ھم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے

ھم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے !

April 18, 2014 at 5:41pm

اگست کی تپتی دوپہر ، تندور کی طرح لـُـو کی لپٹیں اٹھاتی گلیوں میں سے وہ دوڑتا ھوا ماں کے پاس پہنچا جو ایک تالاب پر کپڑے دھونے آئی ھوئی تھی !

امی ، امی ابو کا خط اس نے ماں کو خوشخبری سنائی ! تیسری کلاس میں پڑھتے اپنے بیٹے کے تپتے ھوئے چہرے کو دیکھتے ھوئے اس نے اسی کو خط پڑھنے کو کہا کیونکہ وہ خود ان پڑھ تھی !

بیٹا خط کھول رھا تھا اور وہ کھڑی ھو کر کوئی کپڑا نچوڑ رھی تھی جب اچانک بیٹے نے خط کا سرنامہ پڑھا ،،،،،،،،،،،طلاق نامہ ،،،،،،،،،،،،،،

سرنامہ پڑھ کر بچے نے مزید آگے پڑھنے سے پہلے ماں کی طرف دیکھا، جس کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر دوبارہ تالاب کے پانی میں گر گیا تھا اور وہ کمر کو پکڑ کر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی ! معصوم بچہ جسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ طلاق نامہ کیا بلا ھوتی ھے ! یہ خوشخبری ھوتی ھے یا کسی کی زندگی کی تباھی کا اعلان نامہ ! وہ ماں کی حالت دیکھ کر پریشان ھو گیا جو اسے ھاتھ کے اشارے سے مزید آگے پڑھنے سے روک رھی تھی ! ماں نے دھلے ان دھلے سارے کپڑے لپیٹے اور گھر واپس آ گئ ! فردِ جرم یہ لگائی گئ کہ میں نے جب تمہیں بہن کے گھر جانے سے منع کیا تھا تو تم اس کے گھر کیوں گئ ھو ! وہ دو بہنیں ھی تھیں اور کوئی ان کا تھا بھی نہیں ! نہ والدین نہ بھائی !

طلا ق کے بعد وہ 24 سال کی عمر میں بہن ھی کے گھر کے ایک کمرے میں رھنے لگی ! باپ کی کوشش کے باوجود بیٹا ماں کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا ، حساس طبیعت بچے نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا دکھ بنا لیا اور اس دکھ کو محنت میں تبدیل کر کے تعلیم پر پوری توجہ مبذول کر دی،، وہ اس چھوٹی عمر میں ھی محنت کرنے لگ گیا اور اپنے تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرتا ! ماں اسے چنے چاٹ بنا دیتی جو وہ عصر اور مغرب کے درمیاں بیچ دیتا ،، وہ بورا تربوز کا ایک دفعہ خرید لیتے جسے وہ روزانہ عصر کے بعد اور چھٹی والے دن بیچتا،، ماں لوگوں کے گھروں کا کام کرتی یوں گھر کے اخراجات چلتے ! وقت گزرتے دیر نہین لگتی بی اے کرنے کے بعد اس نے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے پاس کیا ،، لاھور ھائی کورٹ سے لائسنس ملنے کے بعد اس نے اپنی تحصیل میں پریکٹس شروع کی ! عموماً وہ سول کیس لیتا تھا اور خاص کر طلاق کے کیس تو اس کے پاس کثرت سے آتے تھے ! وہ جب عدالت میں کھـڑا ھوتا تو ھر طلاق یافتہ عورت اسے اپنی ماں لگتی وہ ان عورتوں کے مستقبل کو یوں جانتا تھا جیسے اپنی ماں کے ماضی کو ،، اپنا درد جب وہ الفاظ میں سمو کر جج سے مخاطب ھوتا تو پوری عدالت کا ماحول جذباتی ھو جاتا ،، وہ سب کچھ جو وہ چھوٹا ھونے کی وجہ سے باپ سے نہ کہہ سکا تھا وہ طلاق دینے والے کے کانوں میں پگھلے ھوئے سیسے کی طرح اتار دیتا،، بہت سارے مقدموں میں صلح بھی ھو جاتی اور گھر بس جاتے ،مگر ھر کیس کا فیصلہ اس کے حق میں ھی ھوتا !

