولّوا فقولوا اشهدوا بأنّا مسلمون.»
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے روم کے عظیم ھرقل کی طرف،،،
سلامتی ھو اس پر جس نے ھدایت کی پیروی کی ، اس کے بعد میں دعوت دیتا ھوں تمہیں اسلام کی کی طرف ،، اسلام لے آؤ تو سلامتی پا جاؤ گے ،اور اللہ تمہیں دھرا اجر عطا فرمائے گا ،، ورنہ تمام رومی قوم کا گناہ تمہارے سر ھو گا ،
اور اے اھل کتاب آؤ اس کلمے کی طرف جو ھمارے اور تمہارے درمیان مشترک ھے کہ ھم نہ بندگی کریں مگر اللہ کی ،اور نہ اس کے ساتھ شریک کریں کسی کو بھی – اور نہ انسانوں میں سے ایک دوسرے کو رب بنائیں سوائے اللہ کے ، پھر اگر وہ مکر جائیں تو تم کہہ دو کہ ھم تو ان باتوں کو تسلیم کرنے والے ھیں ،،
اس میں قیصر کے لئے ” ھرقل عظیم الروم ” کا لقب خود پکار پکار کر بولتا ھے کہ اس کو عظیم سمجھ کر اوع عظمت دے کر دعوت دی گئ ھے کوئی گرا پڑا نہیں سمجھا گیا ،، اس کا جواب بھی ویسا ھی تھا ، اس نے آپﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور تحفے بھیجے جن میں ماریہ قبطیہ بھی تھیں اور خچر بھی تھا جنہیں نبئ کریم نے تاحیات اپنے پاس رکھا ،،
و ردّ علیه هرقل بعد قبول کتاب رسول الله-ص- قائلاً:
إلی أحمد رسول الله الّذی بَشَّرَ به عیسی [علیه السلام] من قیصر ملک الروم إنّه جاءنی کتابک مع رسولک و إنّی أشهد أنک رسول الله –ص- نجدک عندنا فی الإنجیل بشّرنا بک عیسی بن مریم و إنی دعوت الروم إلی أن یؤمنوا بک فأبوا و لو اُطاعونی لکان خیراً لهم و لَوَدَدتُ إنّی عندک فأخدمک و أغسّل قدمیک.
احمد ﷺ اللہ کے رسول کے نام جس کی بشارت دی عیسی علیہ السلام نے روم کے بادشاہ قیصر کی طرف سے ،، آپ کے سفیر کے ھاتھ آپ کا خط ملا اور میں گواھی دیتا ھوں کہ آپ اللہ کے رسول ھیں ،، ھم آپ ( کے تذکرے ) کو پاتے ھیں اپنی انجیل میں ،ھمیں بشارت دی اس کی عیسی علیہ السلام نے اور میں نے اھل روم کو دعوت دی کہ وہ آپ پر ایمان لے آئیں مگر انہوں نے انکار کر دیا ،،اگر وہ میری بات مانتے تو یہ ان کے لئے بہتر ھوتا ،، میری دلی خواھش ھے کہ میں آپ کے پاس ھوتا تو آپ کا خادم ھوتا اور آپ کے قدم دھوتا ،،
حضور ﷺ نے محمد ﷺ لکھا تھا قیصر نے جواب میں احمدﷺ لکھا جو انجیل میں بشارت دیا گیا نام تھا ” و مبشراً برسولٍ یاتی من بعدی اسمہ احمد "