وقت نے اسے سول جج اور میجسٹریٹ دفعہ 30 بنا دیا ،،

 

ماں کے دکھ نے اسے مذھب کی طرف مائل کر دیا تھا ! دکھ ایک دھکا ھوتا ھے جو کسی کو گمراھی کے تالاب میں گرا دیتا ھے تو کسی کو اللہ کے قدموں میں لا ڈالتا ھے ! اس نے سکول کی تعلیم کے دوران ھی قرآن بھی حفظ کر لیا تھا ! جب وہ اپنی مشت بھر داڑھی کے ساتھ قراقلی پہن کر عدالت میں بیٹھا ھوتا تو لگتا کوئی خطیب ھے، وہ ظہر کی نماز کا وقفہ کر کے باقاعدہ نماز جماعت کے ساتھ کچہری کی مسجد میں ادا کرتا ! اس کی شادی اسی خالہ کی بیٹی سے کر دی گئ تھی جن کے گھر وہ رھتا تھا !

عدالت میں جب بھی کوئی طلاق کا کیس آتا تو اسے ایک لمحے کے لئے ایک جوان عورت کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر گرتا نظر آتا اور دوسرے لمحے وہ عورت اپنی کمر پہ ھاتھ رکھے زمین بوس ھوتی نظر آتی ! ساری زندگی یہ کلپ اس کا پیچھا کرتا رھا ،جس کا پرتو اس کے ھر فیصلے میں نظر آتا ! ماں کی دعاؤں کا اثر تھا یا اس کی دیانت تھی کہ وہ جھٹ پٹ سول سے سیشن جج بنا اور اس کی پوسٹنگ اسلام آباد کچہری میں ھو گئ،، جہاں اسے کئ وزراء اعظم کی ضمانت اور کئ کے وارنٹ جاری کرنے پڑے ! 

 

اس کے والد اور والدہ مقبوضہ کشمیر کے ایک ھی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے ! 1948 کی ھجرت کے دوران اس کی والدہ کا سارا خاندان تہہ تیغ کر دیا گیا تھا ،، صرف دو بہنیں زندہ بچ گئ تھیں وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ اس وقت کسی کے گھر گئ ھوئی تھی کھیلنے کے لئے ! اس کے نانا گاؤں کے امیر ترین آدمی تھے ! گائیں بھینسیں زمینیں اور کھیتی باڑی ،، ھندو ان کے ملازم تھے اور وھی ڈوگروں کو چڑھا کر لائے تھے ! اس کے دادا نے گاؤں سے نکلتے وقت ان دونوں بہنوں کو بھی ساتھ رکھ لیا یوں اس کے والد اور والدہ ایک ھی گھر میں اکٹھے کھیل کود کر جوان ھوئے تھے !

یہ شادی بھی دونوں کی رضامندی سے ھوئی تھی ! طلاق کے باوجود والدہ نے کبھی بھی اسے والد کے خلاف نہیں بھڑکایا ،ھمیشہ اسے والد کا احترام کرنے کی نصیحت کی، والد نے دوسری شادی کر لی تھی جس سے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں،، دوسری بیوی نے اس کے والد کو تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تو اولاد تو اللہ کا عذاب بن کر آئی ،، اسے اکثر اپنی والدہ کی بات یاد آتی، بیٹا وہ تیرے والد ھیں،تو ان سے تعلق رکھ اور ان کا احترام کر ،، میرا حساب اللہ دنیا میں چکا دے گا ورنہ آخرت تو پڑی ھوئی ھے وھاں دیکھ لیں گے ! مگر وہ سلام دعا کرنے کے باوجود والد کے ساتھ کوئی قلبی تعلق پیدا نہ کر سکا ! اس کا والد جب اپنے دوسرے بیٹوں کے پیچھے گلی گلی ٹوکا لیئے دوڑ رھا ھوتا تو اسے تعجب ھوتا کہ کل تک اتنا سنجیدہ انسان جو اس کا آئیڈیل تھا ، آج اولاد اسے کس مقام پر لے آئی تھی ! سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ ھونے کے بعد اس کے والد کا رعب داب اور ٹھاٹ بھاٹ سب ختم ھو گئے تھے،، جب کبھی وہ گھر میں والد صاحب کی درگت بیان کرتا تو اسے محسوس ھوتا جیسے اس کی ماں بجائے خوش ھونے کے دکھی ھو جاتی ھے ! یہ بات اسے بعد میں اچھی طرح معلوم ھو گئ کہ اس کی ماں طلاق کے صدمے کے باوجود اس کے والد کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکی تھی ،، اور اسی وجہ سے اس نے دوسری شادی کے لئے نہایت معقول پیش کشیں ٹھکرا دی تھیں !

جب کبھی وہ دوسرے بھائیوں کی شرارتیں اور والد کا گلی گلی ان کے پیچھے دوڑنا ماں کو بتاتا تو وہ افسردہ ھو کر کہتی ” بیٹا جب انسان اللہ کی ناشکری کرتا ھے تو اس کی سزا بھی اسی صورت میں پاتا ھے،، تیرے جیسے ھونہار بیٹے کا بچپن خراب کر کے تیرے ابا نے اللہ کی ناشکری کی تھی، اللہ نے اولاد ھی کی صورت میں ان کو عذاب دے دیا اور میرے ساتھ جو کیا ،، وہ دوسری بیوی کی صورت میں پا لیا ! تو ان کے یہاں جایا کر اور جو خدمت ھو سکتی ھے وہ بھی کیا کر ،، وہ اولاد کی طرف سے دکھی ھیں،، تو کوشش کیا کر کہ تو ان کو وقت دے سکے ! ماں کے مجبور کرنے پر جب کبھی وہ مسجد سے نماز پڑھ کر والد کے ساتھ ھی ان کے گھر جاتا تو ،، اسے محسوس ھوتا جیسے والد اپنے کیئے کی کوئی وضاحت کرنا چاھتے ھیں مگر شاید ان کو الفاظ نہیں ملتے یا وہ اس کے رد عمل سے ڈرتے ھیں کہ کہیں جو تھوڑا بہت تعلق ھے وہ بھی نہ ٹوٹ جائے ! ایک دفعہ رات کو زور کی آندھی چلی ،گرمیوں کا موسم تھا سارے چھتوں پہ سوئے ھوئے تھے وہ اس وقت نویں کلاس میں پڑھتا تھا ،، والدہ نیچے صحن میں تھی اور وہ انہیں چھت پر سے چارپائی پکڑا رھا تھا جب ھوا کے تیز تھپیڑے نے اسے چھت سے نیچے دھکیل دیا ! اس کے والد جو پڑوس میں اپنی چھت پر سے یہ منظر دیکھ رھے تھے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ سیڑھیاں اترنے کی بجائے چھت پر سے گلی میں چھلانگ لگا کر دوڑے ، اور سیدھے ان کے گھر میں آ گھسے ! وہ چھت سے چھاتی کے بل گرا تھا اور سینے پر براہ راست لگنے والی چوٹ نے شاید اس کا دل بند کر دیا تھا یا گرتے وقت جو چیخ اس نے ماری تھی پھر پھیپھڑوں پر لگنے والے دھچکے نے سانس کا ردھم الٹا کر رکھ دیا تھا،، وہ سانس اندر لینا چاھتا تھا جبکہ پھیپھڑوں میں ایکسٹرا بھری ھوئی ” ھوا ” سانس اندر آنے نہیں دے رھی تھی بلکہ باھر دھکیل رھی تھی،، جو بھی تھا اس کی آنکھیں سفید ھو چکی تھیں اور والدہ کو اس آدھی رات اپنا چاند ڈوبتا نظر آرھا تھا ! ایسے میں اس کے والد کی آمد نے ماں کو حوصلہ دیا انہوں نے آتے ھی اس کی حالت کا اندازہ لگا لیا اور اسے لیٹے لیٹے اپنے منہ سے سانس دی ،اور پھر بٹھا کر اس کی چھاتی کو ملنا شروع کیا ! اس کی حالت سنبھل گئ تو والد نے اس کی والدہ سے کہا کہ میں دودھ بھیجتا ھوں اسے گرم دودھ میں ھلدی ڈال کر دو ! یہ پہلا مکالمہ تھا جو اس نے چھ سالوں بعد اپنے والد اور والدہ کے درمیان سنا تھا ! صبح اس کی سوتیلی ماں آئی تو اس نے بتایا کہ رات کو انہوں نے سیڑھیوں سے اترنے کی بجائے باھر گلی میں چھلانگ لگا دی تھی جس کی وجہ سے ان کے اپنے پاؤں میں سخت موچ آ گئ ھے ! اس دن اسے احساس ھوا کہ اس کے والد بہرحال اس سے پیار کرتے ھیں !؛

 

پارٹ ٹائم ٹیویشن پڑھانے کے باوجود والدہ اور اپنی یونیورسٹی کے اخراجات کے لئے اسے پیسے کا انتطام کرنا مشکل ھو رھا تھا ! ایسے میں گاؤں کے ایک صاحب جو اس کے والد کے دوست تھے اور لندن سے پینشن لینے کے بعد مستقل گاؤں میں ھی آ کر آباد ھو گئے تھے ! نام تو ان کا نور حسین تھا مگر کافی تعلیم یافتہ بھی تھے اور گورے چٹے ھونے کی وجہ سے لوگ ان کو بابو جی ،بابو جی کہہ کر پکارا کرتے تھے ! انہوں نے اسے ایک دن بلایا اور کہا کہ مجھے معلوم ھے کہ تعلیم کی وجہ سے آپ کو اخراجات کو manage کرنا مشکل ھو رھا ھے،، میں آپ کی یونیورسٹی کی سہ ماھی فیس جمع کرا دیا کروں گا ، آپ جب کام پر لگ جاؤ گے تو مجھے آئستہ ائستہ اسی ترتیب سے ادا کر دینا ! خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ،، ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے اتر گیا تھا !

جس دن اس کی گریجویشن کی تقریب تھی وہ خود بابو جی کے پاس چل کر گیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ یونیورسٹی مہمان کے طور پہ چلیں ! انہوں نے اسے کہا کہ بہتر یہ ھے کہ وہ اپنے والد کو ساتھ لے کر جائے کیونکہ یہ ان کا حق ھے مگر اس نے کہا کہ سر آپ نے میرے اوپر اتنی مہربانی کی ھے ، آپ نے والد والی جگہ کام کیا ھے ،، آپ بھی میرے والد کی جگہ ھیں اسی لئے میں خود چل کر آپ کے پاس آیا ھوں ،، انہوں نے اس کا ھاتھ پکڑ کر اپنے دائیں طرف بٹھایا اور بڑی سنجیدگی سے کہا ” یاد رکھنا والد والی جگہ دنیا میں کوئی نہیں لے سکتا ” یہ دھوکا زندگی میں کبھی نہ کھانا ،، میں نے جو کچھ تمہارے ساتھ کیا ،، تمہارے والد کے کہنے پر ھی کیا ھے، وہ سارے پیسے تمہارے والد کے ھی تھے اس نے اپنے چراٹ سیمنٹ کمپنی کے سارے شیئر مجھے بیچ کر وہ رقم تمہارے لئے ارینج کی تھی ،، تمہیں اس لئے نہیں بتایا گیا تھا کہ شاید تم جزباتی ھو کر پیسے قبول کرنے سے انکار کر دو ،، بیٹا تمہارا باپ تمہارے ساتھ نہایت مخلص ھے ، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، اور تمہاری ماں کے ساتھ اس نے جو کیا ھے وہ اس پر بھی شرمندہ ھے ،، بقول اس کے اس نے ایک ھی طلاق لکھی تھی اور وہ بھی ڈرانے کی نیت سے ،،مگر وہ یہ سمجھتا تھا کہ طلاق تین دفعہ لکھنے سے ھی واقع ھوتی ھے ،، بس یہ وہ غلط فہمی ھے جو اکثر لوگوں کو ھوتی ھے کہ تین دفعہ طلاق لکھو تو طلاق ھوتی ھے ! وہ بابو جی کے پاس سے اٹھ کر آیا تو سیدھا ماں کے پاس گیا اور ان کو وہ سب کچھ بتایا جو بابو جی سے سن کر آیا تھا ! ماں نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں اسی لئے ھمیشہ یہ کہا تھا کہ اپنے والد کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آؤ ! وہ دل کے بہت اچھے انسان ھیں ! طلاق والی بات بھی انہوں نے مجھے کسی ذریعے سے پہنچائی تھی کہ وہ مسئلہ پتہ کر کے رجوع کر لیں گے مگر میں نے انکار کر دیا تھا،، البتہ پیسوں والی بات میرے لئے نئ ھے ، تم جاؤ اور ان کو کل کے لئے دعوت دو اور اصرار کر کے انہیں ساتھ لے کر جانا !

وہ والد صاحب کی حویلی میں داخل ھوا تو اس کی باڈی لینگویج ھی تبدیل ھو چکی تھی ، آج وہ شرمندہ شرمندہ سا لگ رھا تھا ، والد صاحب کے ھاتھ میں چائے کی پیالی تھی جو انہوں نے اسے ھی پکڑا دی اور اپنے لئے دوسری پیالی منگوا لی ! عام طور پہ وہ والد صاحب کے گھر بہت کم کھاتا پیتا تھا مگر آج اسے احساس ھوا کہ وہ گھر میں بھی والد صاحب کا ھی کھا رھا تھا ! جب وہ چائے پی چکا تو والد صاحب نے پیالی پکڑنے کو ھاتھ آگے بڑھایا ، اس نے پیالی تو نیچے رکھ دی اور والد صاحب کا ھاتھ پکڑ لیا ،، ان کا ھاتھ اپنے دونوں ھاتھوں میں لے کر اس نے انہیں کہا کہ کل اس کی گریجویشن تقریب ھے ،وہ چاھتا ھے کہ وہ اس کے ساتھ چلیں،، اسے محسوس ھوا جیسے والد صاحب کا ھاتھ آئستہ سے کانپا ھے ! انہوں نے اسے گہری نظر سے دیکھا اور حامی بھر لی !

 

تقریب میں اس کے دائیں طرف والد صاحب اور بائیں طرف والدہ تھیں ! جب وہ سند لے کر اترا تو سیدھا ماں کی طرف آیا ماں نے اس کا ماتھا چوما ، وہ رو رھی تھیں،، اس دن کے انتظار میں وہ زندہ تھیں،، ماں سے مل کر وہ والد صاحب کی طرف جھکا تو وہ والدہ کی طرح ماتھا چومنے کا منتظر تھا ،کیونکہ خوشی کے موقعے پر اس ماتھا چومنے کی رسم کے علاوہ اسے اور کسی رسم کا تجربہ نہیں تھا، مگر آج اسے ایک نیا تجربہ ھونا تھا ،، وہ جب تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو جب بھی والد گھر آتے وہ ھمیشہ ان کے پاس سوتا تھا، ان کے پسینے کی خوشبو اس پہ جادو کا اثر کرتی تھی ! ماں کو طلاق ھو جانے کے بعد اس نے کبھی اس پسینے کی خوشبو نہ سونگھی تھی نہ اس کا مطالبہ کیا تھا اور نہ وہ اس کی امید رکھتا تھا ! باپ نے جب اسے کھینچ کر سینے سے لگایا تو 16 سال پرانی پسینے کی خوشبو نے اس کی ھستی میں وھی دھمال مچا دی جو گرم توے پہ ٹھنڈے پانی کے قطروں کے گرنے سے مچتی ھے ! اس کے اندر کا تیسری کلاس کا اسٹوڈنٹ ، ابا جی کے پسینے کا نشئی بچہ سارے دائرے تہس نہس کرتا باھر نکل آیا تھا،، وہ بلک بلک کر رو دیا،، اس کے دوست اور دیگر مہمان جو ٹوپیاں اچھال رھے تھے اور قہقے لگا رھے تھے وہ کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے تھے، وہ بھی اس فیملی کے انوکھے رد عمل پر حیران تھے کہ یہ کیسی خوشی منائی جا رھی تھی

 

والد صاحب مسلسل ٹینشن میں رھنے لگے تھے کیونکہ ان کا دوسری بیوی سے بڑا بیٹا ھر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی معاملے میں تھانے جا پہنچتا ، کبھی چرس تو کبھی لڑائی جھگڑا ! یہ ٹینشن ان کے لئے فالج کو لے کر آئی ،، اسے یہ خبر عدالت میں ایک مقدمے کی بحث کے دوران دوسرے وکیل نے آ کر بتائی کہ اس کے والد کو فالج کا اٹیک ھوا ھے ! وہ بحث مؤخر کر کے کیس کی تاریخ لے کر جب گھر پہنچا تو والد صاحب کے گرد ساری برادری اکٹھی ھو چکی تھی اور لوگ اپنا اپنا ثواب کمانے کے لئے ان کے منہ میں پانی ڈالنے کے چکر میں تھے ! اس کو دیکھتے ھی انہوں نے اسے چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کمزور سی ڈوبتی آواز میں کہا کہ تم نے آنے میں دیر کر دی ! اس نے بچپن سے اپنے اللہ سے بڑا قریب کا تعلق رکھا تھا،، اسی سہارے پہ تو وہ اس منزل تک پہنچا تھا،، اس نے کہا ابا جی آج کل فالج کوئی اتنی بڑی بیماری بھی نہیں ھے، برادری والوں کو اس نے سمجھا کر بٹھا دیا اور گاڑی کے لئے سوتیلے بھائی کو بھیج دیا ! والد صاحب نے کہا کہ میرے نچلے دھڑ سے جان نکل چکی ھے تم میرا مردہ خراب نہ کرو ! ان کا پریشر260/160 چل رھا تھا،، اس نے انہیں گاڑی میں ڈالا اور شہر کے بہترین پرائیویٹ اسپتال لے گیا ،، جہاں پہلے تو ان کا بلڈ پریشر کنٹرول کیا گیا اور پھر مثانے کی غدود کا آپریشن کیا گیا جس نے پورا مثانہ بھر رکھا تھا اور اسی کی وجہ سے بلڈ پریشر اتنا اوپر جا رھا تھا کیونکہ وہ ساری ساری رات کھڑے قطرہ قطرہ پیشاب کرتے رھتے تھے مگر کسی کو بتایا تک نہیں ، اور یہ ان کی شروع سے عادت تھی کہ وہ اپنی تکلیف کسی کو بتاتے نہیں تھے،بس اپنی ذات پر جھیل لیتے تھے ! دس دن کے بعد وہ اسپتال سے پلٹے تو اگلے دس سال تک جیتے رھے ! ایک دن انہوں نے اسے کہا کہ وہ ان کی سوا دو کنال حویلی میں سے ایک کنال میں اپنا مکان بنا لے ،، کیونکہ وہ چاھتے ھیں کہ دوسری بیوی کے بچوں پر وہ نگرانی رکھے اور ان کی سرپرستی کرے ! ان کے حکم پر اس نے اپنا مکان ان کے سامنے بنا لیا ،یہ وہ وقت تھا جب وہ سول جج بن چکا تھا ! بس یہ وہ دور تھا جسے سنہرا دور کہا جا سکتا تھا ! ایک دن اس نے سنا کہ اس کا سوتیلا بھائی چرس سمیت نصیر آباد چوکی پر پکڑا گیا ھے،، اسے معلوم تھا کہ والد صاحب پریشان ھونگے مگر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ،، صبح اس نے اپنے چیمبر کی کھڑکی سے والد صاحب کو دیکھا وہ کچہری میں تھیلا لئے پھر رھے تھے ! وہ سمجھا والد صاحب ضمانت کے چکر میں دھکے کھا رھے ھیں،، وہ انہیں بتانا چاھتا تھا کہ یہ کیس قابلِ ضمانت نہیں ھے ، وہ وقت ضائع نہ کریں،، اس نے اپنے اہلمد کو بھیجا کہ وہ بابا جی کو بلا کر لائے ،، والد صاحب آئے تو اس نے انہیں بٹھا کر چائے پانی پلانے کے بعد بتایا کہ فی الحال بھائی کی ضمانت ممکن نہیں ،جب چالان پیش ھوا تو میں ضمانت کا بندوبست کر لوں گا ،،مگر وہ بولے تو انہوں نے اسے شرمندہ کر کے رکھ دیا ،،کہنے لگے ضمانت کرانی ھوتی تو میں رات کو ھی تمہیں کہہ دیتا ،،مجھے اس کی ضمانت نہیں کرانی اور نہ کبھی تم اس کی کوشش کرو گے،، تم اپنے دامن پہ کوئی دھبہ مت لگاؤ ،، میں تو تحصیلدار کے دفتر سے آ رھا ھوں ،،میں نے سارے مکان اور زمینیں تمہارے نام کرا دی ھیں،، انہوں نے کاغذ تھیلے سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیئے ،، انہوں نے ایک انچ بھی نہیں چھوڑا تھا ،، ساری زرعی زمین اور مکان اس کے نام کر دیئے تھے ! یہ آپ نے کیا کر دیا ؟ اس نے پریشانی سے کہا،، یہ تو ھم بھائیوں میں دشمنی شروع ھو جائے گی ،، پھر لوگ کیا کہیں گے کہ باپ کو ھاتھوں پہ ڈال کر سب کچھ ھتھیا لیا ! کچھ نہیں ھو گا،، میری انکھیں بند ھوتے ھی وہ سب کچھ بیچ دیں گے ،ماں بھی ان سے ڈرتی ھے – تم ان کو خرچہ دیتے رھنا اور اگر سدھر گئے تو ان کا حصہ ان کو دے دینا،، نہ سدھرے تو میں حلال کی کمائی چرس اور شراب میں ضائع کرنے کے لئے نہیں دے سکتا ! تقریباً دس سال نہایت پیار اور محبت سے گزرے تھے ،، ابا جان اس کے بچوں سے اس کے بچپن کی باتیں کرتے تو بچے قہقے مار کر اس کا مذاق اڑاتے ،، اس دوران اس کی امی بھی مسکراتی رھتیں ،، اس کی پوسٹنگ منڈی بہاولــدین میں تھی ! والدہ اور بیوی بچے اس کے ساتھ تھے ،جب اسے صبح 4 بجے والد صاحب کی فوتگی کی اطلاع ملی ،، وہ آدھے گھنٹے میں ھی ختم ھو گئے تھے،، دل کی تکلیف شروع ھوئی تو خود اٹھ کر دوا کھائی بیٹے کو بیجھا کہ چچا سے بولو گاڑی لاؤ،، چارپائی گاڑی پر رکھی گئ، ساری میڈیکل رپورٹیں ساتھ لے کر خود دھوتی مضبوطی سے باندھ کر گاڑی پر چڑھے اور چارپائی پر لیٹ گے،، 5 کلومیٹر جب ڈاکٹر کے گھر جا کر دروازہ بجایا اور ڈاکٹر نے باھر نکل کر پاؤں پہ ھاتھ رکھا تو انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ دیا،،پھر اوپر چڑھ کر آنکھ میں بیٹری مار کر کہا کہ بابا جی تو ٹھنڈے بھی ھو گئے ھیں،، بس اتنی دیر لگی،،چارپائی کے سرھانے بیٹھے بیٹے اور بھتیجے کو بھی پتہ نہیں چلا کب روح مسافر ھو گئ ؟ اس نے گاڑی بک کی اور والدہ کو بھی ساتھ لیا بچے ساتھ لیئے اور نکل پڑے،، رستے میں کھاریاں پہنچ کر والدہ کی طبیعت ناساز ھو گئ ، اس نے انہین کہا کہ آپ رو لیں آنسو نکلیں گے تو شاید طبیعت ھلکی ھو جائے گی،، ان پڑھ ماں نے ایسی پتے کی بات کی کہ اس کی روح تک اتر گئ !

 

امی نے کہا "آنسو  "! بیٹا یہ آنسو تو پچھلی دو دھائیوں سے بہہ رھے ھیں مگر کوئی آرام نہیں آیا ،،کیا آنسو باھر ھی بہتے ھیں؟ یہ آنسو اندر ھی اندر نہیں بہہ سکتے ؟ کیا یہ دریا باھر زمین پر ھی بہتے ھیں ؟،، زیر زمین چشمے نہین بہتے ! بیٹا باھر کے آنسو آسان ھوتے ھیں انہین پونچھنے والے بھی مل جاتے ،،انسان کو کھوکھلا وہ آنسو کرتے ھیں جو اندر ھی اندر بہتے اور زمین کی طرح اس کی ھستی کو بھی اس طرح کھوکھلا کرتے ھیں جیسے بڑے بڑے مضبوط پل بیٹھ جاتے ھیں،، عمارتیں زمین بوس ھو جاتی ھیں ! اس دن لوگوں کو پتہ چلتا ھے کہ اس عمارت کے نیچے سے تو کب کی زمین نکل گئ تھی،یہ بس اپنی بناوٹ کے زور پہ کھـڑی تھی،، انہوں نے بچوں کے سر پہ ھاتھ پھیر کر کہا دیکھو ان معصوموں کو کبھی اس عذاب میں مبتلا مت کرنا جس سے تم گزرے ھو ،، زندگی میں کئ بار وہ مقام آئیں گے جب تم اپنی انا کے گرداب مین پھنسو گے،،یاد رکھو اس گرداب سے تمہیں صرف یہ بچے نکالیں گے،،ان کے مسقبل کی خاطر تم دونوں صبر اور حوصلے سے کام لو گے،، جہلم پہنچ کر ان پر نیم غشی کی کیفیت طاری ھو گئ،، اس نے گاڑی سی ایم ایچ کی طرف مڑوا لی ،، اسپتال جا کر انہیں ابتدائی طبی امداد ھی دی جا رھی تھی کہ انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی ! اس پر سکتہ طاری ھو گیا،، یہ اچانک خوشیوں کو آگ کیسے لگ گئ ؟ اس کو مسلسل قے شروع ھو گئ،، جس پر سے فوری طبی امداد دی گئ، اس دوران ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا بیوی بچے تو گاڑی میں تھے مگر وہ ایمبولینس میں سوار ھو گیا ،، سارا رستہ وہ کبھی ماں کا سر چومتا تو کبھی ان کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روتا رھا ! جب ایمبولیس گاؤں پہنچی تو کہرام مچ گیا،، والدہ کی میت بھی والد صاحب والے گھر اسی صحن مین رکھی گئ تا کہ خواتین کو تکلیف نہ ھو ! دو قبریں تیار کی گئیں ،، اس کے جاننے والے وکیل اور کئ جج بھی جنازے مین شرکت کے لئے پہنچے ھوئے تھے،، والد صاحب کی چارپائی پر آ کر اس نے ان کے پاؤں پکڑے کچھ دیر ان کو پیار سے سہلانے کے بعد وہ جھکا اور آنسوؤں تر اپنے ھونٹ ان قدموں پر رکھ دیئے ،، یہ وہ پیار تھا جو وہ بچپن میں والد صاحب کے سونے کے بعد لیا کرتا تھا ﷺ اور آج وہ ھمیشہ کی نیند سو گئے تھے ! وہ ابا کے قدموں پہ منہ ٹیکے پاؤں کے بل کتنی دیر بیٹھا رھا، آج وہ جنت کے دونوں بند دروازوں پہ دستک دے رھا تھا کبھی ماں کا سر چومتا تو کبھی بابا کے قدم !

دونوں جنازے تیار کیئے گئے،، وہ باوقار انداز مین ساتھ ساتھ چل رھا تھا، اس کے اندر ایک بچہ بلک رھا تھا مگر بظاھر وہ سیشن جج تھا جس کے ارد گرد تین تحصیلوں کے وکیل تھے اور سول ججز اور دیگر عہدیدار تھے،، وہ نہایت باوقار انداز مین کبھی ابا کی چارپائی کو کندھا دیتا تو کبھی امی کی چارپائی کو !  دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ بنائی گئ تھیں یوں دونوں مل کر اس کی زندگی کو ایک خاص دھارے میں ڈھال کر خود چل بسے تھے